گلگت بلتستان کیسے آزاد ہوا؟۔۔آصف جیلانی

گلگت اور بلتستان جو برصغیر کی آزادی کے وقت جموں و کشمیر کے حصے تھے کس طرح آزاد ہوئے اس کی داستان منفرد اور دلچسپ ہے۔ ان علاقوں کی آزادی کا سہرا، مہاراجا ہر ی سنگھ کے گلگت اسکائوٹس کے کمانڈر میجر ولیم براون کے سر ہے۔ اسکاٹ لینڈ سے تعلق رکھنے والے میجر ولیم براون 1943میں برطانوی فوج کے ساتھ گلگت ایجنسی میں تعینات ہوئے تھے اور 1947 میں چترال میں اسکائوٹس کے کمانڈر مقرر ہوئے تھے۔ جون 1947میں جب گلگت ایجنسی مہاراجا کی ریاست جموں و کشمیر میں ضم کردی گئی تھی اور اکتوبر 1947میں مہاراجا نے کشمیر کا ہندوستان کے ساتھ الحاق کا اعلان کیا تھا تو اس وقت میجر ولیم براون گلگت ایجنسی میں اسکائوٹس کے کمانڈر کی حیثیت سے تعینات تھے۔ ہندوستان سے الحاق کے بعد مہاراجا نے گلگت کی حکمرانی اپنے گورنر گھنسر سنگھ کے حوالہ کر دی تھی۔ میجر ولیم براون جو تین سال سے گلگت میں تعینات تھے اور یہاں کے عوام سے گہرے رابطہ میں تھے انہیں اس بات کا شدید احساس تھا کہ گلگت کی مسلم اکثریت مہاراجا کے ہندوستان سے الحاق سے نا خوش ہے اور وہ پاکستان میں شامل ہونا چاہتی ہے۔
میجر ولیم براون نے اس صورت حال کے پیش نظر گورنر گھنسر سنگھ پر زور دیا کہ وہ گلگت کے عوام کی مرضی معلوم کریں۔ میجر براون کا کہنا تھا کہ گلگت کے عوام کی مسلم اکثریت مہاراجا کے فیصلہ کے خلاف ہے اور اس کے نتیجے میں گلگت میں خون خرابے کا خطرہ ہے اس لیے انہوں نے گورنر گھنسر سنگھ کو خبردار کیا تھا کہ وہ اس خون خرابے کو روکنے کے لیے ضروری کارروائی کریں گے۔ میجر ولیم براون کی یہ رائے تھی کہ نہ صرف گلگت بلکہ پورا کشمیر مسلم اکثریت کی بنیاد پر پاکستان میں شامل ہونا چاہیے۔ گورنر گھنسر سنگھ نے میجر براون کی وارننگ پر کوئی توجہ نہیں دی جس کے بعد میجر ولیم براون نے آپریشن ’’دتہ خیل‘‘ کے نام سے کارروائی شروع کی اور 31 اکتوبر کو ان کے حکم پر گلگت اسکائوٹس نے گلگت ریز یڈنسی کو گھیرے میں لے لیا اور گورنر گھنسر سنگھ کو گرفتار کر لیا اور گلگت میں فوجی انتظامیہ قائم کردی۔
اس دوران میجر ولیم براون کو پتا چلا کہ گلگت کے بعض عناصر گلگت میں گلگت آسٹر کے نام سے ایک آزاد مملکت قائم کرنا چاہتے ہیں۔ اس منصوبے کو ناکام بنانے کے لیے میجر براون نے پاکستان کو پیغام بھجوایا کہ گلگت میں فوراً فوج بھیجی جائے۔ ابھی پاکستان نے کوئی اقدام نہیں کیا تھا کہ 2 نومبر کو گلگت ریزیڈنسی کی عمارت پر میجر ولیم براون نے پاکستان کا پرچم لہرا دیا اور گلگت کی پاکستان میں شمولیت کا اعلان کر دیا۔ آخر کار 16 نومبر کو حکومت پاکستان نے محمد عالم کو پولیٹیکل ایجنٹ کی حیثیت سے گلگت بھیجا اور 18نومبر 1947 کو گلگت اور ملحقہ علاقوں کے پاکستان میں شمولیت کے اعلان پر دستخط ہوئے اور یوں گلگت بلتستان کی آزادی پر مہر ثبت ہوئی۔ 12جنوری 1948تک میجر ولیم براون گلگت اسکائوٹس کے کمانڈر کے عہدہ پر فائز رہے اور اس کے بعد گلگت اور اس سے ملحقہ بلتستان کا انتظام پاکستان کے پولیٹیکل ایجنٹ محمد عالم کے حوالہ کر دیا۔ میجر ولیم براون کا کہنا تھا کہ انہوں نے آپریشن ’’دتہ خیل‘‘ کے نام سے جو کارروائی کی تھی اور گورنر گھنسر سنگھ کا تختہ الٹا تھا اسے غداری کہا جا سکتا ہے لیکن ان کا اصرار تھا کہ ا نہیں یہ احساس تھا کہ وہ جو کر رہے ہیں وہ صحیح ہے اور گلگت کے عوام کی خواہشات کے مطابق ہے۔ غرض یوں میجر ولیم براون کی کارروائی کے نتیجے میں گلگت بلتستان کو آزادی ملی۔ جنوری 1948کو میجر براون گلگت سے واپس آئے۔ پاکستان میں انہیں فرنٹیر کانسٹبلری میں تعینات کیا گیا اور دو سا ل تک وہ اس کانسٹبلری کے ساتھ منسلک رہے۔ 1959 تک وہ پاکستان میں رہے جس کے بعد وہ اپنے وطن اسکاٹ لینڈ منتقل ہوگئے۔
یہ ہے گلگت بلتستان کی آزادی کی داستان جہاں 15نومبر کو اسمبلی کے انتخابات ہورہے ہیں۔ توقع ہے کہ ان انتخابات کے بعد گلگت بلتستان کو پاکستان کا پانچواں صوبہ بنانے کے بارے میں کوئی فیصلہ ہوگا۔ گلگت بلتستان کو جو آزاد کشمیر سے چھ گنا بڑا علاقہ ہے 1970 میں شمالی علاقوں کے نام سے ایک جدا انتظامہ یونٹ کی حیثیت دی گئی تھی اور اس میں ہنزا اور نگر کے علاقے بھی شامل کیے گئے تھے۔ آبادی اس پورے علاقہ کی چودہ لاکھ بانوے ہزار افراد پر مشتمل ہے۔ گلگت بلتستان میں پانچ آٹھ ہزار میٹر بلند پہاڑیاں اور پچاس کے قریب سات ہزار میٹر بلند پہاڑی چوٹیاں ہیں۔ اس علاقہ میں دنیا کے بلند ترین پہاڑوں کا سلسلہ ہے جن میں قراقرم، پامیر اور ہندو کش نمایاں ہیں۔ پہاڑوں کی بہتات کی مانند یہاں اردو کے علاوہ زبانوں کی بھی بڑی تعداد ہے جن میں شینا، بورو ساسکی، خووار، وکھی۔ پشتو، کشمیری، دوماکھی اور گوجری نمایاں ہیں۔

Facebook Comments

آصف جیلانی
آصف جیلانی معروف صحافی ہیں۔ آپ لندن میں قیام پذیر ہیں اور روزنامہ جنگ اور بی بی سی سے وابستہ رہے۔ آپ "ساغر شیشے لعل و گہر" کے مصنف ہیں۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply