• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • آیا صوفیہ کے میناروں سے بلند ہوئیں تکبیر کی صدائیں ۔۔غازی سہیل خان

آیا صوفیہ کے میناروں سے بلند ہوئیں تکبیر کی صدائیں ۔۔غازی سہیل خان

ترکی کے شہراستنبول میں ایک اعلیٰ عدالتی فیصلہ کے مطابق آیا صوفیہ کو 86 سال بعد از سر نو میوزیم سے مسجد میں تبدیل کردیا گیا، اور دہائیوں بعد اس تاریخی مسجد میں پہلی نماز جمعہ کی ادائیگی سے نہ صرف ترکی بلکہ پورے عالم اسلام میں خوشی اور مسرت کا اظہار کیا گیا۔دنیا کی نام نہاد سیکولر اور لبرل طاقتوں کے شد ید دباؤ کے باوجود عصر حاضر کے ’ارتغرل غازی‘رجب طیب اردگان نے دھونس،د باؤ اور دھمکیوں کو جوتے کی نوک پہ رکھ کے یہ اعلان کیا کہ جمعہ کی نماز مسجد  آیا صوفیہ میں ضرور ادا ہوگی۔ اس اعلان کے بعد ساری مسلم دنیا کے لئے یہ دن کسی عید سے کم نہیں تھا،کرونا جیسے وبائی مرض کی موجودگی کے باوجود مسلمانوں نے تاریخ ساز اعلان کے بعد اپنی خوشیوں کاخوب اظہار بھی کیا اور تاریخ کو واپس اپنی ڈگر پر جاتے دیکھ کر شکرانے کے سجدے بھی اداکیے۔

آیا صوفیہ میں نماز جمعہ کی ادائیگی سے قبل دیے گئے خطبے میں ترکی کے مذہبی اُمور کے وزیر ڈاکٹر علی ایرباش نے ہاتھ میں تلوار تھام رکھی تھی، اس روح پرور منظر کو دیکھ کر دنیا بھر میں اسلام کے شیدائیوں پر جیسے جلال طاری ہوگیااور سماجی رابطہ کی ویب  سائٹس  پہ نوجوانوں نے اپنے جذبات و احساسات کا خوب اظہار کیا،یہاں تک کہ فیس بُک و دیگر سماجی روابط  کی سائٹ پہ نوجوان آیا صوفیہ اور خطبے کے دوران ہاتھ میں لی جانے والی سلطان محمد فاتح کی تلوارکی تصاویرکو خوب شیئر کر تے نظر آئے۔

خوشیوں کے اس اظہار میں اُنہیں دراصل اسلام کے تابناک ماضی کے لوٹ آنے کی نوید سنائی دے رہی تھی، ملت کی دین پسند نوجوان نسل عثمانیوں کی سرزمین پر خلافت کا  جھنڈا بلند ہوتے دیکھ کر اپنی مسرت کو چاہتے ہوئے بھی نہ چھپا سکے۔بہت سارے لوگوں نے اس خواہش کاکھل کر اظہار کیا کہ کاش ہم بھی اس تاریخ ساز دن اس عظیم الشان مسجد میں اللہ تعالیٰ کے حضورسربسجود ہوتے۔

آیا صوفیہ کی عمارت 532عیسوی سے 537 عیسوی کے درمیان گرجا گھر کے طور پر بادشاہ جسٹینین کے دور میں تعمیر کی گئی اور یہ بازنطینی سلطنت کی سب سے اہم تعمیر قراردی جاتی ہے۔کہتے ہیں کہ جب یہ عمارت تیار ہوئی تو اس وقت کے بازنطینی بادشاہ جسٹینین اول نے فخریہ اندازسے کہا تھا i have outdone the solomon(میں نے سلیمان کو پیچھے چھوڑ دیا)اس کا مطلب یہ تھا کہ حضرت سلیمان نے مسجد اقصیٰ تعمیر کی تھی اور میں نے آیا صوفیہ جیسی عظیم الشان عمارت تعمیر کی ہے۔

اس عمارت کو چرچ کے بطور استعمال کیا جاتا تھا اور یہ بازنطینی حکمرانوں کا ایک فوجی و سیاسی مرکز بھی تھا۔ یہ عمارت بعد میں آورتھوڈوکس چرچ کے سربراہ کا مقام بن گئی اہم ترین بازنطینی تقریباتاس عمارت میں ہونے لگیں۔تقریباً نو سوسال تک یہ عمارت آورتھو ڈوکس چرچ  رہی، درمیان میں 13ویں صدی میں جب یورپی حملہ آوروں نے قسطنطنیہ کا کنٹرول سنبھا ل کر چوتھی صلیبی جنگ میں شہر میں لوٹ مار کی، یہ عمارت کچھ عرصے کے لئے کیتھولک چرچ کے زیر انتظام رہی۔چنانچہ جب 1453ء میں سلطان محمد فاتح نے استنبول (قسطنطنیہ) فتح کیا تو یہ عثمانی خلافت کے اختیار میں آگئی، اُس وقت قسطنطنیہ کا نام بدل کر استنبول رکھا گیااور اس کے ساتھ ہی بازنطینی سلطنت کا خاتمہ بھی ہوگیا۔

اس دوران  آیا صوفیہ کا علاقہ پہلے ہی جنگ و جدل اور محاصروں کے دوران تباہ ہو گیا تھا۔استنبول کے فتح ہونے سے پہلے اور بعد میں اکثر عیسائی شہر چھوڑ کر چلے گئے۔اور اس کے بعد تقریباً پونے پانچ سو سال تک  آیا صوفیہ کی یہ عمارت بحیثیت مسجد استعمال ہوتی رہی،جہاں با ضابطہ نمازیں پڑھی جاتی تھیں،اور خلافت عثمانیہ کی سلطنت اپنی آن بان اور شان کے ساتھ موجود تھی۔لیکن پھر جنگ عظیم دوم کے بعد عربوں کی نا اہلی کے سبب خلافت عثمانیہ کا سقوط ہوگیا۔

مبصرین کا کہنا ہے کہ مغرب کے گوروں نے عربوں کو قومیت،اور لیسانیت کی بُنیاد پر خلافت عثمانیہ کے سقوط کے لئے تیار کیا ،جس کے بعد تاریخ اسلام میں یہ سانحہ رونما ہوا۔مورخین کا کہنا ہے کہ اگر اُس وقت عرب نے ہوش مندی کا مظاہرہ کر کے ان گورروں کی سازشوں اور چالوں کو بھانپ لیا ہوتا تو آج اسرائیل کا وجود نہ ہوتا اور مسجد اقصیٰ آج آزاد ہوتی۔ خلافت عثمانیہ کے سقوط کے بعد ترکی میں نام نہاد سیکولرازم کا لبادہ اوڑھنے کے بعد 1934ء میں  آیا صوفیہ کو کمال اتا ترک نے مسجد سے میوزیم میں تبدیل کر دیا گیا۔مصطفی کمال کی نا اہلی اور اسلام دشمنی اپنے عروج پہ تھی اور دوسری جانب عرب ممالک بھی انگریزوں کے ہاتھوں خوب استعمال ہو رہے تھے جس کے سبب ترکی میں سیکولرازم اور لبرل ازم کو ترک قوم کا نجات دہندہ قرار دیا گیا۔

پروفیسر ایاز احمد اصلاحی اپنے ایک مضمون میں یوں رقمطراز ہیں کہ ”لیکن سقوط خلافت کے بعد کمال اتا ترک نے منحوس عرب قوم پرستی کے شدید رد عمل میں ترکی سے یکے بعد دیگرے اسلامی عربی علامتیں مٹانی شروع کیں تو مسجد  آیا صوفیہ کو بھی اس نے عجائب گھر میں تبدیل کر دیا۔افسوس کہ آیا صوفیہ کو مسجد سے میوزیم اور مدتوں تک ترکی کو غیر مسلم و غیر عرب بنانے میں عرب قوم پرستی کا جو منفی تاریخی کردار ہے وہ دور دور تک ان تجزیوں میں کہیں نظر نہیں آتا جو اس عمارت کے تعلق سے ترکی کے مو جودہ فیصلے پر اس وقت کئے جا رہے ہیں۔

محض سیکولر مصطفیٰ کمال یا اسلام دشمن مصطفی کمال جیسے الفاظ سے تاریخ کے وہ حقائق بیان نہیں کیے جا سکتے جن کی وجہ سے جنگ عظیم کے دوران خلافت کی قبا چاک ہوئی اور عالم عرب میں جگہ جگہ دشمن کے وہ مسلم نما عرب ایجنٹ انگلینڈ اور فرانس کی شہ پر ترکی کی پشت میں چھرے گھونپتے رہے ،جو خلافت کی لاش پراپنی بادشاہی کی بُنیاد رکھنے کے لئے بے چین تھے۔ایسا کرتے ہوئے وہ قطعاً بھول گئے کہ یہ وہی ترکی ہے جو ان کی عزت و وقار کا صدیوں تک ایک بے خوف سپاہی کی طرح محافظ بنا رہا۔

تاریخ نے یہ ثابت کر دیا کہ لارنس آف عربیہ کی قیادت میں جس طرح انھوں نے اس عثمانی خلافت کے خلاف بغاوت کا بگل بجا یا تھا اور اپنی ہی زمین پر بنی دشمن کی کمین گاہوں میں بیٹھ کر ترکمان و فاکیش کے بہادر سپاہیوں کو خاک و خون میں غلطاں کرنے میں ان کی مدد کی تھی،وہ ان کی ایک خطرناک  غلطی تھی، جس کا خمیازہ عالم اسلام،خصوصاً عالم عرب آج بھی بھگت رہا ہے اور اس کے اثرات آج بھی عالم جہاں پر محسوس کیے جا رہے ہیں۔“(ہفتہ روزہ دعوت نئی دہلی)

ان پُر آشوب ادوار کا بھی ترک عوام نے سینہ سپر ہو کے مقابلہ کیا اور ترک کی مٹی میں ایک ایسا صلاح الدین ایوبی ثانی بن کے اُٹھا جس نے تاریخ کا دھارا ہی موڑ دیا۔ رجب طیب اردگان کو آج مسلم دنیا میں ارتغرل غازی کا کردار ادا کرتا ہوا دیکھا جاسکتا ہے۔کہتے ہیں کہ جب اردگان 1994ء میں استنبول میں ناظم کا انتخااب لڑ رہے تھے تو اُنہوں نے عمارت کو نماز کے لئے کھولنے کا وعدہ کیا تھا جب کہ 2018ء میں وہ یہاں قرآن کی تلاوت بھی کر چُکے ہیں۔اپنے اس وعدے کو رجب طیب اردگان نے 24 جولائی 2020 ء  کو پورا کر کے دکھایا جس کے بعد ساری دنیائے کفر لرزہ بر اندام ہو گئی جن میں خاص طور سے امریکہ اور یونان کا نام قابل ذکر ہے۔

بھلا اردگان کو ان کی کیا فکر بلکہ اردگان نے ساری دنیا کو عدالتی فیصلے اور بعض تاریخی دستاویز ات کا حوالہ بھی دیا کہ آیا صوفیہ بُنیادی طور پر فاتح قسطنطنیہ سلطان محمد فاتح ٹرسٹ کی ملکیت ہے جسے باقائدہ ایک وصیت نامہ کے تحت مسجد کی صورت میں خدمت عامہ کے طور پیش کیا گیاتھا،اس ٹرسٹ کی دستاویز میں واضح طور پر یہ تحریر کیا گیا ہے کہ آیا صوفیہ کو مسجد کے علاوہ کسی اور مقصد کے لئے استعمال نہیں کیا جا سکتا ہے۔

ان ہی تاریخی حقائق کی بنا پر چند ر وز پہلے آیا صوفیہ میں اللہ اکبر   کی دلسوز صدائیں بُلند ہوئیں۔ترک صدر نے ایک اور اعلان کر دیا جس میں انہوں نے امریکہ،اسرائیل اور نام نہاد سیکولر اور لبرلز کے ناپاک منصوبے پیوند خاک ہونے کی نوید بھی سُنائی۔ اردگان کا کہنا تھا کہ امت مسلمہ کے لئے بھی متحد ہونے اور اغیار کی ریشہ دوانیوں کا مقابلہ کرنے کے لئے یکجا ہونے کی ضرورت ہے۔انہوں نے کہا کہ آیا صوفیا نماز کے اجتماعات شروع ہونے کے بعد اب ہماری اگلی منزل مسجد اقصی کی آزادی ہے۔

جہاں ترک صدر کے اس بیاں اور اس تاریخ ساز فیصلے پر اسرائیل اور امریکہ میں کھلبلی مچ ہوئی ہے وہیں صہیونی رہنما اور اُن کے گماشتے عصر حاضر کے ارتغرل غازی پر شدید قسم کی تنقید کر رہے ہیں۔یہ تو ہونا ہی تھا اور صہیونی اور ان کے گماشتوں کا اس قسم کا رد عمل کوئی نئی یا انوکھی بات نہیں تاہم اس فیصلے کے بعد حیرانی تب ہوئی جب کلمہ گو مسلمان اور اپنے آپ کو سیکولر اور لبرل کہنے والوں کو بھی شدید قسم کی  بے چینی محسوس ہونے لگی اور اُن کو انسانی حقوق،حق و انصاف کی باتیں یاد آنے لگی ۔

Advertisements
julia rana solicitors london

یہ جو لوگ آج اس فیصلے پہ آگ بگولہ اور صیہونیوں کی ہاں میں ہاں ملا رہے ہیں کاش یہ سمجھتے کہ اسلام ہی دنیا کا ایک ایسا نظام و دین ہے جو انسانیت کا درس دیتا ہے جس کے سامنے سارے انسان محترم ہیں،یہاں نہ عربی کو عجمی پر اور نہ عجمی کو عربی پر نہ کالے کو گورے پر اور نہ گورے کو کالے پر کوئی فضیلت ہے بلکہ اگر کوئی کسی سے محترم ہے تووہ تقویٰ اور خُدا خوفی کی بنا پرفضیلت کا درجہ رکھتا ہوگا۔ہمیں بحیثیت اُمت پُر عزم رہنے کی ضرورت ہے اور یہ یقین رکھنا ہوگاکہ اسلام کا ایک وقت ضرور آیے گا،جب بابری مسجد کو پھر سے تعمیر کیا جائے گا،مسجد اقصیٰ کو صہیونیوں کے خونخوار پنچوں سے آزاد کر ادیا جائیگا اور مسجد قرطبہ میں اذان کی دلسوز صدائیں بُلند ہوں گی۔اسی طرح سے جس طرح آج مسجد آیا صوفیہ میں اللہ اکبر کی صدائیں بُلند ہوئیں۔اس فیصلے کے نتیجے میں آج رجب طیب اردگان کو اُمت مسلمہ کا غمخوار اور محسن قائد تسلیم کیا جا رہا ہے اور اُن کے اس فیصلے پہ رسول اللہ ﷺ کے عاشقوں نے خوشی کا اظہار کیا ہے بلکہ عیسائیوں کے مذہبی پیشوا نے بھی ایا صوفیہ کی افتتاحی تقریب میں شرکت کی۔مسلم دنیا کے اس ہر دلعزیز قائد اردگان کا یہ فیصلہ عین حق اور انسانیت کے مطابق ہے جس کے لئے وہ مبارک بادی کے مستحق ہیں،ہماری دعائیں اردگان کے ساتھ ہیں اللہ تعالیٰ اُن کی اِن کاوشوں کو اپنی بارگاہ میں شرف قبولیت سے نوازیے اور اُن کی خواہش کے مطابق مسجد اقصیٰ کو صہونیوں کے
پنجے استبداد سے آزاد کرانے کی ہمت و طاقت عطا فرمائے۔آمین۔

Facebook Comments