ایجنسیاں کن لوگوں کو اُٹھاتی ہیں ؟

مردانہ طاقت، نسوانی حُسن ، دیسی جڑی بوٹیوں کی طرح مُلکِ پاکستان کی سویلین و ملٹری انٹیلیجنس ایجنسیوں کے بارے میں بھی بے شمار مفروضے زبان زدِ عام ہیں ، ان مفروضوں میں سے کچھ دس فیصد ، کچھ بیس اور کچھ تیس فیصد درست ہونگے ، اور کچھ میں صداقت نہ ہونے کے برابر ہے ۔مثلاً، بیرونِ ملک علماء ، خطباء ،اور آئمہِ مساجد کے پاس اچھی اچھی گاڑیاں ہوتی ہیں ، پاکستان میں کوئی امام مسجد کچھکا ہوا یاماہا لے لے تو رولا مچ جاتا ہے ۔مولوی چندا کھا گیا اور اگر خطیبِ مسجد یا کوئی عالم اپنے کاروبار یا کسی سے تحفے میں اچھی گاڑی لے لے تو کہا جاتا ہے ،ایجنسیوں کا مولوی ہے ۔
اگر کبھی ایجنسی کسی عالم کو گاڑی دیتی بھی ہے تو اُس سے”جہاز”کی قیمت کا کام بھی لیتی ہے ، مثلاً پنجاب میں کئی علماء اور شخصیات اداروں کے منظورِ نظر رہے اور اب بھی ہیں ،یہ لوگ اُن لوگوں پر محنت کرتے ہیں ، جو کالعدم تنظیموں کا آلہ کار بنے ہوئے ہیں ، اُنھیں پُرامن ، سیاسی جدوجہد کی طرف راغب کرتے ہیں،علامہ طاہر اشرفی کی مثال لے لیں ، بچہ بچہ اُنھیں ایجنسیوں کا بندہ کہتا ہے ، لیکن وہ مثبت انداز میں کام بھی کرتے ہیں ، ملک اسحاق جو کالعدم مسلح تنظیم کے بانی تھے ان سے مذاکرات کرکے مسلح جدوجہد ترک کرانے میں علامہ طاہر اشرفی کا بنیادی کردار تھا ۔
حافظ سعید ، بڑا جانا پہچانا نام ہیں ، اگر حافظ سعید سرکاری خوراک کھاتے ہیں تو اُنھیں بھارت کے خلاف پاکستان کے مضبوط گوریلا کمانڈر کے طور پر پیش کرکے بھارت کی نیند میں خلل پیدا کرنا بھی اداروں کی پالیسی کا حصہ ہے ۔حافظ سعید کی مدد سے ( حالیہ دنوں میں بھی) بلوچستان کے قوم پرست لیڈروں ، کالعدم تنظیم کے لوگوں ( جو ماضی میں پاک فوج کے خلاف کاروائیاں کرتے تھے ) کے ساتھ مذاکرات کی بات کی جاتی ہے۔
مندرجہ بالا مثالیں اور ایسی کئی ہزاروں مثالیں واضح کرتی ہیں ، ایجنسیاں نہ مُلک دشمن ہیں ، نہ اسلام دشمن ہیں ،اور سب سے بڑھ کر ایجنسیاں تباہی نہیں چاہتیں مار دھاڑ نہیں چاہتیں ،ایجنسیاں چاہتی ہیں شہری اپنے مُلک کے خلاف ہونے والی کسی سازش کا حصہ نہ بنیں ،حالیہ دنوں میں سلمان حیدر اور اُن کے ساتھی اغواء ہوئے ، جن پر الزام ہے کہ وہ گستاخانہ و ملحدانہ پیجز چلاتے تھے ،
سوال یہ ہے،کیا ایجنسیز نے اُنھیں ایک دم ہی اغواء کرلیا؟کیا ہزاروں شکایات نہ موصول ہوئی ہوں گی؟کیا اداروں نے اُنھیں کال کرکے وارننگ نہ دی ہوگی؟ کیا ایجنسیز نے میل مُلاقات کرکے سمجھایا نہ ہوگا؟؟ کیا اُن کی گھٹیا حرکات پر نتائج سے آگاہ نہ کیا ہوگا؟۔
یاد رکھیں ایجنسیز “بندہ اُٹھانا” آخری حربے کے طور پر استعمال کرتی ہیں ۔ کال کرکے بندے کو سمجھانا ، ملاقات میں سمجھانا ، سہولت کاروں کو خبردار کرنا ، کالعدم نیٹ ورکس کے خلاف کریک ڈاؤن کرنا ، ملک و مذہب دشمن عناصر کی نشاندہی کرکے اُن سے دُور رہنے کی تاکید کرنا ، نوکریوں میں بلیک لسٹ کردینا ، کڑی نگرانی کرنا ، واچ لسٹ میں ڈالنا ، فورتھ شیڈول میں ڈالنا ، یہ سب کرنے کے بعد بھی جو باز نہ آئے ، اُسے اُٹھایا جاتا ہے ۔سلمان حیدر کو کتنا عرصہ اداروں نے واچ لسٹ میں رکھا ہوگا ، وارن کیا ہوگا ، مگر جب وہ باز نہ آیا تو یہی ہونا تھا ۔اداروں کے پاس بندہ ٹھیک کرنے کے ہزاروں آپشن ہوتے ہیں ، ایک دھمکی بھری کال ہی کسی الٹے راستے والے کو لائن پر لے آتی ہے ، مگر جو باز نہ آئیں اُنھیں اُٹھانا پڑتا ہے ۔
ایجنسیوں کے خلاف مذہبی لوگوں کے ساتھ امتیازی سلوک کا تاثر پایا جاتا ہے ۔اگر دیکھا جائے تو مذہبی لبادہ میں ، شریعت کے نام پر دہشتگردی نے مذہب کو بدنام کرنے میں کوئی کسر نہ چھوڑی ، جو لوگ ملک دشمن قوتوں کےآلہ کار بن کر اپنے ہی ملک میں دہشت گرد حملے کرتے ہیں اُنھیں اُٹھایا جاتا ہے ۔
کسی پرامن مذہبی جماعت کے پرامن بندے کو نہیں اُٹھایا جاتا ، اگر کبھی تحقیقات کے لیے اُٹھایا بھی جائے تو واپس چھوڑ دیا جاتا ہے ، حتیٰ کہ اُن مسلح جماعتوں کے لوگوں کو بھی نہیں چھیڑا جاتا جو کشمیر اور افغانستان میں کاروائیاں کرتی ہیں ، تاہم وہ واچ لسٹ پہ ضرور ہوتی ہیں ۔تحریکی جماعتوں کی راہ میں بھی خاص روڑے نہیں اٹکائے جاتے ۔
متحدہ کے لوگوں کی لاشیں ملنا شروع ہوئیں ۔ کیا یہ اچانک ہوا؟ کیا ڈی جی آئی ایس آئی کو اچانک جوش آیا ہوگا؟نہیں ،بھتہ خوری ، ٹارگٹ کلنگ ، قبضہ گیری ، دادا گیری پر وارن کیا گیاہوگا۔نگرانی کی گئی ہوگی ، مگر جب بلدیہ فیکٹری میں 200 سے زائد لوگوں کو زندہ جلانے والوں کو عدالت سے ضمانتیں ملی ہونگی ، جب کراچی میں وکلاء کو خون سے غسل دیا گیا ہوگا ، جب کراچی کی گلی گلی سے بوری بند لاش ملی ہوگی تو کیا پھر گلے میں پھولوں کے ہار ڈالے جاتے ؟ یا خون سے نہلایا جاتا ؟
ایک متحدہ قومی موومنٹ لاکھوں کا جلسہ کرتی ہے ، کوئی ایجنسی رکاوٹ نہیں بنتی ، لیکن اگر اُسی جلسے میں پاک فوج ،عدالتوں ، اور ملک کے خلاف زبان درازی کی جائے تو کیا اُٹھانا نہیں بنتا ؟
متحدہ تیس لاکھ سے زائد ووٹ لے لیتی ہے ، لیکن اُس کے چند سو کارکنوں کو اُٹھایا گیا ، کیوں؟ اگر نفرت متحدہ سے ہوتی تو سب کی ٹھکائی کی جاتی مگر نفرت ہتھیار اُٹھانے والوں سے ہے ۔
حالیہ دنوں میں جو بندے چُکنے کا سلسلہ شروع ہوا ہے ، وہ پاک چین اقتصادی راہدراری کے تناظر میں جاری رہے گا ، ایجنسیاں اُسے ہی اُٹھائیں گی جس کا ہاتھ ، دماغ ، قلم یا ہتھیار قومی اداروں ، پاکستان ، موجودہ نظام ، کسی مسلک ، مذہب ، فرقے ، زبان ، قومیت یا صوبے کے خلاف استعمال ہوگا ۔ ہاں دشمن ایجنسیوں کو بدنام کرنے کے لیے خود سے بھی لوگوں کو اُٹھوا سکتا ہے ، یہ یقیناقابلِ غور بات ہے ۔خدا تعالیٰ ہم سب کی حفاظت کرے ، اور ایسوں میں ہمارا شمار نہ کرے ۔ایجنسیوں سے ڈرنے کی کوئی ضرورت نہیں ، ایجنسیاں ہماری طاقت ہیں ۔ ہمارا سرمایہ ہیں ،ایجنسیوں یا پاک فوج سے متعلق اپنی تجاویز ، شکایات اور اظہارِ رائے کے لیے آرمی چیف اور ڈی جی آئی ایس آئی کو کھلا خط لکھنا ہر شہری کا بنیادی حق ہے جسے وہ کبھی بھی استعمال کرسکتا ہے۔
اداروں کو بھی چاہیے کہ وہ لوگوں کو عدالتوں میں پیش کرکے اُن کے جرائم کو پورے ملک کے سامنے پیش کریں اور عبرت ناک سزادیں تاکہ آئندہ بھی لوگوں کو عبرت ہو اور اداروں کی عزت و وقار میں مزید اضافہ ہو ۔

Facebook Comments

اُسامہ بن نسیم
اُسامہ بن نسیم کیانی ۔ میں سول انجینئرنگ کا طالبِعلم ہوں، میرا تعلق آزادکشمیر سے ہیں ، کئی مقامی اخبارات اور ویب سائٹس کے لیے کالم نگاری کے علاوہ فیس بک پر مضامین بھی لکھتا ہوں۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply