کینسر (20) ۔ جادو کی گولی/وہاراامباکر

ایہرلچ کی لیبارٹری ڈائی بنانے والی فیکٹریوں کے علاقے کے قریب تھی۔ ان کے پاس ہزاروں کمپاونڈ تھے جن کا وہ جانوروں پر ٹیسٹ کر سکتے تھے۔

Advertisements
julia rana solicitors

انہوں نے آغاز جراثیم کش کیمیکل کی تلاش سے کیا۔ انہوں نے چوہوں اور خرگوشوں کو سونے کی بیماری کے جراثیم سے بیمار کیا۔ اور پھر ان کیمیکلز کے انجکیشن لگا کر دیکھا کہ آیا یہ انفیکشن کو روک سکتے ہیں یا نہیں۔ چند سو کیمیکلز کے بعد انہیں پہلی کامیابی ہوئی۔ یہ کیمیکل چمکدار سرخ رنگ کی ڈائی ٹرائپین ریڈ تھی۔
اپنی کامیابی سے حوصلہ پکڑ کے ایہرلچ نے کیمیائی تجربوں کی بوچھاڑ کر دی۔ ان کے سامنے بائیولوجیکل کیمسٹری کی کائنات تھی جو اپنی عجب اصولوں پر چلتی تھی۔ کچھ کمپاونڈ ڈرگ کو متحرک کر دیتے تھے، کچھ اس کو روک دیتے تھے۔ کچھ پیشاب کے ساتھ نکل جاتے تھے۔ کچھ جسم میں جمع ہو جاتے تھے۔ کچھ خون میں جا کر ٹوٹ جاتے تھے۔ ایک مالیکول جانور میں کئی دن رہ لیتا تھا۔ اس کا بہت قریب کیمیائی کزن چند منٹ میں غائب ہو جاتا تھا۔
اور پھر 19 اپریل 1910 کو انٹرنل میڈیسن کانگریس میں ایہلرچ نے اعلان کیا کہ انہوں نے مخصوص مالیکیول ڈھونڈ لیا ہے جو ایک بدنام جرثومے کے خلاف ایکٹو ہوتا ہے۔ یہ نئی دوا کمپاونڈ 606 تھی جو آتشک کے جراثیم کو ختم کر دیتی تھی جس نے اٹھارہویں صدی کے یورپ میں تباہی مچائی ہوئی تھی۔ اس کو سینٹ پیٹرزبرگ کے ہسپتال میں کامیابی سے ٹیسٹ کیا گیا تھا۔ اور اس کو کمرشل بنانے کی بڑی فیکٹری ہوئسٹ کیمیکل ورکس نے لگا لی۔ اس کیمیکل کا نام سالورسان رکھا گیا۔
ایہرلچ کی کامیابی نے ثابت کیا کہ بیماریاں پیتھالوجیکل تالے ہیں جن کو ٹھیک مالیکیول سے کھولا جا سکتا ہے۔ اور اس نے ممکنہ علاجوں کی دنیا کا تالا بھی کھول دیا تھا۔ ایہلرچ اپنی ادویات کو “جادو کی گولیاں” کہتے تھے۔ گولی اس لئے کہ یہ بیماری کو قتل کرتی تھی اور جادو کی اس لئے کہ یہ صرف اسے ہی قتل کرتی تھی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ایہرلچ کی جادو کی گولیاں مائیکروبیل بیماریوں پر کام کرتی تھیں لیکن خراب انسانی خلیہ؟ کیا یہ کینسر پر کارآمد ہو سکتی تھی؟ اس پر انہوں نے 1904 سے 1908 کے درمیان طرح طرح کے تجربات کئے۔ کسی نے کام نہیں کیا۔ جو زہر کینسر کے خلیے کو مارتا تھا، وہ عام انسانی خلیے کو بھی مار دیتا تھا۔ ان کا جادو کینسر پر نہیں چل سکا۔
اپنی دریافتوں پر ایہرلچ کو نوبل انعام 1908 میں ملا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ایہرلچ کو 1915 میں تپدق نے آن لیا۔ یہ ہومبرگ میں داخل تھے اور اپنے کمرے کی کھڑکی سے اپنے ملک کو پہلی جنگِ عظیم میں داخل ہوتا دیکھ رہے تھے۔ بائیر اور ہوئسٹ، دونوں کمپنیاں جو علاج کے لئے کیمیکل بناتی تھیں، اب مختلف مشن پر تھیں۔ ان کو مارنے والے کیمیکلز کی پیداوار پر لگا دیا گیا تھا۔ اور ایک بہت موثر زہریلی گیس دریافت ہو گئی تھی۔ اس گیس کی بو خاص تھی۔ یہ جلے ہوئے لہسن کی طرح کی تھی۔ اس کو مسٹرڈ گیس کہا گیا۔
ایہرلچ کی وفات کے دو سال بعد بارہ جولائی 1917 کو برطانوی فوج پر گولے برسائے گئے۔ گولوں میں بند کی مائع بخارات میں بدل گئی۔ زردی مائل سبز بادل نے آسمان کو ڈھک لیا۔ خندقوں میں سوئے ہوئے فوجی بیدار ہوئے تو اس گیس کا سامنا تھا۔ چند سیکنڈ میں وہ کھانستے اور چھینکتے ہوئے بھاگ رہے تھے۔ یہ چمڑے اور ربڑ کو پار کر لیتی تھی اور کپڑوں کی تہوں میں رچ جاتی تھی۔ میدانِ جنگ میں زہریلی دھند کی طرح کئی دن تک رہتی تھی۔ اس ایک رات میں اس گیس نے دو ہزار فوجیوں کی زندگی ختم کی۔ ایک سال میں لاکھوں لوگ اس کے ہاتھوں زندگیاں گنوا بیٹھے۔
اس کے فوری اثرات بھیانک تھے۔ جلی ہوئی جلد، بینائی ختم ہو جانا، جسم پر آبلے۔ طویل مدت اثرات کو 1919 میں امریکی پیتھولوجسٹ جوڑے نے دیکھا۔ یپریس بمباری میں بچ جانے والوں کا معائنہ کرنے پر انہیں معلوم ہوا کہ ان کے ہڈیوں کے گودے میں غیرمعمولی صورتحال ہے۔ خون پیدا کرنے والے نارمل خلیے خشک ہو چکے تھے۔ اور ہڈیوں کا گودا کم رہا گیا تھا۔ ان کو خون کی کمی تھی اور مہینے میں ایک بار خون لگوانا پڑتا تھا۔ خون کے سفید خلیوں کی تعداد کم تھی اور ان کو انفیکشن آسانی سے ہو جاتی تھی۔
یہ خبر کینسر ڈاکٹروں کے لئے چونکا دینے ہو سکتی تھی۔ یہ زہریلا کیمیکل ہڈی کے گودے کو نشانہ بناتا تھا اور خاص کیمیکل ختم کرتا تھا۔ لیکن جنگ کی ہولناکیوں کے درمیان یہ پیپر بھلا دیا گیا۔
جنگ ختم ہوئی تو کیمسٹ واپس لیبارٹری میں انسانوں کے بجائے بیماریوں کو ختم کرنے والی جنگ کی طرف لوٹ آئے۔ وہ اب زہریلی گیس نہیں ڈھونڈ رہے تھے جو اپنے شکار کو نیم مردہ، نابینا اور مستقل طور پر اینیما کا شکار بنا دے بلکہ ایسی جادو کی گولی جو کینسر ختم کر سکے۔
اور ان کی یہ گولی اسی خوفناک کیمیائی ہتھیار سے برآمد ہونی تھی جو ایہرلچ کے خواب کی بگڑی ہوئی شکل تھا۔
(جاری ہے)

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply