میں یونیورسٹی آف ہرٹفورڈشائر لاء سکول کے کلاس روم میں داخل ہوا، مختلف ملکوں سے تعلق رکھنے والے اٹھارہ بیس طالبعلم پہلے سے موجود تھے۔ اوریئنٹیشن ویک چل رہا تھا، پروگرام کوآرڈینیٹر سب سے تعارف لینے میں مصروف تھے۔ ملک ملک سے آئے ہوئے اجنبیوں میں ایک چہرے پر نظر پڑی تو اطمینان ہوا کہ صرف منہ ٹیڑھا کر کے انگریزی ہی نہیں بولنا پڑے گی، کوئی ہے جس سے اپنی زبان میں بھی بات کرنے کی سہولت ہو گی۔ تعارفی سیشن ختم ہوا تو علیک سلیک ہوئی، اس کا تعلق لاہور سے تھا اور پنجاب یونیورسٹی لاء کالج کا گریجویٹ تھا۔ پہلے دن کی سلام دعا گہری دوستی اور بھائی پنے میں خودبخود ہی تبدیل ہوتی گئی۔
چار تاریخ کو بدھ کی شام میں نے کال ملائی اور اسے بتایا کہ دس تاریخ کو لاہور ہائی کورٹ میں ہمارا کیس فکس ہے، کورٹ سے فارغ ہو کے ملاقات ہو گی۔ اس کا حال چال اور علاج کی صورت حال پوچھی اور دس تاریخ کو ملنے کا پروگرام طے کر کے فون بند کر دیا۔ اگلے دن صبح اسلام آباد ہائی کورٹ میں تھا کہ فون کی سکرین پر میسج نمودار ہوا “حافظ مبین نہیں رہے”، پیروں تلے سے زمین نکل گئی، ہر چیز گھومتی محسوس ہونے لگی۔ جن دوست کا میسج آیا انہیں فون کر کے پوچھاکہ آپ ہوش میں تو ہیں، ابھی میری شام کو اس سے بات ہوئی ہے، ہمیشہ کی طرح تروتازہ آواز ، یہ کیسے ممکن ہے لیکن قدرت کے سامنے کس کی چلی ہے جو اس کی یا ہماری چلتی۔ بڑی مشکل سے ڈرائیو کر کے گھر پہنچا۔
یادوں کاایک ہجوم تھا جو دماغ میں امڈتا ہی چلا آ رہا تھا۔ لندن سے لاہور، اور اسلام آباد سے کراچی تک کتنے ہی خوشگوار لمحے تھے جو ہم نے ساتھ گزارے تھے۔ ایک ایک لمحہ کسی فلم کی طرح دماغ میں چلنے لگا۔
وہ ایک بہت ہی محبت کرنے والا اور مخلص آدمی تھا۔ خیال ایسے رکھتا تھا جیسے کوئی بہت ہی اپنا بڑا اپنے سے چھوٹے کا رکھتا ہے۔ یونیورسٹی ہیٹفیلڈ میں تھی اور میں لوٹن میں رہتا تھا۔ اسے معلوم تھا کہ کہ ہیٹفیلڈ سے لوٹن پہنچنے میں مجھے ایک گھنٹہ لگتا ہے، پورے ایک گھنٹے بعد اس کا میسج آتا کہ بھائی خیریت سے پہنچ گئے ہو؟ کبھی ایسا نہیں ہوا کہ وہ میسج کر کے پوچھنا بھول گیا ہو۔ کام کے اوقات بھی اس کو معلوم تھے، کام سے واپس آتا تب بھی اس کا میسج آتا کہ بھائی کام سے واپس آ گئے؟
ذہین ایسا تھا کہ لندن ٹیوب (زیرزمین ریل) کا نقشہ بڑا ہی پیچیدہ ہے، اسے انگلیوں پر یاد تھا اور میں جب تک ایک جگہ چار پانچ بار نہ جاؤں تب تک راستہ یاد نہیں ہوتا۔ ہمارے دوست جنہیں اس نے شاہ جی کہنا شروع کیا تو وہ سب کے ہی شاہ جی ہو گئے، ایسٹ لندن رہتے تھے، ان سے ملنے کا پروگرام بنا۔ وہ پہلے ہی لندن جا چکا تھا، مجھے کہنے لگا کہ بھائی تم بس پہ آنا، ٹرین سے آئے تو نہیں پہنچ سکو گے۔ میں نے کہا میں پہنچ جاؤں گا تو کہنے لگا جیسے میں کہہ رہا ہوں ویسے کر لو۔ مجھے پورا سفر کا پلان بنا کر دیا کہ لوٹن سے فلاں بس میں بیٹھو گے وہ تمہیں وہاں اتارے گی، وہاں سے فلاں نمبر بس میں بیٹھو گے تو فلاں سٹاپ پہ اترو گے، وہاں سے اگلی فلاں بس میں بیٹھنا اور ایسٹ لندن کے فلاں سٹاپ پہ اترنا، آگے میں کھڑا ہوں گا۔ پورا رستہ بار بار پوچھتا رہا کہ میں کسی مسئلے سے تو دوچار نہیں ہو رہا۔ لندن ٹیوب سے گھومنے نکلے تو واقعی اندازہ ہوا کہ ٹرین سے تو مجھے سمجھ ہی نہ آتی کہ میں نے جانا کس طرف ہے اور اس کو ٹیوب سٹیشن اور پھر سٹیشنوں کے رستے ایسے یاد تھے جیسے وہ ساری زندگی لندن میں ہی رہا ہو۔ پاکستان آنے کے بعد لاہور جانا ہوا تو اس نے اپنی لوکیشن بھیجی، لوکیشن فالو کرتے ہوئے بھی میں بھٹک گیا اور گاڑی کسی اور سمت ڈال دی، مشکل سے جب اس تک پہنچا تو کہنے لگا کہ یار مینوں تے یاد ای نئیں سی کہ میں جنوں لوکیشن پیج ریاں او توں ایں (مجھے یاد ہی نہیں تھا کہ میں جسے لوکیشن بھیج رہا ہوں وہ تم ہو)۔۔
وہ اکیلا تنہا نہیں رہ سکتا تھا، اسے ہجوم میں رہنا پسند تھا۔ دوستوں کی محفل سجائے رکھتا اور خود محفل کا مرکزی کردار بن جاتا۔ اس کے چٹکلے اور اس کی مسکراہٹ ہر کسی کو اپنا گرویدہ بنا لیتی۔ کسی دوست کو کوئی مسئلہ یا پریشانی درپیش ہوتی تو اس کی بےچینی قابل دید ہوتی، جب تک کسی بھی طریقے سے اس دوست کی مشکل ختم کرنے کا چارہ نہ ہو جاتا اسے چین نہیں آتا تھا۔ مشکل میں ساتھ دینے کی بات تو اس کی ایسی مشہور تھی کہ دو انڈین لڑکیوں کی گفتگو مجھ تک پہنچی۔ ان کی گفتگو کاموضوع میں اور مبین تھے۔ ان میں سے ایک دوسری کو مشورہ دے رہی تھی کہ ہارون فیملی اوریئنٹڈ اور زیادہ سلجھا ہوا ہے جبکہ مبین میں یہ اضافی خصوصیت ہے کہ ٹھٹھرتی رات کے دو بجے بھی تمہیں کوئی مسئلہ ہوا تو مبین تن کر تمہارے ساتھ کھڑا ہو جائے گا۔
ایک دوست کے ساتھ زندگی میں بڑی ٹریجڈی ہوئی تھی، اس نے مجھ سے شیئر کی۔ میں نے آگے اسے اس شرط پر بتائی کہ تم اس دوست سے تذکرہ نہیں کرو گے کہ تمہیں اس حادثے کا علم ہے۔ وہ کہانی جب میں نے سنی تھی تو مجھے دکھ ہوا تھا لیکن جب میں نے وہ کہانی اس کو سنائی تو میں نے دیکھا کہ اس کی دونوں آنکھیں بھیگی ہوئی تھیں اور اس کے بعد غیر محسوس طریقے سے وہ اس دوست کا زیادہ خیال رکھنے لگا۔
یونیورسٹی میں مختلف ملکوں کے سٹوڈنٹس کے ساتھ ہمارا تعلق اور دوستیاں ہوئیں لیکن اپنی بذلہ سنجی اور جملے بازی کی بدولت وہ سب سے زیادہ پاپولر تھا۔ اسائنمنٹس اور کورس ورک جب ہم ڈسکس کر رہے ہوتے تو بھاری اور سنجیدہ گفتگو میں وہ کوئی ایسا جملہ پھینکتا کہ ہر کسی کے چہرے کی سنجیدگی ایک دم بشاشت میں بدل جاتی۔
معاملہ فہم اتنا تھا کہ کتنا ہی پیچیدہ مسئلہ ہو، چند لمحوں میں ایسا حل تجویز کرتا کہ مسئلہ مسئلہ ہی نہ لگتا، میں اس کی معاملہ فہمی پر حیران ہوا کرتا۔ مجھے وہاں رہنے کے دوران جب بھی کوئی مشکل درپیش ہوئی فورا دھیان مبین کی طرف جاتا اور اس سے بات کے بعد ایسا محسوس ہوتا جیسے مشکل پیش ہی نہیں آئی تھی۔ہم پانچ چھے پاکستانی دوستوں کا ایک گروپ تھا، کسی کا کسی بات پر کوئی جھگڑا ہو جاتا تو فوری صلح کار بن جاتا اور ماحول کی گرمی کو پل بھر میں ٹھنڈا کر دیتا۔ یہ خصوصیت ہم میں سے کسی اور میں نہیں تھی۔
پنجاب یونیورسٹی لاء کالج سے ایل ایل بی کرنے سے پہلے اس نے ڈاکٹر طاہرالقادری کی منہاج القرآن یونیورسٹی سے آٹھ سالہ مفتی کورس بھی کر رکھا تھا۔ ڈاکٹر طاہرالقادری ایک مسلک کے نمائندہ ہیں لیکن اس کے باوجود اس کی مذہبی گفتگو میں بڑی میانہ روی ہوتی۔ پیروں اور گدی نشینوں کا ہم مسلک ہونے کے باوجودان پر سخت تنقید کرتا اور مولانا طارق جمیل صاحب کا ہم مسلک نہ ہونے کے باوجود نہ صرف شوق سے انہیں سنتا بلکہ ان کی گفتگو کے حوالے بھی دیتا البتہ خود اس میں کوئی ایک بھی عادت مولویوں یا مفتیوں والی نہیں تھی بلکہ اس کی عادتیں اور شوق دیکھ کر ہم اسے ڈسکو مولوی کہا کرتے۔ اپنے والد کا جب بھی ذکر کرتا تو لفظ بزرگ کا استعمال کرتا ، اپنے والد کے ساتھ اس کا بالکل دوستی کا رشتہ تھا۔ ایک بار مجھے کہنے لگا کہ میں کمرے میں بیڈ پر کھڑا ایویں دو ایک سٹیپ کر رہا تھا کہ بزرگ کمرے میں آئے اور آواز دی “حافظ صاب” کہتا ہے میں نے آواز سنی اور ایک دم چھلانگ لگا کے دوسرے دروازے سے باہر نکل گیا۔
میری فیملی کا تعلق چونکہ جماعت اسلامی سے ہے تو ہم سیاسی نقطۂ نظر سے ایک دوسرے پر اکثر فقرےاچھالا کرتے اور کبھی کوئی سخت بات بھی اس حوالے سے منہ سے نکل جاتی لیکن نہ کبھی اس نے اور نہ میں نے کسی ایسی بات کا برا منایا بلکہ بات ہنسی میں اڑا دیتے۔ لندن سے آ کر اپنا لا آفس کھولنے سے پہلے کچھ عرصہ اسد منظور بٹ صاحب کے چیمبر سے پریکٹس کرتا رہا۔ بٹ صاحب کا تعلق جماعت اسلامی سے ہے، مجھے اکثر کہتا کہ میرا تو ہر جگہ جماعتیوں سے ہی واسطہ پڑ جاتا ہے، لا کالج میں بھی، پھر لندن میں تمہارے ساتھ، واپس آ کر بٹ صاحب کا چیمبر اور جب اپنا لا آفس کھولا تو پارٹنر پھر ایک جماعتی، کہتا تھا ایہہ جماعتیے مینوں نئیں چھڈدے (یہ جماعتیے مجھے نہیں چھوڑتے).
اللہ نے اسے بڑی صلاحیتیوں سے نوازا تھا۔ ہلکی پھلکی شعروشاعری بھی کرتا تھا، مجھے شعروں کی کوئی بہت پہچان تو نہیں ہے لیکن اس کے دو چار مصرعے مجھے تو بڑے ہی گہرے لگے۔ ایک دن میں اس کے ہاسٹل اس کے پاس بیٹھا تھا، وہ نجانے کس ترنگ میں تھا کہ اپنی ڈائری کھول کے کہنے لگا تمہیں کچھ سناتا ہوں۔ ڈائری کھولی اور اپنے عمرے کی روداد سنانے لگا۔ اچھی خاصی لمبی روداد تھی اور ایک ایک لفظ عشق اور محبت میں ڈوبا ہوا۔ میں بہتیرا پیچھے پڑا کہ اس سفرنامے کو کہیں شائع کروا دو لیکن نہیں مانا۔ میں اسے ہمیشہ کہتا کہ اللہ نے تمہیں لکھنے کی صلاحیت دی ہے تم لکھا کرو لیکن کبھی مان کر نہیں دیا۔ ایک دن کہنے لگا کہ منہاج کے دوست اکثر کہتے ہیں جمعہ پڑھاؤ لیکن میں کترا جاتا ہوں۔ جب زیادہ اصرار کرتے ہیں تو پھر پڑھاتا ہوں لیکن کھڑے ہو کے تقریر کرتا ہوں، منبر پر نہیں بیٹھتا۔ میں نے کہا ایسا کیوں؟ کہنے لگا مجھے حیا آتی ہے کہ منبر تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بیٹھنے کی جگہ تھی، میں اس پر کیسے بیٹھ جاؤں؟ ہائے ہائے کیسی محبت تھی اور کتنی عاجزی تھی۔۔
پچھلے سال اچانک شاہ جی کا مجھے فون آیا کہ مبین کی رپورٹس تمہیں بھیج رہا ہوں، بھابی کے ساتھ ڈسکس کرنا اور انہیں کہنا کہ شفا میں اپنے سینئر کنسلٹنٹس کے ساتھ بھی ڈسکس کریں۔ بلڈ پریشر شوٹ کر جانے پر اسے ہسپتال لے کر گئے تھے تو ڈاکٹرز نے کہا کہ گردے ناکارہ ہو گئے ہیں۔ میرے تو ہاتھ پیر پھول گئے، اس سے بات کی تو ایسے جیسے کچھ ہوا ہی نہیں، پریشانی کا دور دور تک شائبہ نہیں تھا، ہمیشہ کی طرح ہشاش بشاش اور تروتازہ آواز۔ میں نے رپورٹس اہلیہ کو دکھائیں تو دیکھتے ہی کہنے لگیں کہ انہیں تو فورا ً ٹرانسپلانٹ کی ضرورت ہے۔ سینئر کنسلٹنٹس نے بھی یہی مشورہ دیا، لاہور کے ڈاکٹرز بھی یہی مشورہ دے چکے تھے۔ ٹرانسپلانٹ کروانے سے قبل کچھ ٹیسٹ کلیئر نہ ہونے کی وجہ سے سرجری میں تاخیر ہوتی رہی، اس دوران ڈائیلسز چلتا رہا۔ پھر کرونا کی وجہ سے ہسپتالوں میں سرجریز ہی روک دی گئیں، لہذا ڈائیلسز ہی چلتا رہا۔ ڈائیلسز کا عمل بھی کم تکلیف دہ تو نہیں ہوتا، خوبرو صحتمند جوان انتہائی کمزور ہو گیا لیکن طبیعت کی شگفتگی اور آواز کی تازگی آخر تک برقرار رہی۔ آخری شام جب بات ہوئی تو کسے معلوم تھا کہ آخری دفعہ بات ہو رہی ہے۔ صبح طبیعت خراب ہوئی، ہسپتال لے کر گئے، فوری ٹریٹمنٹ سے طبیعت سنبھلنے پر گھر واپس لے آئے، تھوڑی دیر بعد روح پرواز کر گئی۔ ایسے خوبصورت جوان بھائیوں جیسے دوست کے ساتھ مرحوم لکھتے کلیجہ منہ کو آتا ہے۔ میں نے جنازہ بھی پڑھا، دفناتے وقت قبر کنارے بھی کھڑا رہا۔ کتنی ہی دیر تک قبر سرہانے کھڑے ہو کر روتے رہے اور دعائیں پڑھتے رہے۔ تین دن گزر گئے ہیں، دل اور ذہن ماننے کو تیار ہی نہیں ہیں کہ وہ چلا گیا ہے، دل اب بھی کہتا ہے کہ یہ جھوٹ ہے، کوئی خواب ہے۔ یقین ہی نہیں ہوتا، معلوم تھا کہ وہ ٹھیک نہیں ہے پھر بھی کبھی سوچا بھی نہیں تھا کہ وہ یوں اچانک چھوڑ جائے گا، بلکہ اچانک کیا کبھی یہ بھی نہیں سوچا تھا کہ وہ کبھی چھوڑ جائے گا۔ یہی سوچتے تھے کہ ٹرانسپلانٹ ہو گا اور بالکل ٹھیک ہو جائے گا۔
یقین تھا کہ کوئی سانحہ گزرنا ہے
گماں نہ تھا کہ تیرا ساتھ چھوٹ جائے گا
لاہور جانا ہوتا تھا تو ایک کشش یہ بھی ہوتی تھی کہ مبین سے ملاقات ہو گی، لاہور کی یہ کشش بھی جاتی رہی۔ اتنے بڑے جنازے میں کوئی ایک بھی شخص ایسا نہیں تھا جس کا یہ دعوی نہ ہو کہ جانے والا سب سے قریب اسی کے ساتھ تھا۔ جنازے میں ڈاکٹر طاہرالقادری کا خصوصی پیغام بھی سنایا گیا۔ جنازے کے بعد عموما لوگ چلے جاتے ہیں اور چند عزیز تدفین کے لیے رکتے ہیں لیکن یہاں عجیب معاملہ ہوا، لگتا تھا کہ پورے کا پورا مجمع ہی تدفین کے لیے بھی رک گیا ہے۔ جو تنہا رہنا پسند نہیں کرتا تھا، منوں مٹی تلے اکیلا جا سویا۔ ہمت اور حوصلہ نہیں پڑ رہا تھا کہ اس کا چہرہ دیکھوں، لیکن ساری زندگی دل میں کسک رہ جاتی، خدا جانے اس کا چہرہ دیکھنے کا حوصلہ کہاں سے لایا، محسوس ہو رہا تھا کہ لمبی مسافت طے کر کے مسافر سکون کی نیند سو گیاہے۔ وہ فارغ بیٹھنے والا تھا بھی کب، ایک بے چین روح تھی، موت نے اسے قرار دے دیا لیکن ہم سب کو بے قرار کر دیا۔ یقین تو ابھی بھی نہیں آتا، لیکن حقیقت تو یہی ہے کہ وہ اب نہیں رہا، دوسروں کے چہروں پر ہمہ وقت ہنسی بکھیرنے والا سب کو ہی اشکبار کر گیا۔ مجھے یقین ہے کہ جیسے وہ یہاں محفل سجائے رکھتا تھا، وہاں بھی پاک روحوں کی محفل سجا کر بیٹھ گیا ہو گا۔
ہمارے کورس میٹس میرے اور اس کے تعلق سے آگاہ تھے، میں نے کہاں کہاں سے اس کی تعزیت وصول نہیں کی۔ لندن، جکارتہ، دہلی، بیجنگ، ڈھاکہ، مسقط، ویتنام اور کردستان ہر جگہ پھیلے ہوئے دوستوں نے کال کی، میں تو ان کو کچھ بول نہیں پایا، آنسوؤں اور سسکیوں میں میں کیا بولتا لیکن ہر ایک کا یہ جملہ ضرور کانوں کو یاد رہ گیا کہ یہ ناقابل یقین ہے لیکن ناقابل یقین پر یقین ہی تو خدا پر ایمان ہے۔ یادوں کا ایک انبار ہے جو امڈا چلا آ رہا ہے، اس کے ساتھ گزرا ایک ایک لمحہ، اس کی باتیں اور اس کے جملے کچھ بھی تو بھولنے والا نہیں۔ اس کی مسکراہٹ بھی بڑی دلکش تھی، اب کہاں دیکھنے کو ملے گی۔۔۔
وائے نادانی کہ وقت مرگ یہ ثابت ہوا
خواب تھا جو کچھ کہ دیکھا، جو سنا افسانہ تھا
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں