• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • غنی خان: عظیم پشتون شاعر ،مبارز اورفیلسوف(دوسرا،آخری حصّہ)۔۔۔مشتاق علی شان

غنی خان: عظیم پشتون شاعر ،مبارز اورفیلسوف(دوسرا،آخری حصّہ)۔۔۔مشتاق علی شان

غنی خان جب مائل بہ رجائیت ہوتے ہیں تو یوں گویا ہوتے ہیں۔
موت صد شوق سے چلی آئے
اس کے جب بس میں ہو چلی آئے
گل بدست ہی ا سے ملوں گا میں
یا فرس پر سوار ہوں گا میں
جب بھی چاہوں اک جہانِ رنگ بسا لیتا ہوں میں
راکھ سے ہی پھول اور مستی بنا لیتا ہوں میں
سرخ اشکوں سے بناتا ہوں لبانِ سرخ میں
ساز وسُر میں ڈھالتا ہوں ماتم وگریے کو میں
یا پھر
جتنا بلند پہا ڑ ہو
اس کی چوٹی پر میاں
راستہ ضرور ہے
خوف ایک بھوت ہے
اور امید ہے ضیا
رنج و ا لم ہوں جتنے
مت بھول مسکرانا
لیکن اسی غنی خان پر جب قنوطیت طاری ہوتی ہے تو پھر دیدرو ، والٹیر اور ہولباخ کہیں دور رہ جاتے ہیں ۔ اب وہ آرتھر شوپنہار کے ہمنوا ہیں۔ اب انھیں درونِ آدم افسردگی کا قبرستاں دکھائی دیتا ہے اور دور کہیں آسمان میں نظر آنے والی روشنی کی لکیر کی رہگزر میں بھی غم کے کوہ اور درے نظر آتے ہیں۔ اب وہ یوں گویا ہوتے ہیں ۔
زندگی کا من رنجن ناز و مستی جاناں کی
ساز ہیں جوانی کے اور اسی میں پوشیدہ
غم کا ایک ہنگامہ
ہے بظاہر سرخ پھولوں نے مجھے گھیرا ہوا
ورنہ تنہا ہوں غموں نے ہے مجھے گھیرا ہوا
یا پھر
اے بادِ صبا تو نہیں جانتی کچھ
تجھے کیا خبر ہے تجھے کیا پتا ہے
کیے ہم نے عالَم ہیں برباد کتنے
زبوں کر چکے ہم جہاں کیسے کیسے
قنوطیت کی آخری سرحدپر کھڑے غنی خان کا انداز کچھ یوں ہوتا ہے ۔
سرخ کلیوں کی مسکراہٹ میں
سسکیاں ہیں خزاؤں کی پنہاں
البتہ غنی خان اس قنوطیت کے عالم میں بھی شیخ جی پر چوٹ کیے بغیر نہیں رہتے ۔
یہ جنوں آمادگی ہے خود سے بیزاری مری
شیخ جی نے چھیڑ رکھے ہیں عذابی مسئلے
غنی خان کی شاعری میں رجائیت اور قنوطیت پہلو بہ پہلو چلتی نظر آئے گی ۔عمومی طور پر پشتون غنی خان کو ایک انقلابی شاعر کے طور پر پیش کرتے ہیں ۔ ان کے مشہور ترانے
اے مرے وطن میرے لعل وگہر کے نشاں
تیرے ہر دَرے میں ہیں میری تیغ کے نشاں
کو تو گویا پشتونوں نے اپنے قومی ترانے کا درجہ دے رکھا ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ وہ معروف معنوں میں انقلابی شاعر ہر گز نہیں ہیں ۔وہ محنت کش عوام کی طبقاتی جدوجہد کے حوالے سے خاموش نظر آتے ہیں ۔ ان کی شاعری کے عروج کا دور بین الاقوامی طور پر بڑی تبدیلیوں کا ایک انقلابی دور تھا ۔انقلابِ روس کے بعد” گراں خواب چینی“ سنبھل چکے تھے ،کوریا سے لے کر ویت نام اور کیوبا سے لے کرالجزائر، روڈیشیا ، جنوبی افریقہ ، انگولا ، موزمبیق اور گنی بساؤاور جنوبی یمن سے لے کر ایران و افغانستان تک میں ایک معرکہ برپا تھا لیکن غنی خان ان سب سے بے نیاز رہے ۔ حیرت کی بات تو یہ ہے کہ جب 27اپریل1978کو جب افغانستان کے صبح پرستوں نے خلق پارٹی کی قیادت میں ظاہر شاہوں کی باقیات اور داؤد خانوں کو تاریخ کے کوڑے دان میں اچھال پھینکا توغنی خان نے تب بھی کسی ردِ عمل کا مظاہرہ نہیں کیا ۔غنی خان کی دھن تب بھی کسی نے نہیں سنی جب افغانستان کا انقلابِ ثور کامریڈ نور محمد ترہ کئی کی شہادت کے بعد کامریڈ ببرک کارمل اور کامریڈ ڈاکٹر نجیب اللہ کی قیادت میں ایمان فروش ملاؤں ، وطن فروش خائنوں اور بیرونی تجاوز کاروں کے خلاف ایک سرفروشانہ جدوجہد میں مصروف تھا ۔غنی خان نے نہ تو اس انقلاب کے نغمے لکھے نہ ہی اس کے نوحے لکھے جس سے نہ صرف پشتونوں بلکہ مظلوم بلوچوں اور مظلوم سندھیوں تک کی تقدیر وابستہ تھی ۔جس انقلاب کی کامیابی نہ صرف افغانستان بلکہ اس پورے خطے کی تقدیر تبدیل کر کے رکھ دیتی ۔ لیکن غنی خان جو محض ایک شاعر تھے ان سے کیا
شکوہ کہ یہاں تو بڑے بڑے جغادری قوم پرستوں کومرکز ومحور سے لے کر نعرے اور جھنڈے بدلتے دیکھا گیا ہے جو برسوں کابل میں انقلابی حکومت کی مہمان نوازی سے لطف اندوز ہوتے رہے ۔ جنھیں معمولی نزلہ زکام بھی ہوتا تو ماسکو سے لے کر پراگ اور وارسا تک اسپتالوں کے در وا ہو جاتے ۔ وہ جو پختونستا ن کے شاعر ملنگ جان کے کابل میں بیٹھ کر پختونستان کا دن مناتے رہے ، ریڈیو اور ٹیلی ویژن سے لے کر چوک اور چوراہوں تک پر کھڑے ہو کر شعلہ بار تقرریں کرتے رہے اور کامریڈ نجیب اللہ کو اپنا بھتیجا قرار دیتے رہے لیکن پھر انھیں ہی دشمنوں کے نرغے میں چھوڑ کر واپس آ گئے ۔ اب ان کے ہاتھوں میں پختونستان کی بجائے پاکستان کا پرچم تھا اور لب پر” انقلاب زندہ باد“ کی بجائے ” پاکستان زندہ باد“ کے نعرے تھے ۔
مظلوم قوموں کا ایک ”نمائندہ “ جب کراچی ائیر پورٹ پر اترا تو اس کے الفاظ تھے ” کابل اب رہنے کی جگہ نہیں ہے۔“ لیکن کوئی اس سے یہ تو پوچھتا کہ کابل اب بھلے رہنے کی جگہ نہ ہو ،آپ سلامت آ گئے ناں۔ پیچھے کامریڈ نجیب اللہ اور دیگر کامریڈوں کے کیا حال ہیں جو کابل سے فرار کو انقلاب اور انقلابی آدرشو ں کی توہین سمجھتے ہیں ؟ اور یہ بھی بتائیں کہ انقلابِ ثور کو تو امریکی سامراج ، اس کے پالتو ”صالحین“ سے لے کر پاکستان،چین وعرب و اشرار پڑوسیوں تک نے سولی چڑھایا لیکن پختونستان اور بلوچستان کے خوابوں کو کس نے شہید کیا ؟؟؟۔
ؓبہر کیف بات کہیں اور چلی گئی ہم غنی خان کی شاعری کی طرف آتے ہیں کہ انھوں نے انقلابِ ثور کی آمد ورخصتی پر تو کچھ نہیں کہا البتہ بامیان کے عالمی تاریخی ورثے پر ان کی ایک خوبصورت نظم ”بامیان“ کے عنوان سے ضرور موجود ہے ۔ بدھا کہ یہ دو بلند قامت مجسمے پہاڑوں کو تراش کر بنائے گئے تھے اور یہ گندھارا آرٹ کے شاندار نمونے تھے ۔ ان مجسمو ں کو مارچ2001میں ظلمات پرست طالبان نے دنیا بھر کے احتجاج کے باوجود بارود سے اڑا دیا تھا ۔البتہ غنی خان اس تباہی کو دیکھنے سے پانچ سال قبل ہی راہی ملک عدم ہو چکے تھے۔
بات خان غنی خان کی شاعری کی ہو رہی ہے تو یہ ذکر بھی ضروری ہے کہ انھوں نے آزاد نظمیں بھی کہیں اور نثری بھی لیکن اپنی پابند نظموں میں وہ بسا اوقات شعری قواعد وضوابط اور علم عروض سے روگردانی کرتے نظر آتے ہیں ۔غنی خان کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ شاعری میں ان کا کوئی استاد نہیں تھا انھوں نے اپنے ذوق کو ہی خضر جانا اور اس کی رہنمائی میں اپنا ادبی سفر طے کیا.
غنی خان اور مُلّا:
غنی خان کی ملا اور ملائیت سے دشمنی گویا ازلی ہے ۔ انھیں جب بھی موقع ” ملا جان“ اور ” ملا بابا“ پر زبردست چوٹ کی ۔مزے کی بات یہ ہے کہ غنی خان کہ وہ نظمیں انتہائی مقبول ہوئیں جن میں ملا اور ملائیت کو ہدف بنایا گیا اور ”حقائقِ ثابتہ“کا مذاق اڑیا اور ان پرعقلی سوالات اٹھائے۔غنی خان کو ” ملا جان“ اور اس کے کرتوتوں سے اللہ واسطے کا بیر یوں ہی نہیں ہو گیا بلکہ اس دشمنی کی تاریخی جڑیں ہیں ۔دراصل غنی خان نے جس ماحول میں آنکھ کھولی تھی اس میں ایک طرف انگریزوں کا جبر تھا تو دوسری طرف ملا حضرات تھے جو انگریزوں کے کفش بردار بنے ہوئے تھے ۔ ہر نئی چیز بالخصوص تعلیم کے دشمن ۔باچا خان کے الفاظ میں ” ہمارے وطن میں نام نہاد مولانے ” حضرت “ اور ”بزرگ “ انگریزوں کے ہاتھ میں کٹھ پتلی بن کر رہ گئے تھے اور لوگوں کو تعلیم حاصل کرنے سے بدستور منع کرتے رہتے تھے۔ انگریزوں نے ان کے دماغ میں یہ بات بٹھا رکھی تھی کہ پٹھان تعلیم حاصل کر لے گا اور اس میں سوجھ بوجھ پیدا ہو جائے گی تو تمھاری چلی چلائی دوکان ٹھنڈی پڑ جائے گی اور پھر تمھیں خیرات اور شکرانے ونذرانے دینا بند کر دیں گے ۔ میں ان ملاؤں کو بہت
سمجھاتا تھا مگر یہ کب سمجھتے تھے۔۔۔۔انھیں جب خدا نہیں سمجھا سکا تو میں کیا سمجھاتا ۔“ انگریزوں کی ایما پر پشتونوں کو جدید تعلیم سے روکنے کے لیے ملاؤں نے پروپیگنڈے کا ایک طوفان گرم کر رکھا تھا ۔ اس حوالے سے ایک شعر کی خوب تشہیر کی گئی تھی ۔
سبق چی د مدرسے وائی ، پارہ د پیسے وائی
جنت کی بہ ہی زے نہ وی دوزخ کی بہ گھسے وائی
ترجمہ ۔ ” جو مدرسے یعنی اسکول کی تعلیم حاصل کرتے ہیں وہ یہ پیسوں کے لیے کرتے ہیں ۔ جنت میں ان کی کوئی جگہ نہیں ہوگی بلکہ یہ دوزخ میں دھکے کھائیں گے ۔“
یہ شعر بچپن میں غنی خان نے بھی بارہا سنا ہو گا لیکن سامراج کے مرغِ دست آموز رجعتی ملاؤں کو اندازہ نہیں تھا کہ یہ ایک شعر انھیں کتنا مہنگا پڑے گا ۔ ” ملا بابا“ سے نفرت کی محض ایک یہی وجہ نہیں ہے بلکہ دوسرا اہم واقعہ غنی خان کے لڑکپن کے زمانے کا ہے ۔ جب وہ جامعہ ملیہ دہلی کے طالب علم تھے تو اسی زمانے میں افغانستان کے عظیم سامراج مخالف اور ترقی پسند حکمران امان اللہ خان کے خلاف انگریزوں نے نام نہاد مذہبی رہنماؤں کے ذریعے شورش برپا کر دی ۔ تب باچا خان نے امان اللہ خان کی مدد کے لیے غنی خان کو ایک طبی وفد کے ہمراہ افغانستان روانہ کرنے کا فیصلہ کیا لیکن انگریزوں کی مخالفت اور مداخلت کے باعث اس پر عمل درآمد نہیں ہوسکا ۔انگریزوں کی مدد سے بچہ سقہ نامی ایک ڈاکو افغانستان پر قابض ہو گیا جس میں اسے ملاؤں کی دامے، درمے ، سخنے مدد حاصل تھی ۔امان اللہ خان جنھیں” صالحین“ نے کافر قرار دیا تھا یورپ چلے گئے ۔ امان اللہ خان کا جرم یہ تھا کہ وہ
سامرج مخالف تھے اور سوویت یونین ، کامریڈ لینن اور پھر کامریڈ اسٹالین سے ان کے پرجوش تعلقات تھے ۔انھوں نے سوویت یونین سے دوستی اور باہمی تعاون کا معاہدہ بھی کیا تھا ۔ انھوں نے افغانستان کو ایک جدید ملک بنانے کے لیے ترقی کے راستے پر گامزن کیا تھااور ملا اور ملائیت کو تعمیر وترقی کا دشمن سمجھتے تھے ۔وہ نہ صرف عورت کی آزادی کے علم بردار تھے بلکہ انھوں نے اس کے لیے عملی اقدامات بھی کیے تھے ۔ سو ملا اور ملائیت سے نفرت ہمیشہ کے لیے غنی خان کے شعور کا حصہ بن گئی ۔
انہی وطن فروش اخونزادوں اور نام نہاد ” حضرات“ کی آل اولاد تھی جو بعد میں ظاہر شاہ اور داؤد خان کے مظالم کے جواز میں مذہب کی سند پیش کرتی تھی ۔جنھوں نے افغانستان کے ثور انقلاب کو خون میں نہلایا اور اس کے ایک بہادر سپوت کامریڈ ڈاکٹر نجیب اللہ کو تختہء دار پر لٹکایا ، ہزاروں معصوم انسانوں کے گلے کاٹے اور اب بھی کہیں اپنے سابقہ آقاؤں کے خلاف تو کہیں ان کی تائید وایماءپر یہ عمل جاری رکھے ہوئے ہیں ۔ اس لیے ” ملا جان“ اور غنی خان کی کبھی نہیں بن سکی اور یہی غنی خان کا سب سے طاقتور پہلو ہے جس کے باعث آج تک ان کی شاعری RELEVANTہے اور جہل کی قوتوں کے خلاف نبرد آزما ہونے والوں کا موثر ہتھیار ہے۔
پشتون سماج پر مذہبی انتہا پسندی کی جو یلغارچار دہائی قبل عالمی سامراج اور اس کے مقامی شامل باجوں کی طرف سے شروع کی گئی تھی اس نے ڈیورنڈ لائن کے دونوں طرف انھیں کہیں کا نہیں چھوڑا۔ اس یلغارکے ذریعے ایک طرف تو افغانستان کے سوشلسٹ انقلاب کو خاک وخون میں ملا کر فتح کے شادیانے گئے تو دوسری جانب حریت پسند، ترقی پسند اور ایک انسان دوست سماج کو ایسی پستی میں دھکیل دیا گیا جس کا پہلے تصور بھی نہیں کیا جاسکتا تھا ۔جو کام یہاں برسوں قابض برطانوی سامراج اپنے تمام تر وسائل اور جبرکے باوجود نہیں کرسکا اسے سات سمندر پار بیٹھے ہوئے امریکی استعمار نے اپنے مقامی ہمنواؤں اور ہمکاروں کی مدد سے ممکن کر دکھایا کہ وقت کے پنڈولم کا جھکاؤ واضح طور پر ان کی طرف تھا ۔
آج غنی خان کے پشتونوں کو عمومی طور پر بنیاد پرست اور رجعتی سمجھا جاتاہے۔طالبان، مسلح جنونی لشکر، خودکش بمباراور اس طرح کی ان گنت اصطلاحات ان سے مخصوص کر دی گئی ہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ یہ غنی خان کے لوگ ہی تھے جنھوں نے برصغیر کی آزادی کی جنگ وطن پرست اور سیکولر قوتوں کے شانہ بشانہ لڑی ۔انھوں نے مذہب کی بنیاد پر ہمیشہ سیاست کو رد کیا اور عدم تشدد پر یقین رکھنے کے باوجود بندوقیں اٹھا کر پختونخوا میں بسنے والے اپنے ہندو اور سکھ بھائیوں کی حفاظت کی ۔ جنھوں نے راوی کے کنارے ہونے والے قتل عام اور امرتسر میں انسانیت کی ہونے والی تذلیل کو اپنے وطن میں نہیں دہرانے دیا ۔اور پھر یہ غنی خان کے لوگ ہی تو تھے جنھوں نے 27اپریل 1978کو اپنے بے نظیر طریقے اور حکمتِ عملی سے کابل کے قصرِ صدارت پر سرخ پھریرا لہراتے ہوئے سوشلسٹ انقلاب برپا کیا تھا ۔ یہ کام تو ہندوستان اور ایران کے انقلابی بھی بے پناہ قربانیوں کے باوجودنہیں کر سکے تھے ۔
سو غنی خان کے پشتونوں کا یہ مقصوم نہیں ہے ۔وہ حریت پسندی، وطن پرستی ،بشر دوستی اور اعلیٰ انقلابی روایات کے امین رہے ہیں ۔یہ ان کا تاریخی ورثہ ہے جسے ان سے کوئی بھی ہمیشہ کے لیے نہیں چھین سکتا ۔پشتونوں نے چار دہائیوں میں ایک دنیا اجڑتے دیکھی ہے ،انھوں نے لاکھوں ٹن بارود کی آگ دیکھی ہے ، اپنے بچوں کی کٹی پھٹی لاشیں دیکھی ہیں اور بکھرے ہوئے اعضا سمیٹے ہیں۔ عیار دشمنوں نے اپنی جنگ ان کے شانوں پر مذہب کے نام پر پھینکی ہے اور اس کے سارے ثمرات خود سمیٹے ہیں ۔ملا اور ملائیت نے امریکی ڈالر، تیل کی دولت اور خیرات میں ملے ہوئے اسلحے کے ذریعے جنگ پرستی کے اس جنون کو پشتون سماج میں خوب پھیلایا ہے۔لیکن اب وقت کے پنڈولم کا جھکاؤ ان کے دشمنوں کی طرف نہیں ہے۔ وہ جو افیم لائے تھے اب اس کا جادو سر چڑھ کر نہیں بولتا ،اس افیم کا سحر ٹوٹ رہا ہے ،غنی خان کے لوگ بیدار ہو رہے ہیں اور اس بیداری میں غنی خان آج بھی اپنا حصہ ڈال رہے ہیں ۔یہی غنی خان کی عظمت ہے۔
غنی خان کا فلسفہ :
کچھ عرصہ قبل کراچی میں پختونخواکے ایک بائیں باز و کے معروف رہنما سے ملاقات ہوئی ۔باتوں باتوں میں غنی خان کی شاعری اور اس کے اردو ترجمے کا ذکر ہوا تو انھوں نے غنی خان کی شاعری کو ”مارکسزم “ قرار دیا۔اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ غنی خان کے فکرو فلسفے کے حوالے سے کتنے فکری مغالطے موجود ہیں ۔ غنی خان پشتو زبان کے غالباََپہلے شاعر ہیں جنھوں نے فلسفیانہ موضوعات کا اپنی شاعری میں اظہار کیا ہے۔ ان کی اکثر نظمیں فلسفیانہ رنگ لیے ہوئے ہیں اور ان میں ایک طرح کا فلسفیانہ ابہام بھی پایا جاتا ہے ۔لیکن ان کا یہ فلسفیانہ رنگ نہ تو مارکسزم ہے اور نہ ہی اس سے قریب کی کوئی شے۔جیسا کہ ہم پہلے بھی کہہ چکے ہیں کہ غنی خان کہیں بھی طبقاتی جبر اور ناانصافیوں کے خلاف آواز بلند نہیں کرتے ۔ عمیق فلسفیانہ تفکر کے باوجود غنی خان ایک مادیت پسند فلسفی نہیں ہیں ۔انھوں نے مشرق ومغرب کے فلسفہ قدیم وجدید کا بخوبی مطالعہ کر رکھا تھا لیکن ان کا واضح رحجان ہمیں فلسفے کی مابعد الطبعیاتی روایات کی جانب نظر آتا ہے جو تصوفانہ رنگ لیے ہوئے ہے ۔ ان کی نظمیں ” کیمیاگر“ ،” جب کچھ نہیں تھا کیا تھا ؟“ ،” منصور“، ”زندگی“اور ”توبہ“ وغیرہ اس کی بہترین مثالیں ہیں۔
اگرچہ بعض جگہوں پر غنی خان کے کلام میں جدلیاتی رنگ بھی نظر آتا ہے ۔ وہ اپنی ایک نظم ”میں کشاں کشاں رواں ہوں “ میں کہتے ہیں کہ
کل تخم، آج گل ہوں ، کل مشت ِ خاک پھر سے
میں موج ہوں صبا کی، جھونکا ہوں اک ہوا کا
کبھی باغ سے گزرتا ، صحرا سے ہوں گزرتا
کبھی برق باد وباراں ، کبھی آگ میں فروزاں
لیکن رواں دواں ہوں میں پیش رفت کرتا
ٹھہرا اگر کہیں تو معدوم ہو نہ جاؤں ، تحلیل ہو نہ جاؤں.
غنی خان کا تخصص یہ ہے کہ وہ مابعدالطبیعات کی انسان دوست روایات کے نمائندے ہیں اور مابعد الطبیعات کے انسان کش نظریات پر پوری قوت سے حملہ آور ہوتے ہیں ۔ مابعد الطبیعات جو بالادست طبقات کا ایک آزمودہ ہتھیار رہا ہے اور اسے ہمیشہ قبولیت ِ عام کی سند بھی ملی کیوں کہ اس کی پشت پر طبقاتی ریاستوں کی قوت تھی اورآج بھی سامراجی واستحصالی قوتیں لوگوں کے شعور کی سطح کو کند کرنے اوراپنے مفادات کے حصول کے لیے اسے استعمال کرتی ہیں۔مابعد الطبعیات کا مقابلہ ہمیشہ مادیت پسندی نے کیا ہے ۔ البتہ انسانی تاریخ اس امر کی گواہ ہے کہ اس رجعتی اور انسان دشمن مابعد الطبیعات کو اسی کے ترقی پسند اور انسان دوست رحجان نے بھی جواب دیا ہے اور مقدور بھر اس کا مقابلہ بھی کیا ہے ۔ ہند میں بدھا کی شکل میں ، ایران میں مزدک ، بابک خرمی اورمانی شکل میں ، سندھ میں صوفی شاہ عنایت شہید کی شکل میں، افریقہ میں مہدی سوڈانی کی شکل میں تو جنوبی امریکا میں ” لبریشن تھیالوجی“ کی شکل میں ۔غنی خان جنت اور دوزخ کے افسانوں پر ، جزو سزا کے فلسفوں پر اور تقدیر وقسمت سے لے کر گناہ وثواب کے مہمل فلسفوں تک پر سوالات اٹھاتے ہیں اور یوں عوام کے ساتھ کھڑے نظر آتے ہیں۔
غنی خان ابھی زندہ رہیں گے
غنی خان کا شمار ان شاعروں میں ہوتا ہے جن کی عظمت ان کی زندگی میں ہی تسلیم کر لی گئی اور عوام کی اکثریت نے انھیں اس مقام پر متمکن کیا جن کے وہ بجا طور پر حقدار تھے ۔غنی خان نے اپنے پہلے شعری مجموعے ” د پنجرے چغار“ کے آخر میں لکھا تھا کہ ”کتاب کا پہلا شعر میں نے سمندری جہاز ”نلڈیرا “ میں بیٹھ کر بحرِ ہند عبور کرتے وقت کہا تھا اور آخری شعر ہری پور جیل کی ایک چکی میں ۔ اس دوران مجھ پر مستی ، خوشی، غم ، ارمان و حسرت ، امید ، خوف ہنسی اور رونے کی مختلف کیفیتیں گزریں جو اس کتاب کے صفحات پر میں نے منتقل کیں ۔ مگر افسوس کہ میری زبان میں میرے دل جتنی طاقت اور ہمت نہیں ۔یہ بیان احساس کی نسبت کمزور ہے مگر جو کچھ بھی ہے حاضر ہے ۔میں نے کچھ بھی چھپانے کی کوشش نہیں کہ بلکہ ہر کیفیت کو طشت ازبام لانے کی حتی المقدور کوشش کی ہے۔ یہ میری ذاتی تصویر ہے جو کسی حد تک نامکمل اور ٹوٹی پھوٹی ہے مگر اس کے باجود میں اپنے کھلے ضمیر کے ساتھ کہہ سکتا ہوں
کہ جو کچھ بھی ہے وہ میرا ہے ۔ بلا کسی غرض اور لالچ کے میرا پنا تحفہ ہے جو میں اپنی قوم کی خدمت میں پیش کرتا ہوں ۔کاش کہ میں اس میں زبان ، دلفریبی اور فہم وکمال کے دریا بہا سکتا ،مگر کیا کروں مجھ سے اتنا ہی ہوسکا ۔ انسان اپنی اوقات سے بڑھ کر کچھ بھی نہیں کر سکتا ۔ اس میں جس قدر بھی حسن پایا جاتا ہے یہ اگر میری موت کے بعد بھی زندہ رہا تو میں سمجھوں گا کہ میں نے واقعی آبِ حیات پالیا ہے اور اب یہ مجھے زندہ رکھے گا ۔
غنی خان کی شاعری مخصوص مادی حالات کی پیداور ہے جو ابھی باقی ہیں بلکہ یہ مزید ابتر ہوئے ہیں اس لیے غنی خان ابھی زندہ رہیں گے ان کی شاعری ابھی دیر تکRelevant رہے گی ۔ جب نئے مادی حالات میں نئے غنی خان جنم لیں گے تب بھی ان کا نام اور کام یاد رکھا جائے گا۔ تاریخ کے لیے غنی کو فراموش کر دینا کوئی اتنا آسان نہیں ہوگا ،کیوں کہ غنی خان کے لوگ زندہ رہیں گے ۔ وہ لوگ جن کے لیے غنی خان نے کہا تھا کہ ”میں اپنے لوگوں کو پڑھا لکھا اور روشن خیال دیکھنا چاہتا ہوں ۔ایسے لوگ جو انصاف کرنا جانتے ہوں اور اپنے لیے قدرت کے اصولوں کے عین مطابق روشن مستقبل تلاش کر سکیں۔“

Facebook Comments

مشتاق علی شان
کامریڈ مشتاق علی شان مارکس کی ان تعلیمات کو بھولے نہیں جو آج بھی پسماندہ طبقات کیلیے باعث نجات ہیں۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply