جان میک کین : جنگی ہیرو یا جنگی مجرم؟۔۔۔۔۔ مشتاق علی شان

گزشتہ دنوں امریکی سینیٹر، ری پبلکن پارٹی کے رہنمااور سابق صدارتی امیدوار جان میک کین کی موت پر امریکا سمیت عالمی سیاسی شخصیات نے تعزیتی تاثرات کاا ظہار کیا۔پاکستان کے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی صاحب اور سابق صدر آصف علی زرداری صاحب نے بھی اس موقع پر روایتی تعزیت کا اظہار کیا ۔ عمومی طور پر اس طرح کے مواقع پر تعزیت کا اظہار حکومتوں کا کام ہوتا ہے نہ کہ ریاستی اداروں یا ان کے سربرہان کا لیکن ہم نے دیکھا کہ پاکستانی فوج کے سالارِ اعظم قمر جاوید باجوہ صاحب نے بھی اس موقع پر امریکی سیاست اور اس کی پالیسیوں کے اہم اہم کردار کی موت پر تعزیت کا اظہار کرنا ضروری سمجھا ۔اور اس سے بھی بڑھ کر انھوں نے اپنے تعزیتی تاثرات میں جان میک کین کو ’’ جنگی ہیرو ‘‘ قرار دے کر اس کی ستائش کی ۔یہ ایک ایسے شخص کی ستائش ہے جو ویت نام پر بمباری کرنے والے طیاروں کے پائلٹوں میں سے ایک تھا ،ایک ایسی جنگ اور بمباری جس میں امریکی فسطائیت کے خلاف نبرد آزما حریت پسندوں اور نہتے عوام پر ہزاروں ٹن بارود ،نیپام اور کلسٹر بموں سے لے کر ’’ ڈی فولینٹس‘‘ نامی خطرناک کیمیائی مادے برسائے گئے۔ جس جنگ میں شمالی ویت نام کے حریت پسندوں، ’’ویت کانگ‘‘ گوریلوں سمیت 11لاکھ 77ہزار446انسان جن میں معصوم بچے ، عورتیں اور بوڑھے بھی شامل تھے امریکا اور اس کے اتحادیوں کے ہاتھوں قتل کیے گئے اور ویت نامی باشندوں کو بھوکا مارنے کے لیے 42فی صد اراضی پر کھڑی فصلوں پر 7کروڑ 75لاکھ لیٹر کیمیکل برسا کر اسے تباہ کیا گیا ۔

عوامی جمہوریہ چین جس کے ساتھ اُس وقت اور آج بھی ہم ’’ کوہ ہمالیہ سے بلند،بحیرہ عرب سے گہری اور شہد سے میٹھی دوستی‘‘ کے مدعی ہیں ، اس جنگ میں اسی عوامی جمہوریہ چین کی ریڈ آرمی کے1446 رضا کاروں نے شمالی ویت نام کے سرفروشوں کے شانہ بشانہ امریکی ڈاکوؤں کے خلاف لڑتے ہوئے اپنی جانوں کے نذرانے پیش کیے تھے۔
یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر جارح ،قاتل اور غاصب امریکی فوج کا بمبار پائلٹ جان میک کین جنگی ہیرو ہے تو پھر ان بیرونی تجاوز کاروں کے خلاف اپنی قومی آزادی ،قومی سالمیت اور قومی وقار کی جنگ لڑنے والے وطن پرست ویت نامی انقلابیوں یعنی بیسویں صدی میں امن، آزادی اور سماجی انصاف کے لیے لڑی جانے والی بڑی جنگوں میں سے ایک کے بارے میں ہمارا رویہ کیا ہے ؟۔ کیا ہمارے نزدیک ویت نامی باشندوں کی یہ عوامی جنگ مبنی بر انصاف تھی ؟ یا ویت نام پر یہ جنگ مسلط کر کے اس پر چڑھ دوڑنے والے امریکی سامراجی اور اس کے اتحادی ’’ مجسمِ انصاف ‘‘ تھے ؟۔اگر ہم کوریا اور ویت نام سے لے کرلاؤس اور کمبوڈیا تک، کیوبا سے لے کرچلی ، ایل سلوا ڈور ، گرینیڈا اورپانامہ تک ، فلسطین سے لے کر کشمیر ، عراق ، لیبیا اور افغانستان تک، کانگو، انگولا ، موزمبیق ، گنی بساؤ سے لے کر ایتھوپیاتک کے عوام کی جدوجہد کو مبنی بر انصاف سمجھتے ہیں ، اگر ہم سفید فام نسل پرستی کے خلاف خود امریکا میں مارٹن لوتھر کنگ سے لے کر جنوبی افریقہ میں افریقین نیشنل کانگریس( جسے امریکا نے1991تک دہشت گرد تنظیموں کی فہرست میں شامل رکھا) اور نیلسن منڈیلا، نمیبیا میں سواپو اور سام نجوما ،اورروڈیشیا میں زمبابوے افریقین نیشنل یونین کی سامراجیت اور نسل پرستی کے خلاف جدوجہد کو حق اور انصاف کی جدوجہد سمجھتے ہیں تو پھر اس جہدِ آزادی میں ، انسانی شرف اور وقار کی ساری جنگوں میں قاتلوں اور ان کے سرپرستو ں کو ،ان کے آلہ کاروں کو کیوں کر ’’ جنگی ہیرو ‘‘ قرار دے سکتے ہیں ؟!!

اگر جان میک کین ’’ جنگی ہیرو ‘‘ ہے تو پھر لامحالہ ہمیں یہ تسلیم کرنا پڑے گا کہ امریکی فسطائیت کے خلاف مذکورہ بالا ممالک کے عوام کی جدوجہد،تحریکیں اور محترم قائدین سب کے سب ’’ ولن ‘‘ ہیں ۔اور اگر ہم ایسا نہیں سمجھتے تو پھر حقیقت یہی ہے کہ جان میک کین محض ایک فرد اور استعماری نظام کے کل پرزوں میں سے ایک معمولی پرزہ تھا جس نے عسکری وردی سے لے کر جمہوری قبا تک میں اپنے سرمایہ دار جنگ پرست حکمرانوں کے سامراجی اہدافات کے لیے دامے، درمے ، سخنے خدمات سر انجام دیں اور. اپنے جنگی جرائم پر اس نے کبھی شرمندگی یا ندامت کا اظہار نہیں کیا ۔ آئیے دنیا بھر کے محنت کار عوام اور مظلوم اقوام کے خلاف طبقاتی دشمنClass Enemy کا کردار ادا کرنے والے جان میک کین کے بارے میں مزید کچھ جانتے ہیں ۔

1982میں اریزونا کی ریاست سے کانگریس کا رکن منتخب ہو کر امریکی سیاسی افق پر نمودار ہونے والا جان میک کین طویل عرصے تک سینیٹر رہا۔وہ ری پبلکن پارٹی کے صدارتی امیدوار کے طور پر بارک اوباما کے مقابل بھی تھا مگر کامیاب نہ ہو سکا۔وہ امریکی سینیٹ کی آرمڈ سروسز کمیٹی کا چیئرمین بھی رہالیکن اس کی ایک شناخت اور وجہ ء شہرت یہ بھی تھی کہ وہ 1960کی دہائی کے ان امریکی ہوا بازوں میں شامل تھا جنھوں نے شمالی اور جنوبی ویت نام میں امریکا کی کئی ایک تباہی پھیلانے والی کارروائیوں میں حصہ لیا۔ 26اکتوبر1967کو امریکی فضائیہ کی ایسی ہی ایک ہلاکت خیز مہم کے دوران جان میک کین ہنوئی شہر کا مرکزی بجلی گھر توتبا ہ کر نے میں کا میاب رہا لیکن واپسی پر اس کا A۔4جنگی طیارہ ویت کانگ گوریلوں کے برسائے گئے سوویت ساختہ میزائل کا وار نہ سہہ سکا۔پیرا شوٹ کے ذریعے کودنے والے جان میک کین کو گرفتار کر لیا گیا ۔اس نے پانچ سال ویت نامی انقلابیوں کی قید میں گزارے جہاں اس کی پنڈلی، بازو اور ٹوٹے ہوئے کندھے کا علاج کیا گیا۔ البتہ میک کین اسے تشدد ہی قرار دیتا رہا ۔1973میں رہائی کے بعد بھی وہ امریکی فوج سے وابستہ رہا تاوقتیکہ اس نے کوچہ ء سیاست میں قدم رکھا لیکن یہاں بھی اس کا جنگی جنون کبھی ختم نہیں ہوا۔وہ فلسطین ، عراق ، افغانستان ، لیبیا،یمن اور شام سے لے کر ایران تک میں امریکا کی جنگی جنونیت کی پالیسیوں کا پر جوش حامی ومعاونت کار رہاجس میں مسلح مذہبی جنونی لشکروں کی تخلیق بھی شامل ہے۔

جان میک کین کی موت پر امریکا سمیت عالمی سیاسی شخصیات نے جن تاثرات کا اظہار کیا ہے وہ طبقات میں منقسم دنیا اور ذرائعِ پیداوار پر قابض طبقات کے سامراجی عزائم کا بخوبی پتہ دیتے ہیں ۔ مثال کے طور پر سابق امریکی صدربارک اوباما (جن پر جان مکین نے ہمیشہ ’’ ایران کے ساتھ آہنی ہاتھوں سے نہ نمٹنے ‘‘کی تنقید کی )کا کہنا ہے کہ ’’ امریکی قوم جان میک کین کی مقروض رہے گی ۔‘‘ جہاں تک امریکی استعمار کے اہدافات کے ایک آلے کے طور پر جان میک کین کا تعلق ہے تو پھر جان میک کین ہی کیا اس کے ان آباواجداد کا بھی امریکی قوم کے سامراجیوں کو مقروض ہونا چاہیے جنھوں نے امریکا کے ریڈ انڈین قبائل کی سفاکانہ نسل کشی کی،امریکی فوج میں شامل جان میک کین کے دادا اور باپ کا بھی انھیں مقروض ہونا چاہیے جس نے شاید اپنے بیٹے ہی کی طرح کوریائی عوام پر ٹنوں بارود اور کیمیائی مرکبات برسائے ہوں ۔ البتہ جہاں تک محنت کش امریکی عوام، ترقی پسند ، انسان دوست اور جمہوریت پسند امریکی باشندوں کا تعلق ہے تو وہ اس وقت بھی امریکی جنگی جنون کے خلاف ہزاروں کی تعداد میں امریکی شاہراؤں پر سراپا احتجاج تھے جب جان میک کین اپنے سرمایہ دار جنگ پرست حکمرانوں کی طرف سےA۔4جنگی طیارے کی اڑان بھرتے ہوئے ویت نام کے طول وارض میں بم برسانے پر معمور تھا۔ایسی ہولناک جنگ جس کا ایندھن لاکھوں ویتنامی باشندوں کے علاوہ 58ہزار سے زائد وہ امریکی سپاہی بھی بنے جن کی اوسط عمر 24سال سے بھی کم تھی اور وہ ’’ حب الوطنی ‘‘ کے نام پر اس آگ میں جھونکے گئے۔

بہر کیف جولائی 2015ہ میں موجودہ امریکی صدرڈونلڈ ٹرمپ نے جان میک کین کو ’’ جنگی ہیرو‘‘ تسلیم کرنے سے انکار کرتے ہوئے اتنا ادھورا سچ تو بیان کر ہی دیا تھا کہ میک کین کوئی جنگی ہیرو نہیں ہے کیوں کہ ویت نام جنگ میں اسے گرفتار کر لیا گیا تھا۔‘‘ ٹرمپ کا باقی سچ، جو اس نے بیان نہیں کیا، یہ ہے کہ ہر امریکی جنگ پرست حکمران کی طرح خود اس کی بھی یہی خواہش تھی کہ جان میک کین ویت نام میں گرفتاری کی بجائے مزید ’’ کشتوں کے پشتے ‘‘ لگاتا تب کہیں جا کر ’’میڈل آف آنرز‘‘کا مستحق پاتا۔
جان میک کین کی موت پر اس کے ری پبلکن پارٹی کے ساتھی اور دوست لنڈسے گراہم نے کہا کہ’’ اس کی موت سے امریکا اور آزادی اپنے سب سے بڑے وکیل سے محروم ہو گئے  ہیں۔‘‘ یاداش بخیر 2015میں دورہ عراق کے موقع پر اسی لنڈسے گراہم اور جان میک کین نے ایک نیوز بریفنگ میں یہ تجویز پیش کی تھی کہ شام اور عراق میں داعش کے خلاف امریکاسے باہر کے کوئی ایک لاکھ مذہبی جنگجوؤں کا لشکر تیار کیا جائے ۔اسے انتہائی آسان قرار دیتے ہوئے انھوں نے یہاں تک فرمایا کہ یہ کام تو خود مصر بھی تنِ تنہا کر سکتا ہے ۔ مذہبی بنیاد پرستوں کی ماں امریکی سامراج کے ان ’’ ہونہار ‘‘ بیٹوں کا یہ فارمولا شام میں بشار الاسد کی سامراج مخالف ، قوم پرست حکومت کے خلاف استعمال کیا گیا لیکن وائے افسوس کہ ایک بار پھر روس کی مدد سے یہ بازی الٹ دی گئی اور میک کین کا وہ بدنام زمانہ بیان سامنے آیا جس میں اس نے روسی صدر پیوٹن کو داعش سے بھی خطرناک قرار دیا تھا ۔ جی ہاں یہ وہ جان میک کین کہہ رہا تھا جس نے خود شام میں داعش کے کمانڈروں سے ملاقاتیں کیں ۔پاکستان میں ڈرون حملوں کے پر جوش حامی جان میک کین نے مئی 2013میں شام میں اپنے پروردہ لشکروں کے زیر کنٹرول شہروں حلب، ادلب اور رقہ وغیرہ کا خفیہ دورہ کر کے انھیں تھپکی دی تھی اور داعش کے ان دہشت گردوں نے بعد میں اس ملاقات کی تصاویر بھی مشتہر کیں۔خود CNNسے بات کرتے ہوئے جان میک کین نے اس ملاقات کو ’’ بہت اچھا تجربہ‘‘ قرار دیا تھا ۔اور پھریہی جان میک کین تھا جس نے شام میں القاعدہ کی سرگرمیوں کی حمایت کرتے ہوئے کہا تھا کہ شام میں القاعدہ کا گروپ مثبت ہے کیوں کہ وہ بشار الاسد کے خلاف ’’ شامی اپوزیشن فورسز‘‘ کو معاونت فراہم کر رہی ہے۔

اس سے بہت پہلے فروری 2011میں جان میک کین نے اس وقت کے صدر باراک اوباما سے لیبیا میں قذافی حکومت کے خلاف سخت سے سخت اقدامات کا مطالبہ کرتے ہوئے فضائیہ کے استعمال کی مطالبہ نما تجویز پیش کی تھی جس پر عمل درآمد ہوتے، معمر قذافی کو شہید ہوتے اورلیبیا کو کھنڈرات میں تبدیل ہوتے ساری دنیا نے دیکھا اور دیکھ رہی ہے۔ اس سے قبل نومبر2009میں کینیڈا میں دفاعی کانفرنس سے اپنے خطاب میں جان میک کین نے اوباما کی طرف سے افغانستان میں اضافی فوج بھیجنے کے فیصلے کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا تھا کہ ’’بھرپور وسائل کی دستیابی اور فوجی قوت کے بل بوتے پر افغانستان کی جنگ ایک سے ڈیڑھ سال میں جیتی جا سکتی ہے۔‘‘
رواں سال ٹرمپ کی طرف سے شام پر حملے کو سراہاتے ہوئے جان میک کین نے شام پر مزید حملوں کا عندیہ دیا تھا ۔گزشتہ سال اس نے البانیہ کے شہر ترانا میں شاہ ایران کے خلاف مسلح جدوجہد کرنے والی اُس زمانے کی سامراج مخالف اور آج کی امریکا نواز تنظیم ’’ مجاہدینِ خلق‘‘ کی سربراہ مریم رجاوی سے ملاقات کی ۔اسی اجلاس میں سعودی عرب کے سابق انٹیلی جنس سربراہ شہزادہ ترکی الفیصل نے مریم رجاوی کو سعودی عرب دورے کی دعوت دی ۔ایران کے حوالے سے جان میک کین کا ہمیشہ یہ نقطہ نظر رہا کہ’’ امریکہ نے ایران کو دھمکیوں دینے کے علاوہ کوئی ٹھوس اقدام نہیں کیا اور امریکہ کی طرف سے ایران کو دھمکیوں کی لمبی فہرست ہے لیکن کارروائی کوئی نہیں کی گئی۔‘‘

اب لگے ہاتھوں جان میک کین کی موت پرامریکہ میں سعودی عرب کے سفیر شہزادہ خالد بن سلمان بن عبدالعزیز کا ٹویٹر پیغام بھی ملاحظہ کیجیے جس میں اس نے جان میک کین کو زبردست خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے ہیرو قرار دیا۔ شہزادہ موصوف فرماتا ہے کہ ’’جان میک کین نے پوری زندگی اپنے ملک کی خدمت، عالمی امن اور سلامتی کے فروغ کے لیے وقف کر رکھی تھی اور ان کا شمار سعودی عرب کے عظیم دوستوں میں ہوتا تھا۔‘‘ سعودی وزیر خارجہ عادل الجبیر نے اپنی ٹوئیٹ میں ارشاد فرمایا کہ ’’ امریکا نے ایک دلیر اور بہادر شخص کو کھو دیا ہے۔‘‘ ایک جانب سخت گیر مذہبی بنیاد پرستی کی نقاب سرکاتے ہوئے چہرے پر ’’ لبرل بادشاہت‘‘ کا میک اپ سجائے سعودی عرب کی سامراج نواز بادشاہت کے نمائندے ہیں تودوسری جانب آلِ سعودکے ساتھ سوگواران میں شامل اسرائیل کے صہیونی حکمران ہیں جو جان میک کین کی موت پر اسے ’’ اسرائیل کا عظیم دوست ‘‘ قرار دے رہے ہیں۔ وہی جان میک کین جو خطے میں سعودی عرب کی جنگی جنونیت اور یمن پر لشکر کشی کے موقع پر گھی کے چراغ روشن کرتا رہا مگر اسے صہیونی جارحین کے ہاتھوں فلسطینیوں کے قتل عام پر کبھی مگر مچھ کے آنسو بہانے کی بھی توفیق نہ ہوئی ۔

جان میک کین کی موت پر جہاں سامراج اور سامراج نواز حلقے تاریخ کا تمسخر اڑاتے بیانات دے رہے ہیں وہاں امریکی ریاست کیلیفورنیا کی سین ڈیاگو اسٹیٹ یونی ورسٹی میں بین الاقوامی تعلقات اور بین الاقوامی قانون کے ماہر پروفیسر جوناتھن گراؤپارٹ بھی ہیں جنھوں نے جان میک کین کے سرطان کے مرض میں مبتلا ہونے کی خبریں سامنے آنے پر اسے جنگی مجرم قرار دیتے ہوئے کہا تھا کہ ’’میں جان مکین کے دماغی سرطان میں مبتلا ہونے کے بعد ان کے لیے نیک تمناؤں کے اظہار میں الجھن محسوس کر رہا ہوں اور میں سوچ رہا  ہوں کہ ایسا کیوں ہو رہا ہے۔‘‘ انھوں نے مزید کہا تھا کہ ’’ جان میک کین ایک جنگی مجرم ہے اور اس سے بھی بڑھ کر ایک ایسی شخصیت جو سیاسی میدان میں خوف ناک افعال کو سراہتی رہی اور صحت عامہ کی مد میں ریاست پر پڑنے والے بوجھ سے بھی خبردار کرتی رہی۔‘‘

Advertisements
julia rana solicitors london

بہر حال جان مکین تاریخ کے اسٹیج پر اپنا منفی کردار ادا کر کے رخصت ہوا ۔ امریکی سامراج کی جنگی اور ہتھیاروں کی تجارت پر اساس رکھنے والی سلطنت کے ایک کل پرزے کے طور پر جان میک کین کا ان جرائم میں حصہ رہا جو تاریخ کی کتابوں میں شدید سڑاند کے علاوہ کچھ نہیں چھوڑ یں گی ۔ اپنے پیشرؤں کی طرح جان میک کین بھی انصاف کے کٹہرے میں حاضر ہوئے بغیر ، اپنے بلواسطہ اور بلاواسطہ جرائم کا حساب دیے بغیر ویت نام سے چلی ، ایل سلوا ڈور ، پانامہ ،افغانستان، عراق ، لیبیا ،یمین وغیرہ کی تباہی دیکھتے ہوئے اور کیوبا، ، شمالی کوریا اور وینزویلاسے لے کر شام اور ایران تک پر امریکی پھریرا لہرانے کی حسرت لیے دنیا سے رخصت ہوا ۔ لیکن یاد رہے جب کبھی دنیا میں سامراجیت کی دیو ہیکل عفریت کے لاشے پرترقی پسند انسانیت کا رقص آغاز ہوگا ،انصاف کا بول بالا ہوگا تب ٹرومین ، آئزن ہاور، کینیڈی ،جانسن ، نکسن ،فورڈ،جمی کارٹر، ریگن ، بش ،بل کلنٹن، جارج ڈبلیو بش، بارک اوباما اور ڈونلڈ ٹرمپ کے ساتھ ساتھ جنرل ڈگلس میکارتھر ، جان فاسٹر ڈلس ،جوزف میکارتھی ، میکنا مارا، ایلن ڈلس ،ہنری کسنجر، برزنسکی ، کولن پاول، کونڈا لیز ارائس، جان میک کین ،جان کیری اور پومپو جیسے فسطائیت کے نمائندے انسانیت کے عہدِ سیاہ کا دشنام قرار دیے جائیں گے ۔

Facebook Comments

مشتاق علی شان
کامریڈ مشتاق علی شان مارکس کی ان تعلیمات کو بھولے نہیں جو آج بھی پسماندہ طبقات کیلیے باعث نجات ہیں۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

براہ راست 2 تبصرے برائے تحریر ”جان میک کین : جنگی ہیرو یا جنگی مجرم؟۔۔۔۔۔ مشتاق علی شان

  1. کیا کامریڈ مشتاق علی اپنے منفی تاثرات کے اظہار کے لئے چند دن صبر نہیں کر سکتے تھے. پوری امریکی قوم اپنے ایک ہیرو کا ماتم کر رہی ہے. دوست دشمن سب جان میک کین کی موت پر اظہار تعزیت کر رہے ہیں. خیال رہے جرمنی، جاپان، اور ویت نام ماضی کی جنگوں اور تلخیوں کو فراموش کرکے امریکہ کے دوست بن چکے ہیں. لیکن مملکت الله داد کے کیمونسٹ دانشوروں کی تحریریں پڑھ کر یہ تاثر ملتا ہے کہ یہ حضرات اس وقت تک چین سے نہیں بیٹھیں گے جب تک یہ جاپان اور ویت نام کا انتقام امریکہ سے نہیں لے لیتے. معلوم نہیں کب یہ خبر ان حضرات تک پہنچے گی کہ جاپان اور ویت نام کی جنگیں ختم ہو چکی ہیں اور فریقین اپنی عداوتیں دفن کرکے گلے مل چکے ہیں.

  2. ہم اپنے لبرل دوست کی تکلیف اور دکھ کو سمجھ سکتے ہیں. لیکن “دکھ” کی اس گھڑی میں ان سے رنج وغم کا اظہار کرنے سے قاصر ہیں. ہمارے یہ لبرل دوست جب جب امریکی سامراجیت کو “جمہوری اور انسان دوست” قرار دینے کے سعی کریں گے جاپان اور ویت نام سے لے کر گوانتانامو، ابو غریب اور افغانستان عراق، لیبیا، شام، یمن تک میں جنگی جرائم (جو جاری ہیں) ان کا تعاقب کریں گے. سادہ لفظوں میں امریکا ایک فاشسٹ ریاست ہے اور جان میک کین اس کا ایک فسطائی کل پرزہ تھا، ہمیں اس طبقاتی دشمن کی موت پر کوئی افسوس نہیں جو کروڑوں انسانوں کے قتل عام کی پالیسیوں کا مرتے دم تھا حصہ رہا.
    اسی مسرت کا اظہار ہم آنے والے دنوں میں ویت نام جنگ ہی کے ایک بھگوڑے جان کیری کے فرجام پر بھی کریں گے.

Leave a Reply