آن لائن قصاب۔۔۔ ابنِ فاضل

عید قربان پر قصائی اتنا ہی اہم ہوتا ہے جتنا نکاح والے دن چھوہارے ۔ جتنا موسم بہارمیں لان کے نئے پرنٹ ۔ جتنا نوجوانوں کیلئے موبائل فون کے نائٹ پیکج ۔ قصائی کے بغیر صبح و دوپہرِ بقرعید اتنی ہی بے رونق ہے جتنا کوئی حسین چہرہ بغیر میک اپ کے،یا جتنی کسی گوشت کے رسیا بزرگ کی بقر عید بتیسی کھو جانے پر۔ یا جتنی مولانا فضل الرحمن صاحب کے بغیر کشمیر کمیٹی۔  اسی حقیقت کے پیش نظر سمجھدار لوگ ہفتوں پہلے قصاب سے باندھ کر لیتے ہیں لیکن ہماری قریب اندیشی ملاحظہ ہو کہ عید کا دن سر پر تھا اور ہم کسی قصاب تو کیا اس کے چیلے بلکہ اسکے چیلے کے چیلے سے بھی کوئی مفاہمت کی یاداشت(memorandum of understanding ) پر دستخط نہیں لے پائے تھے۔ ایک قیامت تھی جو ہماری منتظر تھی۔ بس یوں سجھ لیجئیے کہ عید کے پہلے روز قربانی کے جانور یا ہماری ناک میں سے ایک نے ضرور کٹنا ہوتا ہے، اور موخر الذکر کو قربان ہونے سے بچانے کیلئے ہم ہاتھ پاؤں مار رہے تھے ۔  محلے کے کونسلر سے رابطہ کیا ۔ گویا ہوا ۔

   اپنا بھی حال تمہارے جیسا ہے ساجن ۔۔۔۔علاقے کے ناظم سے بات کی ۔ جواب ملا

نہ پوچھ ہجر میں جو حال اب ہمارا ہے
امید وصل قصاب پر ان دنوں گزارا ہے

 انجمن تاجران علاقہ کے صدر سے بات کی۔ بولے

کوئی   امید بر  نہیں  آتی
کوئی صورت نظر نہیں آتی
قربانی کا ایک دن معین ہے
نیند کیوں رات بھر نہیں آتی

     آخری حربہ کے طور پر قابل خرگوشوی سے رابطہ کیا ۔

  کیوں پھرتے ہو پریشان جناب

  آن لائن قصاب آن لائن قصاب

عرض کیا یہ آن لائن تو نرا دھوکا ہے، یہاں تو سراسر۔۔

        سمجھا تھا جسے انناس وہ عورت نکلی۔۔والا معاملہ ہوتا ہے ۔ آن لائن بکرا آرڈر کرو تو خرگوش نکلتا ہے ۔ شکرقندی منگاؤ تو آلو نکلتے ہیں ۔ اور پاجامے کے آرڈر کرو تو موزے نکلتے ہیں ۔ کہنے لگا بات تو سچ ہے مگر نہ جائے ماندن نہ پائے رفتن، آزمانے میں کیا حرج ہے ۔ بات میں وزن تھا سو مطلوبہ معلومات مہیا ہونے پر آن لائن قصاب کا پیج کھولا ۔ وہاں تو کئی پیکیج تھے ۔

ران پیکج : استاد قصاب بمع عملہ وقت قربانی سات بجے ہدیہ :پچیس ہزار ۔ دستیابی : آخری دو

دستی پیکیج : نائب قصاب بمع عملہ وقت قربانی گیارہ بجے. ہدیہ پندرہ ہزار  دستیابی ۔ صفر

پٹھ پیکیج: چیلہ قصاب مع آدھا عملہ  وقت قربانی دو بجے  ہدیہ دس ہزار ۔  دستیابی ۔ آخری ایک ۔

  آگے اور بھی پیکیج تھے مگر ہم نے خطرہ مول لینا مناسب نہیں سمجھا اور فوراً  “پٹھ پیکیج “کے آخری دستیاب موقع کے حصول کے لیے مطلوبہ بٹن دبا دیا ۔ ایک مکتوب لیلیٰ کے برابر قوائد وضوابط کی فہرست نکلی جس سے ہمارا متفق ہونا ضروری تھا ۔ بصورت ديگر دعائیں تھیں ۔ مجبوراً اتفاق کیا اور کریڈٹ کارڈ سے ادائیگی کرتے ہوئے اپنا ٹوکن نمبر مع مبارکباد وصول کیا ۔ جی کو مگر دھڑکا سا لگا تھا کہ ” پٹھ پیکیج “کہیں پٹھا ہی نہ پڑ جائے ۔

   عید کے روز دن ایک بجے ایک میسیج موصول ہوا ۔ “اپنے گھر کے ایڈریس کو گوگل پر پن کرکے اسی نمبر پر واٹس ایپ کریں”

گوگا قصائی۔  آن لائن قصاب۔۔۔۔

حیرت ناک خوشی ہوئی ۔ چلو ہم صنعتی طور پر نہ سہی، قصابانہ طور پر ہی اکیسوی صدی میں داخل ہو چلے۔ فوراً حکم کی تکمیل کی۔ ٹھیک دو بجے دو “جینززدہ “نوجوان موٹر سائیکل پر سوار گھر آئے ۔ آتے ہی حکم صادر فرمایا کہ چھریاں، مڈی، ٹوکے رسی اور تین مددگار فوراً حاضر کریں ۔ آپ کے ساتھ ہم چار بجے تک ہیں۔

حضور قصاب آپ ہیں، ہمارے پاس یہ سامان کہاں۔ ڈرتے ڈرتے عرض کی۔ لگتا ہے آپ نے معاہدہ دھیان سے نہیں پڑھا ۔ اس میں سب درج ہے۔ پٹھ پیکج  میں سب کچھ گاہک کے ذمہ ہے۔ ہم نے تو اپنا نکاح نامہ پورا نہیں پڑھا تھا ،معاہدہ تو دور کی بات ۔ لیکن ساری بات سمجھ میں آگئی۔ فوراً سب لوگوں کو مطلوبہ سامان ڈھونڈنے پر لگایا اور خود لگے قریب پڑی چارپائی کی پینتی کھولنے۔ حضرت قصاب دریں اثنا کے ٹو ،کے کش لیتے رہے۔ پندرہ منٹ میں سب حاضر کیا ۔بی نیازی سے بولے رسی کچھ کم ہے اور کمزور بھی دکھائی دیتی ہے ۔ معاہدہ کے مطابق اگر ذبح کے دوران جانور بھاگ گیا تو کمپنی صرف رسی کا ہرجانہ ادا کرنے کی پابند ہوگی ۔اوہ خدایا یہ کیسا معاہدہ ہے ۔ پھر سے سب لوگوں کو بھگایا، گھر میں موجود سب چارپائیوں کی پینتیں لائی گئیں ۔ اب قصاب صاحب نے بیل کو اچھی طرح رسیوں سے باندھ دیا ۔ بیل بالکل سیبے والا بم لگ رہا تھا ۔ پھر اس نے تکبیر پڑھی ۔ شکر ہے کہ خیریت رہی۔ اس کے بعد کھال اتارنے کی باری آئی ۔ کھال اتارتے ہوئے بھی وہ مشکل میں تھا ۔کھال بھی خراب کر  رہاتھا ۔ اعتراض کیا تو بولا ۔جناب بال کی کھال تو بہت بار اتاری ہے بیل کی کھال آج پہلی بار اتار رہا ہوں ۔ جبھی تو بالکل ایف بی آر والوں کی طرح اتار رہے ہو ۔تکلیف دہ انداز میں ۔ میں نے کہا ۔ تھوڑا تجربہ ہو جائے صاحب بالکل برانڈ سٹورز والوں کی طرح اتاروں گا، کھال اتارنے والا بھی خوش اور اتروانے والے بھی خوش۔

    کھال کے بعد گوشت بنانا شروع کیا ۔ ایسی بے ڈھنگی بوٹیاں، خدا کی پناہ۔ الجبرا کی کسی بھی شکل سے غیر مشابہ ۔ میں نے کہا بھائی کوئی مربع کوئی مستطیل شکل کا گوشت بناؤ۔ کہنے لگا صاحب الجبرا کی وجہ سے میٹرک سے بھاگا تھا ۔ ویسے جغرافیہ میرا پسندیدہ مضمون تھا ۔ اور کہتا وہ سچ تھا کوئی بوٹی سری لنکا کی شکل کی،اور کوئی برازیل شکل کی۔ اسی طرح کوئی سائز میں برونائی دارالسلام جتنی اور کوئی چین جتنی ۔ آخر میں کمبخت نے ایک روس کے سائز کا ٹکڑا علیحدہ کر لیا ۔ پوچھنے پر بولا معاہدہ کی رو سے یہ میرا ہے ۔  بمشکل تمام غصہ پر قابو پایا اور بچوں کو آوا ز دی ۔جاؤ یار نقشہ بانٹ کر آؤ۔

Advertisements
julia rana solicitors

      عید کی دوپہر خیالات کے اسی جھٹ پٹے میں غلطاں بستر پر بیٹھا ہوا تھا کہ چھوٹا بیٹا بھاگتا ہوا آیا ،بابا جان قصاب آگیا ہے ۔

 

  


Facebook Comments

ابن فاضل
معاشرتی رویوں میں جاری انحطاط پر بند باندھنے کا خواہش مندایک انجینئر

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply