قدیم کیمسٹ (41)۔۔وہاراامباکر

ابتدائی کیمسٹری کا پہلا فن لاش کو مصالحے اور خوشبوئیں لگانے کا تھا۔ اور اس کو ہم ماضی میں بہت پیچھے جا کر چیٹل ہوئیک میں دیکھ سکتے ہیں۔ کیونکہ وہ حنوط سازی تو نہیں کرتے تھے لیکن موت کی یہی رسومات تھیں جو پھر ممیاں بنانے کی ایجاد کی طرف لے کر گئی۔ اور اس نے ایک صنعت کو پیدا کیا۔

حنوط کرنے کا بزنس اور اس کے ذریعے امیر ہونا مصری entrepreneurs اور موجدین کا خواب ہو گا۔ کیونکہ انہوں نے اس پر بہت طویل محنت کی ہے۔ وقت کے ساتھ اور غلطیوں کے ساتھ مصری حنوط کاروں نے سوڈیم کے نمکیات، مرر، خوشبودار گوند اور دیگر محفوظ رکھنے والی اشیا کو دریافت کر کے اس میں کامیابی حاصل کی۔ اور ان سب دریافتوں میں نہ ہی کیمیکل پراسس کا علم تھا اور نہ ہی اس کا کہ لاش گلتی کیوں ہے۔

اور چونکہ یہ بزنس تھا، اس لئے اس کی ترکیبیں اور دریافتیں چھپا کر رکھی جاتی تھیں۔ اور چونکہ یہ موت کے بعد کا بزنس تھا اس لئے اس فن کے حامل جادوگر اور عامل سمجھے جاتے تھے۔ اور یہ خفیہ طریقے بھی بدلتے رہے۔ معدنیات کا نالج، تیل کا، پھولوں کے رس، پودوں کی کونپلیں، جڑیں ،شیشہ، دھاتیں۔ ان پر تجربات ہی کسی نتیجے تک پہنچنے کا طریقہ تھا۔ اور کیمسٹری کی یہ شروعات تھیں جس وجہ سے الکیمیا نے پرسرار اور جادوئی کلچر سے جنم لیا۔ یہ روایات صدیوں تک رہیں۔

ان کے کرنے والوں نے اپنے فیلڈ میں بہت سی سپیشلائزڈ تکنیک دریافت کیں۔ یہ سب اکٹھی اس وقت ہونے لگیں جب اسکندرِ اعظم نے مصر میں دریائے نیل کے پاس سکندریہ شہر 331 قبلِ مسیح میں بسایا۔

سکندریہ ایک شاندار شہر تھا، خوبصورت عمارتیں، سو فٹ چوڑی سڑکیں۔ اس کے بننے کی کچھ دہائیوں بعد مصر کے یونانی بادشاہ بطلیموس دوئم نے یہاں کلچرل اہمیت کی زبردست عمارت بنوائی۔ یہ میوزیم تھا۔ آج جیسے میوزیم کی طرح نہیں جہاں نمائش میں آرٹیفیکٹ رکھے جائیں بلکہ اس میں سو سائنسدان اور سکالر تھے جنہیں ریاست کی طرف سے وظیفہ، میوزم کے کچن سے کھانا اور رہائش ملتی تھی۔ اس کے ساتھ بڑی لائبریری تھی جس میں پانچ لاکھ سکرول تھے۔ ایک رصدگاہ تھی، لاشوں پر آپریشن کی لیبارٹری تھی، باغ اور چڑیا گھر تھا اور تحقیق کا مرکز تھا۔ یہ علم کا مرکز تھا۔ ایک زندہ جاوید اور کام کرتی یادگار جو انسانی علم کی خواہش کا نشان تھی۔ یہ دنیا کا پہلا ریسرچ سنٹر تھا اور اس نے ویسا کردار ادا کیا جیسا بعد میں یورپ میں یونیورسٹی نے۔ لیکن تیسری صدی میں لگنے والی آگ نے اسے تباہ کر دیا۔

سکندریہ کلچر کا مرکز بن گیا اور دو ہی صدیوں میں یہ دنیا کا سب سے بڑا شہر تھا۔ مختلف یونانی تھیوریاں اور مصری کیمسٹری یہاں اکٹھے ہوئے۔ اور خیالات کے تبادلے نے سب کچھ بدل دیا۔

یونانی فتح سے پہلے مصریوں کی مادے کو جاننے کی کاوشیں عملی تھیں۔ اب یونانی فزکس ایک تھیوریٹیکل فریم ورک دیتی تھی جس اس نالج کو سیاق و سباق دے سکتی تھی۔ ارسطو کی تھیوری وضاحت دیتی تھی کہ مختلف اشیا بدل سکتی ہیں اور آپسی تعامل کر سکتی ہیں۔ اگرچہ ان کی تھیوری ٹھیک نہیں تھی لیکن یہ اشیا کی طرف ایک مربوط سائنسی اپروچ کی طرف لے جا سکتی تھی۔

ارسطو کی تھیوری میں اشیا حالت بدلتی تھیں۔ ارسطو کے مطابق پانی کے عنصر کی دو خاصیتیں تھیں۔ گیلا اور سرد۔ جبکہ ہوا گیلی اور گرم تھی۔ ابلنا ایک عمل تھا جس میں آگ کا عنصر پانی کی سردی کو گرمی میں بدلتا تھا اور پانی ٹرانسفورم ہو کر ہوا بن جاتا تھا۔ یہ وہ خیال تھا جس کو آگے بڑھاتے ہوئے مصریوں نے سوال کیا کہ اگر پانی ہوا بن سکتا ہے تو کسی سستی دھات کو سونا بھی بنایا جا سکتا ہو گا۔

مصریوں نے نوٹ کیا کہ سونا دھات ہے، نرم ہے اور زرد ہے۔ لیکن یہی خاصیتیں الگ الگ دوسری اشیا میں بھی ہیں۔ اگر ابلنے کے عمل میں آگے اپنی صفت پانی میں منتقل کر دیتی ہے اور پانی کو ہوا بنا دیتی ہے تو ویسا ہی کوئی پراسس دھات، نرم اور زرد صفات کو ملا کر ٹرانسمیوٹیشن کر کے سونا بنا دی گا۔

یہ وہ خیالات تھے جب 200 قبلِ مسیح میں یونانی فلسفے، حنوط کی کیمسٹری، دھات سازی اور دوسرے فنون سے ملکر الکیمیا کی پیدائش ہوئی۔ اس کا مرکزی مقصد سونا بنانا تھا اور بعد میں اکسیرِ اعظم بھی۔ ایسی شے جو کسی کو ہمیشہ جوان رکھے۔

مورخین اس پر بحث کرتے رہے ہیں کہ کیمسٹری کی سائنس کا پودا کب پھوٹا لیکن یہ کوئی گندم کا پودا نہیں تھا جس کا بیج بونے کے بعد ایک دن ہم کہیں کہ یہ اب نکل آیا ہے۔ اس لئے اس کا وقت اور تاریخ کسی کی اپنی رائے ہی ہو سکتی ہے، کوئی پریسائز فیکٹ نہیں۔ ایک چیز جس پر کوئی اختلاف نہیں کر سکتا، وہ یہ کہ الکیمیا نے ایک مفید کام کیا۔ نہ ہی سونا بنایا جا سکتا ہے اور نہ ہی اکسیرِاعظم، ہم تو اسے جانتے ہیں لیکن الکیمیا کا فن پریکٹس کرنے والے اور اس پر اپنی زندگیاں ضائع کر دینے والے اس سے واقف نہیں تھے۔ البتہ کیمسٹری اپنی جدید شکل میں اس پرسرار رسومات میں پردہ پوش اس تاریک فن سے بڑھ کر پہنچی ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors

(جاری ہے)

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply