کیا یہاں کوئی محب وطن بھی ہے؟۔۔محمد اسد شاہ

اس ملک کی تاریخ کے ساتھ اس سے زیادہ سنگین مذاق اور کیا ہو سکتا ہے کہ یہاں محترمہ فاطمہ جناح اور محمد نواز شریف جیسی شخصیات کو بھی غدار کہا گیا ہے۔یقیناً  اب یہاں ایسے ذہن تیار ہو چکے ہیں جن کو میرے یہ الفاظ برے لگیں گے۔لیکن باشعور قارئین اس سنگینی کو سمجھ سکتے ہیں۔ فاطمہ جناح اس ملک کے بانیوں میں سے ہیں اور میاں صاحب اس ملک کے تین بار وزیراعظم رہ چکے ہیں۔ کسی کو یہ بات پسند ہو یا نہ ہو، لیکن حقیقت یہ ہے کہ ایسی شخصیات پر غداری کا الزام لگانا پوری دنیا میں اپنی شناخت اور اپنی حیثیت کا مذاق اڑانا ہے۔کیا ہم دنیا کو یہ بتانا چاہتے ہیں کہ یہ ایسا ملک ہے کہ جس کے بنانے والے بھی غدار، اور وہ شخص بھی غدارکہ ملکی ترقی کا ہر دوسرا منصوبہ جس کی محنت کی گواہی دیتا ہے۔

ہم نے جی ایم سید کو بھی غدار کہاکہ جس نے سندھ اسمبلی میں پاکستان بنانے کی قرارداد منظور کروائی۔ اکبر بگٹی کو بھی غدار کہا گیا جس نے انیس سال کی عمر میں کوئٹہ ایئرپورٹ پر قائد اعظم کا استقبال کیا اور پھر قائداعظم ہی کے حکم پر بلوچستان بھر کے قبائلی سرداروں کو پاکستان میں شامل ہونے پر راضی کیا۔

آزاد کشمیر کا وزیراعظم فاروق حیدر بھی غدار،پاکستان کے چارسابق منتخب وزرائے اعظم ذوالفقار علی بھٹو، بے نظیر بھٹو، میاں محمد نواز شریف اورشاہد خاقان عباسی بھی غدار، پاک فوج کے تین ریٹائرڈ جرنیل بھی غدار۔

اچھا پھر یہ بتائیے کہ یہاں کوئی محب وطن بھی ہے؟غداری اور حب وطن کے الفاظ کو اتنے گھٹیا انداز میں، اس قدر بے رحمی اور بے شرمی کے ساتھ استعمال کیا گیا ہے کہ اب بہت سے لوگوں کی نظر میں ان کے معانی بالکل الٹ ہو گئے ہیں۔جن جن لوگوں کو غدار کہا گیا ہے، ان کو دیکھتے ہوئے بعض لوگ غداری کے الزام کو اعزاز سمجھنے میں حق بجانب لگتے ہیں۔

خدا کے لیے اب مزید یہ بات مت کہیے گا کہ لاہور کے تھانہ شاہ درہ میں درج ہونے والے حالیہ مقدمہ سے آپ کا کوئی تعلق نہیں۔ مدعی کی ساری محبتیں، تصویریں، کارروائیاں اور دلچسپیاں آپ کے ساتھ وابستہ ہیں، وہ آپ کے ٹکٹ پر الیکشن میں حصہ لیتا ہے، وہ پچیس سے زائد مقدمات میں پولیس کو مطلوب ہے لیکن پولیس اسے گرفتار کرنے کو نہیں جا سکتی، بل کہ اگر وہ خود ہی تھانے میں تشریف لاتا ہے تب بھی اسے گرفتار کرنے کی بجائے الٹا اس کے ”حکم“ پر پاکستان اور آزاد کشمیر کی بااثر ترین شخصیات کے ایک جم غفیر کے خلاف مقدمہ درج کر لیتی ہے، اور مقدمہ بھی ایسا کہ جس کا اندراج وفاقی یا صوبائی حکومت کے حکم کے بغیر ممکن ہی نہیں؟اگر آپ نہیں تو پھرکون اس کے پیچھے ہے؟ اور پھربھی آپ یہ کہیں کہ آپ کو اس مقدمے کا پتہ اسی طرح ٹی وی چینلز سے چلا، جس طرح روپے کی قیمت گرنے کا پتہ چلا تھا۔

اگر آپ کے اختیارات واقعی آپ کے علم میں لائے بنا اس طرح استعمال ہوتے ہیں، اور آپ ٹی وی چینلز سے معلوم کرتے ہیں تو آپ دراصل اپوزیشن کے اس دعوٰی کی تصدیق کرتے ہیں کہ حکومت آپ نہیں،کوئی اور چلا رہا ہے۔ کس مخمصے میں آپ نے مبتلا کر رکھا ہے خود کو بھی، اوراپنے ووٹرز کو بھی؟ چند ”اوور سمارٹ“ وزراء اور لکھاری ہمیں یہ بتا رہے ہیں کہ قانون سب کے لیے برابر ہے، کوئی بھی شخص کسی بھی شخص کے خلاف مقدمہ درج کروا سکتا ہے۔کیا واقعی؟ اورگر ایسا ہے تو جن لوگوں نے اس مقدمے کے مدعی کے خلاف مقدمات درج کرو ا رکھے ہیں، ان کی درخواستوں پر مدعی کو گرفتار کیوں نہیں کیا گیا؟

سب جانتے ہیں کہ اس ملک میں مظلوموں کوعام شہریوں کے خلاف اپنے حقیقی مقدمات تک درج کروانا کتنا دشوار ہے۔دوسری طرف یہاں تاریخ کی بااثر ترین شخصیات کے خلاف مقدمہ درج ہو گیاہے، اور وہ بھی ایک مطلوب ملزم کے کہنے پر؟ پولیس بھی جانتی ہے کہ قانون کی رو سے غداری یا بغاوت کا کوئی مقدمہ وفاقی حکومت کے حکم کے بغیر درج ہونا ممکن نہیں اور یہی بات خود موجودہ حکومت کے وزیر تعلیم شفقت محمود نے چند دن پہلے ایک ٹی وی چینل سے بات کرتے ہوئے تسلیم کی ہے۔ اور پھر وزیرداخلہ بریگیڈیئر اعجاز شاہ نے بھی اعتراف کیا کہ نواز شریف کے خلاف غداری کامقدمہ غلط ہے۔لیکن اس مقدمے کی منصوبہ بندی ایسی سطح پر کی گئی ہے کہ وزیرداخلہ کے اس بیان کے باوجود ہفتہ کے روز جب دیگر تمام ملزمان کے نام خارج کر دئیے، تب بھی تین بار کے منتخب وزیر اعظم نواز شریف کا نام خارج نہیں کیا گیا۔

Advertisements
julia rana solicitors

اور ہاں یاد آیا۔۔۔ نواز لیگ کے دور حکومت میں آپ ہمیں بتایا کرتے تھے کہ جس وزیر پر کرپشن کا الزام ہو، اس کو پھانسی پر لٹکا دینا چاہیے، ورنہ وزراعظم خود چور ہوتا ہے۔جب کہ آپ کے اپنے دور حکومت میں آٹا، چینی، ادویات، ماسک اور پٹرول کی مصنوعی مہنگائی اور کرپشن کے ایک میگا سکیندل میں آپ کے ذاتی دوست اور چند وزراء کے نام سامنے آئے تھے۔لیکن دس ماہ گزر چکے،آج تک ان میں سے کسی سے کوئی باز پرس نہٰیں ہو ئی۔ عوام تو اسی کرپشن زدہ مہنگائی میں جل رہے ہیں لیکن ملزمان آپ کے سایہ عاطفت میں مطمئن و مسرور ہیں۔ اگر ان ملزمان کا تعلق ن لیگ سے ہوتا تو آپ کی تقاریر سننے کے لائق ہوتیں۔

Facebook Comments

محمد اسد شاہ
محمد اسد شاہ کالم نگاری اور تعلیم و تدریس سے وابستہ ہیں - پاکستانی سیاست ، انگریزی و اردو ادب ، تقابل ادیان اور سماجی مسائل ان کے موضوعات ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply