نیا پاکستان۔۔آغرؔ ندیم سحر

عمران خان دنیا کا واحد مقبول ترین لیڈر ہے جس نے نہ صرف امت کے درد کو محسوس کیا ،مسئلہ کشمیر کے ساتھ ساتھ ایران اور سعودی عرب کی کشیدگی میں بھی ثالثی کا کردار ادا کیا۔عمران خان کو یہودی ایجنٹ کہنے والوں کو تسلیم کر لیناہوگا کہ پاکستا ن میں اگر کوئی سیاست دان حقیقی انداز میں پوری دنیا میں اس قوم کی عزت بنا رہا ہے تو وہ عمران خان ہے۔

یہ ساری باتیں اپنی جگہ درست ہیں ،کہ عمران خان نہ تو کرپٹ ہے اور نہ ہی جھوٹا ہے، بلکہ وہ اپنی ٹیم سے بھی کرپٹ لوگوں کا صفایا کرنے میں پیش پیش ہے ۔میرے سمیت پاکستانی قوم نے شاید انہی  باتوں کے لیے عمران خان کو ووٹ دیا تھا کہ اس ملک سے مہنگائی سمیت کئی اہم ترین مسائل کا خاتمہ ہو جائے گا اور عمران خان اس ملک کے غریب عوام کا درد محسوس کریں گے۔عمران خان نے نہ صرف غریبوں کو روٹی‘کپڑا اور مکان دینے کا وعدہ کیا تھا بلکہ اس ملک کے غریب عوام (جو صدیوں سے غربت کی چکی میں پس رہے تھے) ان کے لیے بھی کئی دبنگ نعرے لگائے تھے جو آج ان کے گلے پڑ گئے ہیں۔

عمران خان یہ بات تو سمجھ چکے ہوں گے کہ اپوزیشن میں بیٹھ کے نعرے بازی کرنے اور حکومت میں بیٹھ کر کام کرنے میں بڑا فرق ہوتا ہے اور عمران خان یہ بات اگر حکومت میں آنے سے پہلے سمجھ جاتے تو انہیں سو دن پلان جیسے ناکام منصوبے متعارف نہ کروانے پڑتے۔

آج جب ہمیں نون لیگی ورکرز کے سامنے عمران خان کو  ڈیفینڈ کرنا پڑے تو واقعی ہمارے پلے کچھ نہیں ہوتا کیونکہ ہم تحریک انصاف کی حکومت لانے میں پیش پیش تھے اور حکومت آنے کے بعد تقریباً  ایک سال ہم نے یہی سمجھا کہ عمران خان ابھی معاملات سمجھ رہے ہیں ،سو کچھ وقت لگے گا ۔۔لیکن آج معاملہ مختلف ہو رہا ہے۔عمران خان لنگر خانے اور پناہ گاہیں تو بنا رہے ہیں مگر ابھی تک نہ تو نوجوانوں کو کوئی نوکریاں دینے کا پلان متعارف ہوا اور نہ ہی کسی غریب انسان کو گھر ملنے کا سلسلہ بحال ہوا۔اشیائے خوردونوش سے لے کر روٹی اور پانی تک ہماری پہنچ سے دور ہو رہے ہیں یعنی سبزیاں مہنگی ہوگئیں اور چکن سستا ہو گیا۔یہ کون سا نیا پاکستان ہے جس کا پچھلے بائیس سال سے عمران خان ہمیں لالی پاپ دے رہے تھے۔؟

خان صاحب میں پچاس لاکھ گھروں کی تلاش میں ہوں مگر افسوس یہاں تو لوگوں سے گھر چھیننے کا سلسلہ شروع ہے۔حکومت تو غریب لوگوں کو کرائے پر گھر دینے کا بھی وعدہ کر کے مکر گئی۔میں ابھی تک اس پاکستان کو ڈھونڈ رہا ہوں جہاں خلقِ خدا راج کرے گی مگر مجھے وہ نیا پاکستان نہیں مل رہا۔

بیوروکریسی کو تبدیل کرنے کا نعرہ بھی ابھی تک ویسے کا ویسا ہی ہے کیونکہ بیوروکریسی ہو یا پاکستان کے دیگر محکمہ جات‘ابھی تک ویسے ہی سست‘کرپٹ اور بدمعاش ہیں کیونکہ رشوت‘جھوٹ اور کرپشن کا بازار پہلے سے بھی زیادہ گرم ہے یہ الگ بات کہ پہلے سرِ عام تھا اور اب وہی سب کچھ چھپ چھپا کے ہو رہا ہے۔ ہیلتھ کارڈ دیے گئے مگر کس کمپنی نے بنائے اور کس نے اس پراجیکٹ سے اربوں روپے ہڑپ کیے یہ معاملہ بھی دب گیا جیسے خیبرپختونخوا  میں ہوا تھا۔

ٹیکس لینے کا سب سے زیادہ شور عمران خان  نے   مچایا  تھا ۔۔مگر  افسوس ٹیکس کا بوجھ بھی غریب عوام پر آن  پڑا۔اصل چور اور ڈکیٹ تو جیلوں میں بیٹھ کے بھی سیاست کر رہے ہیں‘نواز شریف ایک قومی مجرم ہے مگر کیا کمال بات ہے کہ وہ جیل میں بیٹھ کر بھی سیاست کر رہے ہیں۔دھرنے کی سرپرستی بلاشبہ نواز شریف کر رہے ہیں‘ملاں فضل الرحمن کو تو صرف استعمال کیا جا رہا ہے جیسے اس سے قبل طاہرالقادری اور خادم رضوی سمیت کئی اہم مولویوں کو حکومت اپنے اپنے مقصد کے لیے استعمال کرتی تھی۔

خان صاحب آپ پہ بھی یہ الزام   لگ رہا ہے کہ تحریک انصاف نے بھی ایک مولوی رکھ لیا یعنی مولانا طارق جمیل۔کیا اب یہ سلسلہ ایسا ہی رہے گا کہ ہر سیاسی جماعت اپنے مقاصد کے لیے مذہبی کارڈ کھیلتی رہے گی‘کیا مذہبی کی یہی اصلیت ہے کہ اسے اپنے منفی ہتھکنڈوں کے لیے استعمال کیا جائے۔مجھے ترمذی کی ایک حدیث یاد آ گئی، جس کا مفہوم کچھ یوں ہے۔

“حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ آخری زمانے میں بعض لوگ ایسے ہوں گے جو دنیا حاصل کرنے کے لیے دین کا سہارا لیں گے اور یہ بدترین لوگ ہوں گے۔”

آج ہمارے بھی بعض علما یہی کردار ادا کر رہے ہیں۔مولانا فضل الرحمن آج جب عمران خان کو کشمیر کا سودا کرنے کا طعنہ دیتے ہیں تو انہیں یاد کیوں نہیں آتا کہ دس سال کشمیر کمیٹی کے فضل الرحمٰن  چیئرمین رہے اور منسٹری کی مراعات لیتے رہے مگر کشمیر کے لیے ایک ٹکے کا کام نہ کیا۔

خان صاحب یہ قوم اب آپ سے بھی مایوس ہو چکی ہے کیونکہ جیسے پچھلے ستر سال سے اس قوم کو نعروں اور جھوٹے وعدوں پر ٹرخایا جا رہا تھا‘آج آپ بھی وہی کچھ کر رہے ہیں۔اس قوم کو اس بات سے کیا غرض کہ آلِ شریف نے کتنا پیسہ کھایا اور آلِ ذردار نے کتنا لوٹا۔اسے تو اس بات سے مطلب ہے کہ انہیں دو وقت کی روٹی میسر آ رہی ہے کہ نہیں۔پاکستان سے تاجر بھاگ کر بیرونِ ملک شفٹ ہو گئے‘سرمایہ دار اپنی جمع پونجی لے کر بھاگ کھڑا ہوا۔ٹیکس دینے والے ہوا کے گھوڑے پر سوار ہو کر نکل گئے اور قابو میں آیا تو ایک غریب پاکستانی جو باہر تو کیا اسلام آباد تک نہیں بھاگ سکتا۔

عمران خان صاحب نے ایک سو چھبیس دن قوم کو بے وقوف بنائے رکھا مگر آج مولوی فضل الرحمٰن نہیں سنبھالا جا رہا۔آپ تو بریانی اور کنٹینرز دینے کا وعدہ کر چکے ہیں۔چلو کنٹینرز نہ دیں‘صرف ایک ایک پلیٹ بریانی ہی دے دیں یہ دھرنا برادران بریانی کی ایک پلیٹ پہ بک جائیں گے۔یہ بھی خبریں گردش میں ہیں کہ مولانا فضل الرحمٰن دھرنا ختم کرنے پر تیار ہیں مگر ان کی ڈیمانڈز کچھ عہدے ہیں جو وہ حکومت سے لینا چاہتے ہیں۔وللہ اعلم!

خان صاحب یہ ساری باتیں ایک طرف خدارا اس ملک کی غریب قوم سے کیے وعدے پورے کریں۔اس بیچاری غریب عوام کو اس سے کیا غرض کہ نواز شریف اور  زرداری جیل میں ہیں یا باہر‘انہیں تو اس سے مطلب ہے کہ انہیں روٹی میسر آ رہی ہے یا نہیں۔اس ملک کے معذور افراد جن میں نابینا افراد(جن پر گزشتہ کالم لکھا) سرفہرست ہیں‘وہ میرٹ پر ہوتے ہوئے نوکریوں سے محروم ہیں تو کیا حکومت صرف شریف برادران اور    زر داری سے ذاتی جنگ ہی لڑے گی یا کوئی ملک کا بھی سوچے گا۔

Advertisements
julia rana solicitors london

خان صاحب! بہت انتظار ہو گیا مجھے یا تو نیا پاکستان دیں یا پھر پرانا پاکستان ہی واپس لوٹا دیں کم از کم ”وہ کھاتے تھے تو لگاتے بھی تو تھے“۔مجھے وہی حکومت چاہیے۔بے شک انہوں نے ملک کے تمام بڑے ادارے گروی رکھ دیے تھے‘بے شک انھوں نے کھربوں کی جائیدادیں بنائیں‘بے شک انہوں نے اپنی نسلوں کو ہمارا خون پلا کر بڑا کیا‘بے شک انھوں نے کرپشن‘چوری اور جھوٹ کی انتہا کر دی‘بے شک انھوں نے سب سے زیادہ قرضے لیے لیکن پھر بھی مجھے پرانا پاکستان چاہیے کیونکہ غریب عوام کی آنکھوں نے مٹی جھونکنے کا گزشتہ حکومتوں نے بڑا اہم کردار ادا کیا۔لیکن پھر بھی ہمیں پرانا پاکستان چاہیے۔خان صاحب ہم آپ کو مزید وقت نہیں دے سکتے‘ہم معذرت خواہ ہیں مگر ہمارے لیے آلِ شریف اور آلِ  زردار ہی بہتر ہیں۔

Facebook Comments

آغر ندیم سحر
تعارف آغر ندیم سحر کا تعلق منڈی بہاءالدین سے ہے۔گزشتہ پندرہ سال سے شعبہ صحافت کے ساتھ وابستہ ہیں۔آپ مختلف قومی اخبارات و جرائد میں مختلف عہدوں پر فائز رہے۔گزشتہ تین سال سے روزنامہ نئی بات کے ساتھ بطور کالم نگار وابستہ ہیں۔گورنمنٹ کینٹ کالج فار بوائز،لاہور کینٹ میں بطور استاد شعبہ اردو اپنی خدمات سرانجام دے رہے ہیں۔اس سے قبل بھی کئی اہم ترین تعلیمی اداروں میں بطور استاد اہنی خدمات سرانجام دیتے رہے۔معروف علمی دانش گاہ اورینٹل کالج پنجاب یونیورسٹی لاہور سے اردو ادبیات میں ایم اے جبکہ گورنمنٹ کالج و یونیورسٹی لاہور سے اردو ادبیات میں ایم فل ادبیات کی ڈگری حاصل کی۔۔2012 میں آپ کا پہلا شعری مجموعہ لوح_ادراک شائع ہوا جبکہ 2013 میں ایک کہانیوں کا انتخاب چھپا۔2017 میں آپ کی مزاحمتی شاعری پر آسیہ جبیں نامی طالبہ نے یونیورسٹی آف لاہور نے ایم فل اردو کا تحقیقی مقالہ لکھا۔۔پندرہ قومی و بین الاقوامی اردو کانفرنسوں میں بطور مندوب شرکت کی اور اپنے تحقیق مقالہ جات پیش کیے۔ملک بھر کی ادبی تنظیموں کی طرف سے پچاس سے زائد علمی و ادبی ایوارڈز حاصل کیے۔2017 میں آپ کو"برین آف منڈی بہاؤالدین"کا ایوارڈ بھی دیا گیا جبکہ اس سے قبل 2012 میں آپ کو مضمون نگاری میں وزارتی ایوارڈ بھی دیا جا چکا ہے۔۔۔آپ مکالمہ کے ساتھ بطور کالم نگار وابستہ ہو گئے ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply