عدت کے احکام ۔ چند ضروری توضیحات۔۔۔عمار خان ناصر

احکام شریعت عموماً‌ دو طرح کے پہلوؤں کا مجموعہ ہوتے ہیں۔ ایک پہلو ’’معلل’’ یعنی کسی قانونی علت پر مبنی ہوتا ہے جس کے وجود یا عدم وجود پر حکم کا مدار رکھا جاتا ہے اور مجتہدین اس کی روشنی میں حکم کے قابل اطلاق ہونے یا نہ ہونے کا فیصلہ کر سکتے ہیں۔ دوسرا پہلو ’’تعبدی’’ ہوتا ہے، یعنی جس کی کوئی ظاہری قانونی علت نہیں ہوتی اور اس کی پابندی محض شارع کے امتثال امر کے طور پر کی جاتی ہے۔

طلاق کے احکام میں بھی یہ دونوں پہلو موجود ہیں۔

شریعت میں طلاق یا وفات کی صورت میں عدت کے جو احکام دیے گئے ہیں، ان پر غور کرنے سے واضح ہوتا ہے کہ مبینہ پابندیوں میں ایک سے زائد مقاصد اور حکمتوں کی رعایت کی گئی ہے۔ ان میں اہم ترین چیز تو استبراء رحم یعنی عورت کے پیٹ کی حالت کا واضح ہونا ہے تاکہ بچے کے نسب کا معاملہ کسی اشتباہ اور اختلاط کا شکار نہ ہونے پائے۔ یہی وجہ ہے کہ ازدواجی تعلق قائم ہوئے بغیر طلاق ہو جانے کی صورت میں قرآن نے عدت کی پابندی عائد نہیں کی۔ تاہم یہ اس معاملے کا صرف ایک پہلو ہے۔

طلاق کی صورت میں قرآن نے جو عدت مقرر کی ہے، اس سے واضح ہے کہ حمل کی صورت حال واضح ہونے کے علاوہ شوہر کو رجوع کا موقع دینا بھی اس ہدایت کا ایک مقصد ہے۔ یہی وجہ ہے کہ صرف ایک ماہواری کے بجائے تین ماہواریاں مقرر کی گئی ہیں، حالانکہ استبراء رحم کے لیے ایک یا دو ماہواریاں بھی کافی تھیں، جیسا کہ بہت سے شرعی نظائر سے ثابت ہے۔ مثلاً‌ لونڈی کی عدت دو ماہواریاں مقرر کی گئی اور نئی خرید کردہ لونڈی سے ہم بستری سے پہلے صرف ایک ماہواری سے استبراء رحم کرنے کو کافی سمجھا گیا۔ اسی تناظر میں ابن تیمیہ رحمہ اللہ کی رائے یہ ہے کہ تیسری طلاق کے بعد چونکہ رجوع کی گنجائش نہیں ہوتی، اس لیے استبراء رحم کے لیے صرف ایک ماہواری کافی ہوگی۔

یہی معاملہ عدت وفات کا ہے۔ قرآن نے جو حکم دیا ہے، اس سے واضح ہے کہ محض استبراء رحم نہیں، بلکہ اس سے زائد بھی کچھ مقصود ہے۔ استبراء رحم کے لیے ایک دو یا تین ماہواریاں گزارنے کا کہا جا سکتا تھا، لیکن قرآن نے یہاں سرے سے اس پہلو کو چھیڑا ہی نہیں، بلکہ یہ کہا کہ چار ماہ دس دن انتظار کیا جائے۔ یہ ایک بالکل ’’تعبدی’’ نوعیت کی مدت ہے جس کی کوئی تعلیل نہیں ہو سکتی۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ بیوہ کو ایک متعین عرصے تک نئے نکاح سے روکنا شریعت کا مقصود ہے۔ احادیث میں بیوہ کے لیے سوگ اور ترک زینت کے جو آداب بیان کیے گئے ہیں، ان سے بھی اسی پہلو کی مزید تاکید ہوتی ہے۔

البتہ بیوہ اگر حاملہ ہو تو اس کا معاملہ ذرا پیچیدہ ہو جاتا ہے۔ قیاسی طور پر اسے استبراء رحم کے لیے وضع حمل کی، جبکہ سوگ کے پہلو سے چار ماہ دس دن کی دونوں عدتیں گزارنی چاہئیں۔ تاہم شریعت کا مزاج چونکہ تیسیر اور تخفیف کا ہے، اس لیے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسی عورتوں پر دوہری پابندی لازم کرنے کے بجائے صرف وضع حمل کو ان کی عدت قرار دیا۔ اس سے عورت کے لیے توازن یوں پیدا ہوتا ہے کہ اگر ایک طرف وضع حمل کا عرصہ چار ماہ دس دن سے متجاوز ہونے کی صورت میں اسے زیادہ عرصے تک انتظار کرنا پڑتا ہے تو دوسری طرف وضع حمل جلدی ہو جانے کی صورت میں وہ فوری طور پر عدت کی پابندیوں سے آزاد ہو جاتی ہے۔

عدت کی پابندیوں سے متعلق ایک اور سوال یہ سامنے آتا ہے کہ بیوہ کے لیے زیب وزینت سے اجتناب کی جو ہدایت دی گئی ہے، طلاق یافتہ خاتون پر اس کا اطلاق ہوتا ہے یا نہیں؟

اس ضمن میں ایک نکتہ تو یہ ملحوظ رہنا چاہیے کہ جس پہلو سے بیوہ کو زیب وزینت سے اجتناب کا پابند کیا گیا ہے، وہ خاوند کی وفات کا سوگ ہے اور اس حالت میں بدیہی طور پر زیب  و زینت کرنا مناسب نہیں۔ بعض اہل علم نے اس کو سد ذریعہ اور احتیاط کے پہلو سے بھی لیا ہے، جس کا مطلب یہ ہے کہ چونکہ ایسی حالت میں نکاح یا پیغام نکاح دینا جائز نہیں، اس لیے عورت کو زیب وزینت سے بھی اجتناب کرنا چاہیے تاکہ اس کی طرف خواہش مندوں کی رغبت کم رہے اور عدت کے آداب کے مجروح ہونے کا امکان پیدا نہ ہو۔

جہاں تک مطلقہ کا تعلق ہے تو اس میں ظاہر ہے، سوگ کا مذکورہ پہلو نہیں پایا جاتا۔ البتہ کچھ دوسرے پہلوؤں سے مختلف صورتوں میں زیب وزینت کا اہتمام کرنے یا نہ کرنے کا فیصلہ کیا جا سکتا ہے۔ چنانچہ فقہاء  لکھتے ہیں کہ رجعی طلاق کی صورت میں عورت کو زیب وزینت کا اہتمام کر کے شوہر کو اپنی طرف راغب کرنا چاہیے، کیونکہ اس صورت میں شریعت کو یہ مطلوب ہے کہ خاوند، اپنے فیصلے سے رجوع کر لے۔ البتہ خلع، طلاق بائن یا تیسری طلاق کے بعد چونکہ رجوع کی گنجائش نہیں ہوتی، اس لیے شوہر کے گھر میں رہتے ہوئے زیب وزینت اور بنا ؤسنگھار کا اہتمام، امکانی فتنے کا موجب ہو سکتا ہے، اس لیے اس سے گریز کرنا چاہیے۔

بعض دفعہ ایسا ہوتا ہے کہ خلع یا طلاق بائن وغیرہ کے بعد عورت، شوہر کے گھر کے بجائے دوسری جگہ عدت گزار رہی ہوتی ہے۔ ایسی صورت میں معمول کی، ہلکی پھلکی زیب وزینت میں کوئی حرج نہیں، خاص طور پر کوئی ایسا التزام شرعاً‌ مطلوب نہیں جو ’’سوگ’’ کی کیفیت کا تاثر دے۔ تاہم چونکہ نیا نکاح یا صریح پیغام نکاح اس صورت میں بھی ممنوع ہے، اس لیے ایسی زیب وزینت جو دیکھنے والوں کے لیے باعث رغبت ہو یا اس سے عورت کی رغبت کا اظہار ہوتا ہو، مناسب نہیں۔ اسی طرح اگر عرفی طور پر اسے معیوب سمجھا جاتا ہو تو اس کی رعایت کرنا بھی بہت مناسب ہوگا۔
بیوگی کی عدت کے دوران میں عورت کے لیے کن چیزوں کی پابندی شرعاً‌ ضروری ہے، اس ضمن میں بہت سی غلط فہمیاں عوام میں پھیلی ہوئی ہیں اور اتنی پختہ ہیں کہ ان کی پابندی، اصل شریعت سے بھی زیادہ ضروری سمجھی جاتی ہے۔ خوب یاد رکھنا چاہیے کہ بیوہ کے لیے عدت میں شریعت نے درج ذیل امور کی پابندی بیان کی ہے۔

۱۔ وہ شوہر کی وفات سے لے کر چار ماہ دس دن تک سوگ کا عرصہ گزارے گی۔ اس دوران میں اسے ترجیحاً‌ شوہر ہی کے گھر میں رہنا چاہیے اور بلا ضرورت گھر سے باہر کی سرگرمیوں سے اجتناب کرنا چاہیے۔
البتہ جن ملازمت پیشہ خواتین کا کوئی اور معاشی سہارا نہ ہو اور گزر بسر کا بھی کوئی متبادل انتظام نہ ہو، ان کا معاملہ الگ ہے۔ وہ ضرورت کے اصول پر دوران عدت میں بھی اپنی ملازمت جاری رکھ سکتی ہیں۔

۲۔ عدت کے دوران میں وہ سادہ لباس پہنے اور زیب وزینت سے اجتناب کرے۔ میک اپ، زیورات کا استعمال اور شوخ لباس پہننا نامناسب ہے۔ لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ وہ صاف ستھری نہ رہے۔

۳۔ عدت کے عرصے میں اسے نئے نکاح کا واضح پیغام دینے سے اجتناب کیا جائے۔ اشارے کنایے میں مدعا اس تک پہنچایا جا سکتا ہے، لیکن صاف اور صریح پیغام نکاح نہیں دیا جا سکتا۔

عوام میں دو غلط فہمیاں بہت عام ہیں۔ ایک یہ کہ اس عرصے میں بیوہ کو گھر کے کسی کمرے میں محصور ہو کر رہنا پڑتا ہے اور وہ گھر کے کام کاج بھی نہیں کر سکتی۔ دوسری یہ کہ اس عرصے میں اس کے لیے پردے کا اہتمام عام معمول سے زیادہ لازم ہے اور وہ گھر کے غیر محرم عزیزوں کے سامنے نہیں آ سکتی۔

Advertisements
julia rana solicitors

یہ دونوں باتیں بالکل بے بنیاد ہیں۔ ایسی کوئی پابندی شریعت نے عائد نہیں کی۔ اگر کوئی خاتون عام معمول کے طور پر خاندان کے تمام غیر محرموں (مثلاً‌ شوہر کے بھائی، بھانجوں بھتیجوں وغیرہ) سے پردہ کرتی ہے تو عدت میں بھی کر سکتی ہے۔ لیکن اگر گھر کے عام ماحول میں ایسے پردے کا التزام نہیں کیا جاتا جو کہ شرعاً‌ لازم بھی نہیں تو دوران عدت میں اس کا کوئی خصوصی اہتمام کرنا شریعت کا تقاضا نہیں۔
ہذا ما عندی واللہ اعلم

Facebook Comments

عمار خان ناصر
مدیر ماہنامہ الشریعہ گوجرانوالہ

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply