ڈاکٹر خالد سہیل کے “آدرش “۔۔۔دعا عظیمی کے تاثرات

؎ رات تاریک ہوئی جاتی ہے

ایک مہتاب سلامت رکھنا

راستے تنگ ہوئے جاتے ہیں

دل میں اک باب سلامت رکھنا

وہ تمہیں دار پہ لے جائیں گے

آنکھ میں خواب سلامت رکھنا

خالدسہیل!

اس دنیا میں نہ شاعروں کی کمی ہے، نہ ادیبوں کی، نہ لکھنے والوں کی ، نہ ہی پڑھنے والوں کی۔

سائنسدان تسخیر کائنات میں مگن ہیں تو فلسفی ہر دم فلسفے کی گھمبیر گتھیاں سلجھانے میں گم ، نفسیات دان شعور اور لاشعور اور تحت الشعور کی گہرائیوں میں چھپے راز دریافت کرنے کی بات کر رہے ہیں تو سماجی بہبود کے طالبعلم فرد ، معاشرے اور ان کے درمیان پیدا ہونے والے تضادات’ ان کی وجوہات اور ان کو حل کرنے کے نئے نئے امکانات کا مطالعہ کرنے کی تگ ودو میں ہیں۔

مگر سوال یہ ہے کہ کیا ان کی کاوشوں اور تخلیقات سے کسی کی عملی زندگی میں کوئی بہتری یا تبدیلی درآئی یا اگر آئی تو کس قدر ۔۔؟

ان گنے چنے ناموں میں جن کی تحریروں سےعام انسانوں کی زندگیوں میں بہتری پیدا ہوئی اورسکون آیا ہم بہت کم واقف ہیں مگر ایک ایسے ادیب سے جو انسان دوست بھی ہے اور معالج بھی ہم سب “ہم سب” ایک ادبی سائئٹ کے کالمز کی وساطت سے آگاہ ہیں۔

جی ہاں ، ڈاکٹر خالد سہیل وہ ادیب ہیں جو اپنے قارئین کے حبیب بھی ہیں طبیب بھی۔ وہ انسان اور انسانیت سے جڑے ہیں ۔ ایک طرف مغرب میں اپنے مطب میں جدید طرز علاج کا طریقہ اپنا کرانسانوں کی زندگیوں میں آسانیاں پیدا کر رہے ہیں اور ساتھ ہی ساتھ اپنے کالمز کے ذریعے گزشتہ کئی برسوں سے اپنے قارئین کی بہت سی ذہنی اور نفسیاتی الجھنوں کی گرہ کھولنے میں مددگار ہیں۔

موضوع کوئی بھی ہو ان کا انداز بیان شیریں’ شگفتہ اور مدلل ہے۔ہر دم نت نئے خیالات سے اپنے پڑھنے والوں کو روشناس کراتے ہیں۔

؎ اپنے من میں ڈوب کر پا جا سراغ زندگی

کا نسخہ کیمیا بتاتے ہیں۔ تنہائی سے کیسے نبرد آزما ہونا ہے؟ ۔

دانائی تک پہنچنے کے کون سے راستے ہیں ؟۔

تخلیقی صلاحیتوں کو کیسے اجاگر کیا جاتا ہے؟

غصے اور اضطراب سے بچاؤ کیونکر ممکن ہے؟

گرین زون کیا ہے؟

ڈاکٹر صاحب کبھی نفسیاتی ادب کے ذریعے’ کبھی تراجم تو کبھی لوک کہانیوں اور خطوط تو کبھی اشعا ر میں مفہوم کے موتی پرو کر دانائی اور امن سے پر زندگی گزارنے کے ہنر بتاتے ہیں۔ اور کبھی سیمینارز ، انٹر ویوز ، ورکشاپس اور پروگرامز کے توسط سے اپنے سیکھنے والوں سےرابطے میں رہتے ہیں ۔ادب سے زندگی کو جوڑتے ہیں اور زندگی کو ادب عالیہ سے۔

مصنف ڈاکٹر خالد سہیل کے شب وروز ان کے قارئین پر کسی کھلی کتاب کی طرح روشن ہیں ۔ ایک طرف وہ مریضوں کے الجھےمسائل کے کاکل وگیسو سنوارتے ہیں تو دوسری جانب دانش و بینش کے پروں پر نئے افق کی تلاش کا آدرش دیتے ہیں۔

ڈاکٹر خالد سہیل جو انسانیت کے نام اپنا جیون انتساب کر چکے ہیں ادبی تخلیقات کے جوہر پاروں کو انسانیت کے نام محبت نامے قرار دیتے ہیں اورآپ عالی مقاصد کے لئے مسلسل سعی کرتے نظر آتے ہیں۔آپ رجوع کرنے والوں کے لئےفری راہنمائی اور مدد کے لئے بھی تیار رہتے ہیں۔

جب مجھے علم ہوا کہ کتاب سانجھ پبلیکیشنز سے چھپ کے قارئین کے ہاتھوں میں آ چکی ہے تو اسے پہلی فرصت میں منگوایا۔ میرا خیال تھا کہ یہ قدرے خشک کتاب ہوگی کیونکہ اس میں مکالمہ اور ہم سب پہ چھپے کالمز کو ترتیب دیا گیا ہے۔ مگر جب اسے پڑھا تو پڑھتی چلی گئی۔

اس کےدلچسپ ہونے کی وجہ سے مجھے خوشگوار حیرت ہوئی۔ کتاب پڑھتے ہوئے یہ احساس ہی نہیں ہوا کہ یہ مختلف اوقات میں لکھے گئے مختلف موضوعات پر آرٹیکلز ہیں۔ جانے ان میں شفقت کا رنگ گہرا ہے یا علمی ادبی باتوں کا بہتا دریا ہے جس کےبہاؤ میں روانی ہے ۔ایک تسلسل ہے جو پڑھنے والے کو اپنے ساتھ بہائے لے جاتا ہے اور بصیرتوں کے بہت سے در وا کرتا ہے۔

محترم سعید ابراہیم کی حسین کاوش کی صورت میں سرورق ہمارے سامنے ہے۔ بلند پرواز درویش صفت پرندہ پر کھولے افق کی نئی وسعتوں کی جانب محو پرواز ہے۔

ہلکے آسمانی رنگ کا انتخاب جو نیلے افق کی بے کراں وسعتوں کا استعارہ ہے “آدرش ” میں چھپے وسیع جہانوں کی سیر کراتا ہے۔ کمپوزنگ محترمہ زہرا نقوی صاحبہ کی عرق فشانی کی بدولت مجموعے کی شکل میں سامنے ہے۔ “ہم سب ” کے مدیر محترم وجاہت مسعود کے مدبرانہ تبصرے کے زیور سے آراستہ و پیراستہ “آدرش” سانجھ پبلیکیشنز کے مالک جناب امجد صاحب کو یہ اعزاز حاصل ہوا کہ انہوں نے تخلیق کے اس مجموعے کو زیور طباعت سے گزار کے اسے ہمارے ہاتھوں تک پہنچایاہے۔جس کے لئے ہم سب شکرگزار ہیں کہ آج گلدستے کی شکل میں” آدرش “ہمارے سامنے ہے۔

“میری میوس کہاں چھپ گئی  ہے”

پہلے کالم سے لے کر آخری کالم

“ہم اپنا پورا سچ کیوں نہیں لکھ پاتے “اور اس سے پہلے

“زندگی دریا کی طرح ہے جو بہتا رہے تو بہتر ہے ”

کتاب کو پانچ دریاؤں کی صورت دی گئی ہے ۔ ان کے نام ہیں

نفسیاتی کالم ،

سماجی کالم،

ادبی کالم’

سیاسی کالم اور

فلسفیانہ کالم

جو ’ہم سب’ کے کالموں کا مجموعہ ہیں مگر ادبی چاشنی میں بھیگے ہوئے ، زندگی کے معنی سے بھر پور اور عام فہم ہر قاری کی سمجھ میں آ جانے والے مضامین ۔ ادب ’فلسفہ’ سیاست اور نفسیات کے علوم کا ساگر ” آدرش”

ڈاکٹر خالد سہیل کی تحریروں میں اپنے قارئین سے ربط کا رنگ نمایاں ہے۔ یہ سچائی پہ مبنی سوالات اور جوابات پہ مشتمل نثر پارے ہیں۔۔ ایک عام انسان کے مسائل کس طرح جنم لیتے ہیں۔ معاشرتی اقدار جو کسی ثقافت کا بنیادی ستون ہوتی ہیں کس طرح ایک فرد کی سوچ ان سے اثر قبولُ کرتی ہے کیسے مزاحمت ہوتی ہے۔ ٹکراؤ کی کیا صورتیں بنتی ہیں۔ کردار میں کیسے رخنہ ڈالتی ہیں۔

ہر ادیب ان روائتی سماجی حقائق کے خلاف بات نہیں کرتا کیونکہ معاشرے نے آئینہ دکھانے کے ساتھ ساتھ ادیب کے کندھوں پر ناصح اور مبلغ کی  ذمہ داری بھی ڈالنے کی کوشش کی ہوتی ہے۔جسے وہ اکثر نبھاتے ہیں مگر اس کے برعکس ڈاکٹر خالد سہیل کی ساری تصنیفات کا مرکز و محور وہ طبقہ ہے جو حساس دل اور آزاد ذہن رکھتا ہے۔ جو قاری بھی ان کی کتاب پڑھ لے وہ کم سے کم کھلی آنکھ ا ور بیدار مغزی سے نہ صرف اپنی ذات کے مسائل کو حل کر سکتا ہے بلکہ اپنے خاندان دوستوں اور کسی بھی دوسرے کی بہتر طور پرمدد کر سکتا ہے۔

اس کے ساتھ ادبی دریا کی لہریں عارفانہ کلام ، رومی اور شمس کے عشق کو چھو رہی ہیں۔ غالب سے لے کر احمد ندیم قاسمی ،منیر نیازی ،جون ایلیا ’ساقی فاروقی کی پاپ بیتی اور ملاقاتوں کے احوال بیان کئے ہیں۔ اپنے چچا عارف عبدالمتین کی زندگی کے مختلف پہلو بے نقاب کئے ہیں۔ ہر ایک موضوع کے پیچھے کسی خاص نکتے کو اجاگر کیا ہے۔اس ادبی حصے میں نیلم احمد بشیر صاحبہ، بانو قدسیہ کی راجہ گدھ فہمیدہ ریاض صاحبہ کی شاعری اور دیگر شعراکرام اور اہم ادیبوں سے ملاقاتیں ، تاثرات اور تبصرے شامل ہیں۔

ڈاکٹر خالد سہیل قاری پر علمیت کے جھنڈے نہیں گاڑتےبلکہ اہم مسائل کو سادہ زبان میں بیان کرتے ہیں۔ شاید قدرت نے ایک معالج ہونے کے ناتے ان کی تحریروں میں شفا کے رنگ گھول دئیے ہیں ۔تاثیر مسیحائی کی روشنیوں سے بھرے الفاظ پڑھنے والے کے فکر و نظر کو نیا رخ عطا کرتے ہیں۔ ان کی تحریر میں الجھے ذہنوں کی پریشانیوں کو دور کرنے کے حل ہیں۔ یہ مضامین اپنے قاری کو زندگی کے مختلف پہلوؤں کی طرف نئے انداز میں سوچنے کے مواقع عطا کرتے ہیں۔

بہت سے لوگوں کو ان کے زاویہ نگاہ سے اختلاف ممکن ہے کیونکہ آپ روحانیت کو مذہب کی بجائے انسانیت کا حصہ مانتے ہیں۔ جبکہ رومانوی معاملات میں دوستوں کے درمیان باہمی احترام اور محبت کے رشتے کو شادی کے تعلق پر فوقیت دیتے ہیں ۔ان کی باتوں میں ایک روایتی مذہبی فرد کے لئے پریشانی ہے مگر ان کے پیغامات میں سچائی ، جدت اور نیا پن ہے۔ انہوں نے مذہب کے زیر اثر ایسے افراد کا مشاہدہ کیا ہے جو ضمیر کے خوف سے احساس گناہ اور احساس جرم کی وجہ سے نفسیاتی بیماریوں میں مبتلا ہو جاتے ہیں۔ اور پیچیدہ معاشرتی ڈھانچے نے بہت سے انسانوں کو خودکشی’ پاگل پن اور ڈپریشن کے قریب لانے میں جو کردار ادا کیا ہے اس کا بھی ذکر کرتے ہیں۔

وہ کہتے ہیں ہمیں ایسا معاشرہ تعمیر کرنا ہے جہاں ہر انسان اپنا پورا سچ بیان کر سکے۔ اور لکھ سکے۔ ہم آج تک صرف ادھورے انسان کی ادھوری کہانی رقم کر پائے ہیں۔کیونکہ ہم ادھورا سچ لکھ پاتے ہیں۔ ہمیں پورے انسان کی پوری کہانی لکھنی ہے۔اور یہ کام ہر دور کے ادیبوں ’شاعروں اور دانشوروں کی سماجی ذمہ داری ہے تاکہ انسان روایت بغاوت اور دانائی کی منزلیں طے کر کے ارتقاء کا سفر طے کر سکے۔

مجھے خیال آتا ہے کہ اس خطے کے باسیوں پر سر سید احمد خان کی علمی کاوشوں کے احسانات ہیں ۔ جنہوں نے علی گڑھ اسکول کالج اور یونیورسٹی کا قیام ممکن بنایا اور مسلمانوں کو انگریزی زبان میں جدید علوم پڑھنے پر آمادہ کیا وہ اس دور کا مشکل ترین کام تھا۔اس وقت بھی روائتی لوگوں نے اس بات کو پسند نہیں کیا بعد ازاں آج تاریخ ان کے احسانات کی معترف ہے۔شاید ڈاکٹر خالد سہیل کی باتوں کی گہرائی تک پہنچنے کے لئے ابھی اہل مشرق کو کچھ وقت اور لگے لیکن ہم سب کے کالمز اور آدرش کی پذیرائی اس بات کا ثبوت ہےکہ ڈاکٹر خالد سہیل کے آدرش کی روشنی ہر سو پھیل رہی ہے۔

آدرش کی خوبصورت سطور

کہتے ہیں،

؎ ہر نسل نئی نسل کو دیتی رہی ہتھیار

اس شہر میں خالد یہ وراثت بھی عجب تھی

“اکیسویں صدی میں جہاں قبائلی سوچ رکھنے والے انسان موجود ہیں ، وہیں ایسے لوگ بھی ہیں جو جذباتی، سماجی اور تہذیبی طور پر ارتقا یافتہ ہیں اور انہوں نے انسان دوستی کے فلسفے کو اپنا لیا ہے ۔ ایسے لوگوں کی بنیادی شناخت ان کا انسان ہونا ہے۔”

Advertisements
julia rana solicitors

ڈاکٹر خالد سہیل کا یہ ادبی شہ پارہ “آدرش ” آدرش رکھنے والے ہر انسان دوست کی کتاب ہے۔

Facebook Comments


بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

براہ راست 2 تبصرے برائے تحریر ”ڈاکٹر خالد سہیل کے “آدرش “۔۔۔دعا عظیمی کے تاثرات

  1. دعا عظیمی! آپ نے بہت جاندار اور شاندار تبصرہ فرمایا ہے ۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ڈاکٹر خالد سہیل صاحب نے اپنی تحریروں کے ذریعے اپنے پڑھنے والوں میں سوچ کے نئے دریچے کھولے ہیں۔ وہ اپنی دوستانہ طرزتحریر سے قاری کے قلب تک رسائی حاصل کر لیتے ہیں۔۔۔اور پھر اسے خود اپنے آپ سے ملاقات پر مجبور کر دیتے ہیں۔۔۔ وہ واقعی ایک ہمدرد مسیحا ہیں۔
    آدرش کی صورت میں ان کی کاوش یقیناً پڑھنے سے تعلق رکھتی ہو گی۔۔۔ میں اسے پہلی فرصت میں پڑھنا چاہوں گی۔
    ڈاکٹر خالد سہیل صاحب کو اس کاوش کے لیے بہت مبارکباد

Comments are closed.