والدین کی ناراضگی۔۔۔مہر ساجد شاہ

والدین کا دل دکھایا ہو ۔انہیں تکلیف دی ہو، انہیں ناراض کیا ہو تو اکثر والدین خاموش ہو جاتے ہیں اس کا برملا اظہار نہیں کرتے بددعا نہیں دیتے لیکن انکا دل روتا ہے انکی آنکھوں میں نمی آتی ہے ۔ بس یہی کیفیت خالق کائنات نے اولاد کیلئے سب سے بڑا جرم قرار دیا ہے۔
رب دلوں کے بھید جانتا ہے، انسان غلطیاں کرتا ہے گناہ کرتا ہےاور پھر اسکے سامنے نئی نماز میں مشغول ہو جاتا ہے خیر اور بھلائی کے کام کرنے لگتا ہے، اللہ اسکے آنے کو قبول کرتا ہےلیکن پرانے گناہوں کی معافی صرف توبہ کرنے پر ہی ملتی ہے، اگر گناہ اور جرم بندوں کے متعلق ہوں تو توبہ پر گناہ تو معاف ہو جاتے ہیں لیکن حقوق العباد کا کھاتہ صاف نہیں ہوتا وہاں سے صفائی بندے ہی معاف کریں یا تلافی پائیں گے تو ہو گی۔
کئی بچے والدین کو ناراض کرتے ہیں دکھ دیتے ہیں پھر والدین کے پاس جاتے ہیں اور اسی پر خوش ہو رہتے   ہیں کہ ہمارے والد نے کوئی ناراضگی کا اظہار نہیں کیا ہماری ماں نے کسی دکھ کا  ذکر نہیں کیا، لیکن دراصل والدین اپنے بچوں سے اپنی غلطی پر ندامت دیکھنا چاہتے ہیں۔ بچوں کو اپنی غلطی کا احساس ہو جائے وہ اس کیفیت کا اظہار کرتے دیکھنا چاہتے ہیں۔ انکی خاموشی اور گذشتہ معاملات پر بات نہ کرنا متقاضی ہوتا ہےکہ اب بچے بولیں معافی مانگیں ندامت کا اظہار کریں اپنے غلط ہونے کا اعلان کریں۔
والدین کو ناراض کرنے والو ،
کب معافی مانگو گے؟
جب سامنے مٹی کی ڈھیری ہو گی!!
اس وقت ندامت ہو یا آنسو،رو رو کر اپنے آپ کو کوس کر اعلان بھی کرو تو جواب نہیں آئے گا۔
آج جیتے جاگتے والدین کو سینے سے لگا لو ان کے سامنے اپنی غلطیاں تسلیم کر لو، آج رو کر ان کو منا لو، انکے دل کی اداسیاں اور کرب ختم کر دو۔
رب دلوں میں رہتا ہے وہیں تمہیں ملے گا، والدین راضی ہوں تو رب راضی ہو نے کا یقین کر لو۔
تو اٹھو اور والدین سے اپنی غلطیوں کی معافی مانگ لو آج کا دن اپنی خوش نصیبی کا دن بنا لو۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply