کیا مذہب ذاتی مسلئہ ہے؟ فاخرہ گل

نہیں ،ہر گز نہیں۔۔۔!
بلکہ یہی ایک جُملہ سیکولرازم کی بنیاد ہے

اور اگر ذاتی معاملے والی بات مان بھی لی جائے تو کیا یہ سوچ ذہن میں نہیں آتی کہ پھر ہمارے بزرگانِ دین آج تک دینِ اسلام کی تبلیغ کیوں کرتے رہے ؟اپنے اعمال و اخلاق سے دوسروں کو یہ کیوں بتاتے رہے کہ اسلام ہی سب سے بہترین دین ہے اور اُنہیں دائرہ اسلام میں داخلے کی دعوت کیوں دیتے رہے ؟ اُنہیں اُنکے حال پر کیوں نہ چھوڑا کہ مذہب تو اُنکا ذاتی معاملہ تھا؟

اللہ رب العزت نے تقریباً ایک لاکھ چوبیس ہزار پیغمبر دنیا میں انسانوں کو سچے مذہب کی طرف بلانے کیلئیے بھیجے ، کیونکہ اللہ کے نزدیک مذہب ہر انسان کا ذاتی معاملہ نہیں ہے۔ آپ والی صورتحال میں تو بس بندہ پیدا ہوا جوان ہو گیا اب اُسکی جو مرضی میں آئے کرے کیونکہ ظاہر ہے کہ مذہب تو اُسکا ذاتی معاملہ ہے اور اُس نے اپنی قبر میں جانا ہے اور خود اپنے اعمال کا جواب دینا ہے

حالانکہ نبی اکرمﷺ کا جسم مبارک طائف کی وادی میں اسلئیے لہولہان کیا گیا کہ وہ ایک سچے دین کی طرف بلاتے تھے ورنہ اُن پر تو نبی اور رسول ہونے کی وحی اتر چکی تھی ذاتی معاملہ ہوتا تو اُسی پر اکتفا کرتے لیکن ایسا نہیں ہوا
اوراگر مذہب ذاتی معاملہ ہوتا تو دینِ اسلام آج صرف پیغمبران کرام کے خاندانوں تک محدود ہوتا ، حضرت ابوبکر ؓو عمرؓ اپنے گھر کا پورا مال دینِ اسلام کو پھیلانے میں وقف نہ کرتے کیونکہ وہ تو اسلام قبول کر چکے تھے کوئی اور کرتا نہ کرتا اُنہیں اس سے کوئی غرض نہ ہوتی اگر ، مذہب اُنکا ذاتی معاملہ ہوتا
(لیکن ہاں مذہبی معاملات کو کسی پر مسلّط کرنا ٹھونسنا یا کسی پر زبردستی لاگو کروانا بھی اسلامی تعلیمات کے مکمل منافی اور ایک الگ موضوع ہے جو یہاں زیرِ بحث نہیں )

آپ لوگ خدارا یہ بات سمجھنے کی کوشش کیجئیے کہ یہی ایک جُملہ دراصل ہماری ذہن سازی اور برین واشنگ کر رہا ہے اسی کے ذریعے ہمارے نوجوانوں کے ذہن میں یہ بات ڈالی جا رہی ہے کہ مذہب انسان کا ذاتی اور انفرادی معاملہ ہے وہ اسے جس حد تک چاہے اختیار کرے باقی اس کی مرضی ہے اور پھر خیر سے ہم لوگ میڈیا ایڈیکٹ بھی ہیں جہاں بڑے بڑے ناموں والے یہ جدید مغرب زدہ لوگ ہمیں رغبت دلاتے اور چاہتے ہیں کہ مغرب میں عیسائیت کی جدید شکل کی طرح دینِ اِسلام سے ہمارا اِجتماعی و حقیقی رِشتہ اس طرح منقطع ہوجائے کہ یہ صرف ہمارے نجی یا ذاتی معاملات تک ہی محدود رہے
ذرا سوچئیے کبھی پرنٹ ، الیکٹرونک یا سوشل میڈیا پر انہی بڑے ناموں نے جنکے پیچھے ہم پاگل ہوئے پھرتے ہیں کبھی ایسا بھی کچھ کہا جس سے ہم مذہب سے قریب ہونے لگیں؟

نہیں کہا ناں ؟ کہیں گے بھی نہیں اور اسی میں وہ فخر بھی محسوس کرتے ہیں
تو کیا ہم اور آپ بھی نہ کہیں؟
ہم کسی بھی قادیانی کو پاکستان میں کوئی سرکاری یا اہم عہدہ دینے کے مخالف ہیں ،کیوں؟ جبکہ مذہب تو اُس انسان کا بھی ذاتی معاملہ ہے؟
اور اگر مذہب ہر انسان کا ذاتی معاملہ بن گیا تو ذرا بتائیے کہ پھر ریاست کا مذہب کیا ہو گا ؟
پھر بھی یہ” اسلامی “جمہوریہ پاکستان ہو گا؟

کل کو آپکے مسلمان بچے کسی ہندو پارسی قادیانی یا کسی بھی دوسرے مذہب کی لڑکی/لڑکے سے شادی کرنا چاہیں تو آپ اُسے کہیں گے ناں کہ ایسا کرنا ہمارے مذہب میں منع ہے اور جواب میں وہ آپکا ہی جُملہ “مذہب تو میرا ذاتی معاملہ ہے “ کہہ دے تو ؟

اور پھر کیا یہ بھی سمجھا جائے کہ پاکستان جیسے اسلامی معاشرے میں ہم جنس پرستی کے معاملات بھی آپکے نزدیک بالکل قابلِ مذمت نہیں ہیں کیونکہ اُنکی اپنی زندگی ہے اور مذہب اُنکا ذاتی معاملہ ہے وہ جو چاہیں کریں
آپ پلیزاس جُملے کے اثرات سمجھنے کی کوشش کیجئیے کہ اس طرح کہنا اور سوچنا بحیثیت مسلمان ہمارے معاشرے کیلئیے کیا کیا قیامت خیز تباہیاں لا سکتا ہے
اور خدارا مذہب کو لا دین افراد کی طرح کسی بھی انسان کا ذاتی معاملہ نہ کہا کریں کوئی بُرا کرے تو کہیں کہ اُس نے بُرا کیا ہے اور خاص طور پر آجکل کے ڈیجیٹل دور میں جبکہ ہماری نوجوان نسل گلیمر کی دنیا کے ان افراد کو اندھا دھُند فالو کرتی ہے تو اُنکی سرِ عام کی گئی کسی بھی غلط حرکت کی مذمت بھی ہمیں کھُلے عام ہی کرنی پڑے گی تاکہ اُنکے فالوورز تک یہ مذمت پہنچے اور وہ جان سکیں کہ اُنکے ہیرو کا یہ عمل غلط ہے اور اس نشاندہی کی ضرورت بھی اسلئیے ہے کہ مذہب کو ذاتی معاملہ کہنے یا سمجھنے کی اسلام میں کوئی گنجائش نہیں ہے بلکہ قرآن پاک میں ارشاد فرمایا گیا کہ
“تم بہترین امت ہو جولوگوں (کی اصلاح) کے لیے پیدا کی گئی ہو تم نیک کاموں کا حکم دیتے ہو اور برے کاموں سے روکتے ہو اور تم اللہ پر ایمان رکھتے ہو “
مذہب ذاتی معاملہ ہوتا تو ہمیں اسلامی عقائد و شعائر کا “پابند” نہ کیا جاتا پھر تو ہم بھی وہ سب کچھ کرتے جو ہمارا دل چاہتا
لیکن یہ بات آپ اور میں بخوبی جانتے ہیں کہ ہم وہ سب نہیں کر سکتے جو ہمارا دل چاہتا ہے کیونکہ ہم مسلمان ہیں اور خود کو اللہ کے احکامات کے سامنے سرینڈر کر چکے ہیں

اور اگر آپکی خواہش کے مطابق ایسے معاملات پر کچھ لکھا اور بولا نہ جائے تو پھر ساتویں جماعت میں پڑھے گئے امر بالمعروف ونہی عن المنکر والے سبق کا کیا کریں؟
لکھنے کو تو مزید بہت کچھ ہے لیکن مختصراً کوشش کی ہے کہ اللہ کی مدد سے اُن بھولے لوگوں کو سمجھا سکوں کہ مذہب کسی طور بھی ہمارا ذاتی معاملہ نہیں ہے لہذا جلد از جلد اس زہریلے جُملے کا استعمال ترک کر دیجئیے اور اپنی آنے والی نسلوں کو کنفیوز مسلمان بننے سے بچا لیجئیے

Advertisements
julia rana solicitors

اگر تو میرے الفاظ آپکے کام آئے تو الحمدللہ ، نہیں آئے تو پھر مفتی قوی نے بھی کُڑی پنجابن نچے انگریزی بیٹ تے پر ٹوپی اُتار کر رقص کیا ہے اور اپنے اس عمل کو نوجوان غیر مسلم لڑکیوں کو اسلام کی طرف راغب کرنے کا جو وسیلہ قرار دیا ہے ، تو اُنکے اس عمل کا بھی کھُل کر ساتھ دیجئیے کیونکہ آپکے نزدیک مذہب اُنکا ذاتی معاملہ ہے اور اُنہوں نے بھی قبر میں جا کر اپنے اعمال کے جوابات خود ہی دینے ہیں

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply