• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • گوئٹے اور فاؤسٹ کا ایک تنقیدی جائزہ: بشیشور منور لکھنوی(مرتب: عاصم رضا)قسط1

گوئٹے اور فاؤسٹ کا ایک تنقیدی جائزہ: بشیشور منور لکھنوی(مرتب: عاصم رضا)قسط1

تعارف :          جناب بشیشور پرشاد منور لکھنوی   وہ شخصیت ہیں جنھوں  نے  فاؤسٹ کا پہلا  منظوم اردو ترجمہ کیا   ۔1969ء میں پہلی دفعہ شائع ہونے والے اس منظوم اردو ترجمہ کی بنیاد البرٹ جی  لیتھم کےمنظوم انگریزی ترجمہ پر  ہے ۔ لیتھم کے ساتھ ساتھ فاضل مترجم نے  فلپ وین ، ٹیلر اور فریزر کے  منظوم انگریزی   تراجم کے علاوہ ڈاکٹر سید عابد حسین کے اردو ترجمہ سے بھی  استفادہ کیا ہے  ۔  فنی اعتبار سے بشیشور لکھنوی کا ترجمہ آزاد ہے اور اردو شاعری کی تمام فنی شرائط کی تکمیل اس میں مدنظر رکھی گئی ہے ۔ بیشتر ترجمہ اس لحاظ سے پابند ہے کہ اس میں قافیہ اور ردیف کا بھی خیال رکھا گیا ہے ۔دھیان رہے کہ   بشیشور لکھنوی صاحب  کا منظوم ترجمہ بھی  فاؤسٹ کے حصہ اول ہی  پر مشتمل ہے ۔ بشیشور لکھنوی نے گوئٹے اور فاؤسٹ کے بارے میں ایک تنقیدی مضمون بھی لکھا جس  کی علمی اور تاریخی اہمیت کے پیش نظر اس کو  دوبارہ سے پیش کیا جا رہا ہے ۔ فاضل مرتب نے صرف اس قدر تصرف کیا ہے کہ موجودہ قاری کا لحاظ کرتے ہوئے  انگریزی الفاظ کے اندراج ، مشکل الفاظ کے معانی ، جدید رموز اوقاف اور املاء کو استعمال کیا ہے ۔

گوئٹے نے لگ بھگ 73 سال تک عالم آب و گل کی سیر کی ۔ فاوسٹ کا خاکہ ان کے ذہن میں پورے ساٹھ سال تک تیار ہوتا رہا گویا ان کی عملی زندگی کا بیشتر حصہ فاؤسٹ ہی کے تصور اور اس کی تخلیق میں صرف ہوا ۔ اس کی ابتداء اس زمانے میں ہوئی تھی جب گوئٹے کی عمر صرف بیس سال تھی ۔ صرف تھوڑے سے اشعار 1801ء میں وارد ہوئے ، اس وقت ان کی عمر 51 سال تھی ۔ چونکہ فاؤسٹ کا یہ منظوم ترجمہ صرف حصہ اول پر مشتمل ہے اس لیے دوسرے حصے کا تذکرہ ہمارے دائرہ غوروخو ض سے باہر ہے ۔ پھر بھی جب تک گوئٹے اپنی عمر کے 83 ویں سال میں داخل نہیں ہو گئے ، اس وقت تک اس کا اختتام عمل میں نہیں  آ سکا ۔ یہ آئیڈیلزم (تصوریت یا آدرش واد) کے اصول کا ایک پراسرار کارنامہ ہے ۔ اس کو ضمیر اور محبت کی اُس انسانی کشمکش سے لگاؤ نہیں جس کا ذکر مصنف  نے حصہ اول میں کیا ہے ۔ اس حصے میں زورِ بیان ہے ۔ شگفتگی ہے اور یہی وجہ ہے کہ صرف جرمنی ہی میں نہیں بلکہ اکثر دوسرے ممالک میں  گوئٹے کو گوناگوں خوبیوں کا مجسمہ قرار دیا گیا ہے ۔ فاؤسٹ کے حصہ اول میں آپ کو بیشتر جذبہ اور عقل، ان دونوں چیزوں کا باہم دگر امتزاج اور اشتراک ملے گا ۔ انہی خوبیوں کی بنا پر گوئٹے کا شمار دنیا کے ان عظیم ترین شاعروں میں ہوتا ہے جن کی عظمت کا ڈنکا(چرچا)  چاردانگ عالم (دنیا کے چاروں کونوں )  میں بج رہا ہے ۔ کسی بھی ایسے مصنف کو جس کی زندگی ایک کھلا راز ہے ، خدا بنا کر اس کی عبارت کرنا اس کی عزت افزائی نہیں قرار دیا جا سکتا اور خاص طور پر ایسی حالت میں جب اس کے مداحوں کا مقصد جیسا کہ گوئٹے کے معاملے میں پیش آیا ، اس کے ذاتی مسائل میں درخور (رسائی) حاصل کرنا ہو ۔ بہرحال اس عبادت میں لوبان (Benzcin)کا جو دھواں اٹھتا ہے صرف اسی کو مصنف کا کارنامہ قرار دینا مناسب نہیں ۔ گوئٹے نے مختلف ادوار میں چند زبردست اور غیرمعمولی نیز جرات آمیز شخصیتوں مثلاً ھومر ، دانتے اور شیکسپیئر کی صف میں خود کو شامل کر لیا ہے ۔ بہرکیف یہ حضرات اس قسم کے شخصی تجسس اور تحقیق سے مبرا ہیں لیکن چونکہ گوئٹے کی مصروفیات بے حد تعجب انگیز تھیں مثلاً وہ شعر کہتے تھے ، حکومت کا قلمدان ِ وزارت ان کے سپرد تھا ۔ انہوں نے تھیٹر میں ہدایت کاری کے فرائض بھی انجام دیے ۔ وہ نقاد بھی تھے اور ان کی وابستگی سائنس کے ساتھ بھی تھی ۔ اسی لیے تحریری طو ر پر ان کے بارے میں اتنی تحقیقات عمل میں آئی ہیں اور مکالموں کے ذریعے بھی اس سلسلے میں اتنی کثرت سے کام لیا ہوا ہے جس کی مثال تمام عالم ِ ادبیات میں مشکل ہی سے دستیاب ہو گی ۔ ان کی نجی زندگی کا دروازہ بھی کھلا ہوا ہے کیونکہ جیسا کہ ٹامس مان  نے کہا ہے :  ’’اسکول کے لڑکوں کو بھی مشتری کی طرح ان کی داستانِ معاشقہ حفظ بر زبان ہے‘‘۔

یقینا ً زیادہ پائیداری اور مستقل مزاجی اس شخص میں ہوتی ہے جو میز کے گرد بیٹھ کر کی جانے والی گفتگو کے دائرے سے نکل کر لوگوں کے چھوٹے سے مگر لاثانی گروہ میں جا کر قدم جما دیتا ہے ۔ یہ لوگ لاثانی ہوتے ہیں اور اس میں شک نہیں کہ اپنی زندگی کے اواخر میں گوئٹے نے گوشہ نشینی اختیار کر لی تھی ۔ اس کے علاوہ وہ عام انسانی سطح سے کہیں زیادہ بلند تھے ۔ اس گوشہ نشینی کے اختیار کرنے کا مدعا یہ تھا کہ وہ خود کو سرگرم جماعتوں سے محفوظ رکھ سکیں ۔ زمانۂ حال کے نقطہ نظر سے دیکھیے تو معلوم ہو گا کہ گوئٹے ایسے عظیم شخص کے پہلو میں کتنا زبردست محبت بھرا دل تھا اور ساتھ ہی ساتھ  ان میں کس قدر شرمیلا پن بھی تھا ۔ ان کو اس بات سے بے اندازہ مسرت حاصل ہوتی تھی کہ ان کے کارنامۂ عظیم یعنی فاؤسٹ کو عالمگیر شہرت حاصل ہو چکی تھی اور لوگ اسے اپنے ایوانِ دل میں بڑے ادب و احترام کے ساتھ جگہ  دیتے تھے ۔ اپنی پیرانہ سالی (بڑھاپے) کی طرح اپنی جوانی کے زمانے میں گوئٹے نے اپنی زندگی کو زبردست طنز آمیز چھان بین کی نگاہ سے دیکھا تھا لیکن ان کی گرم جوشی ہر وقت برقرار رہتی تھی ۔ نہایت عاجزی اور بردباری کے ساتھ انہوں نے اپنا عظیم کارنامہ اپنے ہم جنسوں کے سامنے ایک ایسے ساتھی کی طرح پیش کیا جس کے دل کا پیمانہ شرابِ محبت سے لبریز تھا ۔ پہلے ہی میں منظر میں جب فاؤسٹ واگنر کے ساتھ نمودار ہوتا ہے تو وہ خلوص اور صداقت کی قدروقیمت پر بہت زور دیتا ہے جس کے بغیر کسی قسم کی بھی چالاکی اور ہوشیاری بالکل بےکار شے معلوم ہوتی ہے اور جب گوئٹے اپنی نظموں کے تہدیہ (تحفہ) و انتساب کو تصور کے سانچے میں ڈھال کر ایک دیوی کے منہ سے وہ فاؤسٹ کو اس بات پر کہ وہ خود کو فوق الانسان کی حیثیت سے پیش کرتا ہے ، لعنت ملامت کا نشانہ بنواتے ہیں تو فاؤسٹ دیوی کے سوال کی تہہ میں بھرے ہوئے خلوص ِ قلب کے سامنے سرِ تسلیم خم کر دیتا ہے :

نہ اگر مجھ کو آس یہ ہوتی بھائیوں کو وہاں میں لے آتا

اتنے جوش و خروش کے ہمراہ راستہ میں نے کیوں تلاش کیا

گوئٹے کے اندرونی وجود یعنی ان کی دانائی اور ان کی جذباتیت کے راستے، ہم کو ان کی فاؤسٹ میں نمایاں طور پر نظر آتے ہیں اور اس میں شک نہیں کہ دنیا کا یہ وہ مبارک ترین الہام تھا جس کے تحت گوئٹے کی ذہانت اور طباعی   کے باعث ان کی  توجہ اس قدیم کہانی کی جانب مبذول ہوئی ۔

گوئٹے ابھی صرف چوبیس سال کے تھے کہ انہیں ایک نثری ڈرامے گوئٹز فان برلیچنگن (Götz      von      Berlichingen) کی تصنیف کے طفیل ساری قوم میں ناموری حاصل ہو گئی۔  اس معاملے پر انہوں نے پہلے  ہی بہت کچھ غوروخوض کر رکھا تھا ۔ یہ بات ہے 1773ء کی ۔ اس وقت ان کی زندگی ایک لحاظ سے کوئی نہ کوئی موڑ اختیار کر چکی تھی حالانکہ آزادی کے سلسلے میں ان کے اس ہیجان انگیز ناٹک کی تصنیف پر قوم نے ایک رہنما کی حیثیت سے نہایت گرم جوشی کے ساتھ ان کا خیرمقدم کیا تھا ۔ ان کو علم تھا کہ ڈرامے کے لیے باہر سے تاریخی موضوعات کا اختیار کرنا ان کے لیے ایک دوستانہ طریقہ کار نہیں تھا ۔ گوئٹے تو ہمیشہ ان طبعی محرکات پر تکیہ کرتے تھے جو ان کے ذاتی نیز قریبی تجربوں کا نتیجہ ہوتے تھے اور جن کی تشکیل ان کے ذاتی مفروضے کی بدولت آفاقی نقطہ خیال سے ہوتی تھی ۔ دوسرے عظیم ترین شاعروں کی طرح ان کے تخیل کو کسی ٹھوس چیز کے اپنانے میں کسی قسم کا حجاب نہیں محسوس ہوتا تھا ۔ حقیقی زندگی کے تصورات کے آواز دینے پر ان کے تخیلات فوراً چوکڑیاں بھرتے(اچھلتے کودتے) چلے آتے تھے ۔ ان تصورات میں ان کے احساسات کا اظہار اتنی شدت کے ساتھ ہوتا تھا کہ ان کو فوراً انسانوں کے دلوں میں  جگہ حاصل ہو جاتی تھی ۔ شیکسپیئر ، ہیملٹ کے لیے ایک نظر مستعار (ادھار)لے سکتا تھا لیکن دل پر براہ راست اثر کرنے والے تصورات کی تو بات ہی کچھ اور ہوتی ہے ۔

پیشتر اس کے کہ ہوجائیں پرانے اس کے جوتے

پاؤں میں جن کو پہن کر

ہم قدم ہوتی تھی

میرے بیکس والد مرحوم کے لاشے کے ساتھ

لیکن یہ سطور اُس جلتی ہوئی محبت سے نکلتی تھیں جو اس کو سادہ ترین اشیاء کے ساتھ تھی ۔ یہی حال گوئٹے کا بھی ہے ۔ ٹڈا، کوڑا بھرنے  کا برتن ، تختہ اور محض پرندوں کی جھالروں سے بھی اس کی شاعری کو دلی تقویت پہنچتی ہے ۔

مشہور و معروف ناول نگار اور نقاد ٹامس مان کا ایک قول اور بھی زیادہ قابل ِ ذکر ہے۔ اس نقاد نے گوئٹے کے بارے میں لکھا ہے کہ انتہائی خالص سادگی یا بھولا پن اور زبردست عقل و ادراک یہ دونوں چیزیں ایک ساتھ دست بدست چل سکتی ہیں ۔ کسی بھی کلاسیکی تصنیف کے لیے یہ ایک نہایت نفیس نسخہ ہے ۔ ایسی چیز بڑی مشکل سے پیدا ہوتی ہے ۔ تعجب کی بات تو یہ ہے کہ اپنی جوانی کی تمام نزاکتوں اور ولولوں کے ساتھ گوئٹے میں وضاحت رائے کا غیرمعمولی ملکہ بہت جلد نمایاں ہو گیا تھا ۔ ان کے عظیم ترین  موضوع کے لحاظ سے ان کی پختگی وسعت میں چار گنا بڑھ گئی تھی ۔ جرمنی میں متغزلانہ  شاعری(غزل گوئی)  کا علم لوگوں کو تھا ۔ اس پر گوئٹے کو بڑا اچھا عبور حاصل تھا ۔ شروع شروع میں جنسی معاشقوں کے متعلق جو تصاد م پیش آئے ، ان کے تحت انہیں عشق و محبت کی اخلاقی ذمہ داریوں کے مقابلے  پر آنا پڑا ۔

ان کو محسوس ہونے لگا تھا کہ جس انسان میں علم و فضل زیادہ ہوتا ہے اس میں نخوت(تکبر) کی بو آنے لگتی ہے ۔ اور آخر میں تو انہوں نے خود کو اس دعوتِ مقابلہ کے لیے جو انہیں اسرارِ زندگی کے سلسلے میں موصول ہوئی تھی ، کمالِ توجہ کے ساتھ سپرد کر دیا تھا ۔ ہمیں معلوم ہے کہ دل و دماغ میں متعدد قسم کے قصوں کو اپنے ارمانوں اور عقیدوں کی ممکن شکل دینے کے خیال سے وہ ان پر غور کیا کرتے تھے لیکن جہاں تک فاؤسٹ کے قصے کا تعلق ہے اس میں ان کے تخیل نے واضح طور پر ایک نمایاں شکل اختیار کر لی تھی ۔ ان کی جواں سال ذہانت کا پتہ ان کی اس مستقل مزاجی سے ملتا ہے جس کی بدولت انہوں نے اپنی داستان کا ڈھانچا دوبارہ بدل دیا ۔

جب  1587ء میں فاؤسٹ کی پہلی جلد شائع ہوئی تو اس سے اعلیٰ درجہ کے طباعت کرنے والے کا سکہ ہر طرف بیٹھ گیا ۔ کتاب کی اشاعت سے بڑا ہیجان پڑا ، تلاطم اٹھ کھڑا ہوا ۔ اس میں واقعہ اور افسانہ دونوں چیزیں مشترک تھی   ۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ قدیم زمانے کے فاؤسٹ کا ذکر جس کا کوئی حقیقی وجود نہ تھا اور جس نے پرواز کے مظاہرے میں اپنی جان گنوا دی تھی ، سائمن کی روایت میں سنائی  دیتا ہوا ملتا ہے ۔ فاؤسٹ کا کام دوبارہ ایک عامل  جادوگر نے اختیار کیا جس کی ذات سے بڑے ہیجان انگیز عجائبات ظہورپذیر ہوئے اور جو زیادہ شرمناک طور پر 1537ء میں لقمۂ اجل ہوا ۔ لطف یہ ہے کہ یہی شخص فاؤسٹ کی کتاب کا جزواعظم یعنی ہیرو ہے  جو اس کی وفات سے پچاس سال بعد شائع ہوئی تھی ۔ 1587ء کی شائع شدہ کتاب گوئٹے کی نظر سے نہیں گزری لیکن شیکسپیئر کے ہم عصر مارلو(Marlow) کی نظر بہت جلد اس پر پڑ گئی اور شاید اس کا ترجمہ ہونے کے قبل ہی اس نے اس کو اپنا لیا ۔ انگریزی زبان میں فاؤسٹ کے پڑھنے والوں کے لیے یہ داستان ایک خاص دلچسپی پیدا کرنے کا موجب ہو گئی اور سترھویں صدی کی ابتداء میں جن لوگوں نے جرمنی  میں ڈرامے کا خاص طور پر اہتمام کیا ،  ان میں انگریز اداکار حصہ لیتے تھے ۔ یہ لوگ مارلو کا تصنیف کردہ ڈرامہ اپنے ہمراہ لے گئے تھے ۔ امتدادِ وقت (وقت  کے گزرنے)کے زیرِ اثر یہ ناٹک خاموش یا متکلم تماشا کی حیثیت سے سٹیج پر آیا ۔ کٹھ پتلی والے تھیٹر نے اسے ہاتھوں ہاتھ لیا اور کٹھ پتلی کے فاؤسٹ کو دیکھ کر سب سے پہلے گوئٹے  کے دل میں شعلۂ اشتیاق  بھڑکا ۔ یہ وہ زمانہ تھا جب گوئٹے فرینکفرٹ میں رہتے تھے اور ابھی محض طفل نوآمیز (نوجوان) ہی تھے ۔

ایسا معلوم ہوتا ہے کہ گوئٹے  نے مقبول ِ عام کتاب فاؤسٹ کے بعد والی ایک اور تصنیف کے سلسلے  میں قدم اٹھایا ۔ اس کی بنیادی خصوصیت کے بارے میں بہت کچھ لکھا جا چکا ہے  جو قصے میں شامل اور ان سے مزید ملتی جلتی یا ان افسانی باتوں میں موجود تھا جو گوئٹے کے دماغ میں جاگزیں تھیں،  اس کے خاص خاص  سرے  واضح ہیں ۔ ہمارے زمانے کی طرح تشکیک و تشکک کے زمانے میں جو لوگ دین و ایمان میں یقین رکھتے تھے ، وہ روایتوں سے پیدا شدہ رکاوٹوں کو ذرا بھی برداشت نہ کرتے تھے اور انہوں نے اپنی مبہم اشتہا (بھوک) کی آسودگی کا ڈھنگ ان مخفی قوتوں کے طریقِ حصول سے نکال لیا تھا جو مستند نظریہ پرست اشخاص کے دائرہ معلومات سے کہیں زیادہ آگے تھا ۔ یہ وہ تحریک تھی جس کا احساس گوئٹے کو جن کے لیے محرومیاں ہمیشہ وبالِ جان رہیں ، روشن خیالی کے زمانے میں ہوا اور بالکل ایسا ہی احساس فاؤسٹ کے دورِ نشاۃ الثانیہ کے درمیان برافروختگی (رنجیدگی ) کے زمانے میں ہوا تھا ۔

جاری ہے

Advertisements
julia rana solicitors

جائزہ

Facebook Comments

مہمان تحریر
وہ تحاریر جو ہمیں نا بھیجی جائیں مگر اچھی ہوں، مہمان تحریر کے طور پہ لگائی جاتی ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply