میرا باپ جو میرا یار تھا۔۔عارف خٹک

میری ہر غلطی پر پردہ ڈالنے والا ایک شخص مجھے یوں اکیلا اور تنہا بھی چھوڑ کر جاسکتا ہے۔ کبھی سوچا بھی نہیں تھا۔
جب جب غلطی کی تو کہتا “کھوتے اب تو بڑا ہوگیا ہے۔ بالوں میں سفیدی آگئی ہے۔ انسان کا بچہ بن جا”۔ میں  آگے سے اسے بلیک میل کرکے کہتا “ابا مجھے نہیں معلوم بس سنبھال لینا۔ آپ کا کیا فائدہ؟”۔

اگلے دن میرا فوجی ابا میری خاطر جرگے میں بیٹھ کر تاویلیں دیتا  رہتا  کہ ‘میرا بیٹا غلط ہے میں جانتا ہوں مگر اس کا میرے علاوہ کون ہے۔ جرگے  والے کہتے کہ عارف نے غلط کیا ہے۔ تو  آگے سے ابا کہہ دیتے کہ “اس لئے تو میں جمہوریت پسند نہیں ہوں۔ تم بلڈی سویلینز کیا جانو انسانی حقوق کو”۔

سال 2017 میں والد صاحب ایک اندھے قتل کیس میں نامزد ہوئے۔ مجھے معلوم ہوا کہ علاقہ ایس ایچ او نے ان کو گرفتار کیا ہے تو آئی جی خیبر پختونخوا  کو میں نے پوری رات سونے نہیں دیا۔ پوری  انتظامیہ کی نیندیں حرام کردیں بالآخر دسویں روز ان کی ضمانت منظور کرواکر ابا کو کرک جیل کی سلاخوں کے پیچھے سے باہر نکالا۔ تو باہر نکل کر میں نے ایک چھوٹی سی فور بائی فور گاڑی کی چابی ان کے حوالے کردی کہ یہ لیں آپ کا تحفہ۔

میری طرف دیکھ کر پوچھا “یہ کیا ہے؟۔” بتایا “ابا  آپ کو گالی دینے سے تو رہا مگر دوسروں کے مسائل میں ٹانگیں اڑانے کا نتیجہ دیکھ لیا؟”۔ گاڑی کا دروازہ کھولتے ہوئے مجھے ایک دفعہ پھر لاجواب کردیا “کیا کروں ایک کھوتے کا ابا جو ٹھہرا۔۔۔۔”

“عارف گل ایک دن کیلئے تو آجاؤ۔ پتہ نہیں زندگی مہلت دے یا نہ دے۔” ابا نے بمورخہ چار نومبر کو مجھے شرمندہ کیا۔ وعدہ کیا “ابو تین چار روز میں آرہا ہوں”۔
صبح آٹھ بجے اماں کی چھنگاڑتی ہوئی چیخیں فون پر گونج اٹھیں۔ “تیرا ابا ملنگوں کی طرح چارپائی پر پڑا ہے۔ کوئی بھی پاس نہیں ہے۔۔”
اسی شام ابا کو جب لحد میں اتارا جارہا تھا تو میں نے غور سے ابا کا ساکت جسم دیکھا کہ ابھی آواز دے گا “آگیا میرا یار۔”

رات کو اماں ابا کے جائے نماز پر جیسے  ہی بیٹھی ایک چیخ گونج اٹھی۔ سب  اماں کو دلاسہ دینے لگے۔ ‘صبر کرو مردے کے پیچھے نہیں روتے۔۔۔۔” میں ایک ٹک اماں کو دیکھتا رہا جس نے ابا سے پہلی اور آخری محبت کی تھی۔ میں اس کا اندازہ لگا سکتا تھا کہ جب آپ کا محبوب پینتالیس سال سے ایفائے عہد کرتا ہوا اپنا وعدہ نبھا رہا ہو اور جب آپ کو اس کی ضرورت زیادہ محسوس ہونے لگے تو اچانک منہ موڑ کر خاموشی سے چل پڑے،   دنیا کی کوئی طاقت  آپ کو دلاسہ نہیں دے سکتی۔ تو میں  اماں کو کیسے دلاسہ دے سکتا تھا۔

Advertisements
julia rana solicitors london

اگلی صبح قبر پر بیٹھا خاموش  آنسو  بہا رہا تھا کہ ایک نرم آواز آئی “عارف گل میری “چھٹکی” کا خیال رکھنا میرے علاوہ اس کا کوئی نہیں۔۔ اس کو کچھ کہا باخدا حق نہیں بخشونگا”۔

Facebook Comments

عارف خٹک
بے باک مگر باحیا لکھاری، لالہ عارف خٹک

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

براہ راست ایک تبصرہ برائے تحریر ”میرا باپ جو میرا یار تھا۔۔عارف خٹک

Leave a Reply