وادی نمل۔۔ربیعہ سلیم مرزا

آبادی سے پرے وسیع میدان میں مٹی کے چھوٹے چھوٹے ٹیلےتھے۔جن میں لاکھوں کی تعداد میں چیونٹیوں نےاپنےبل بنائےتھے۔ان میں ہزاروں چیونٹیوں کی نسلیں آباد تھیں، انکا تعلق ایک کروڑ سینتیس لاکھ سال قبل موجود بھڑ اجداد سے تھا۔ان کی کچھ قسمیں بینائی رکھتی تھیں اور کچھ اپنے اینٹینا سے سونگھ کر کام چلاتیں۔ یہ چیونٹیاں پانی میں بیس سے پچیس گھنٹے زندہ رہ سکتی تھیں ۔ان میں ایک سنہری چیونٹی بھی تھی جو تمام چیونٹیوں کی ملکہ تھی،
یہ ملکہ، ایک سینٹی میٹر لمبی تھی۔ ملکہ کا کام صرف انڈے دینا تھا ، باقی چیونٹیوں کوحسب ضرورت ذمہ داریاں سونپی جاتیں تھیں۔تمام چیونٹیاں مل جل کررہتیں اور اپنی ملکہ کا حکم مانتیں۔
یہ کالونیاں، ملکہ کے دم سےہی آباد تھیں حالانکہ ملکہ اور دوسری ماداؤں کی عمر لگ بھگ تین سال اور نر، بیچاروں کی عمر دو تین ہفتے ہوتی۔
مشکل حالات کے لیئے حفاظتی اور لڑا کا فوجی دستےبھی تھے۔لورا اور سینڈی ان دستوں کی کمانڈر تھیں، باقی کارکن چیونٹیاں تھیں ۔انکے ذمّے، خوراک جمع کرنااور انڈوں کی حفاظت کے ساتھ ساتھ، موسم کے حساب سے جگہ کی منتقلی بھی تھا۔ریڑھ کی ہڈی نہ ہونے کے باوجود یہ چیونٹیاں اپنے وزن سے بیس گنازیادہ بوجھ اٹھاسکتی تھیں ۔
سردیوں کی آمدآمدتھی، ملکہ کاحکم تھاکہ جلد سے جلد، خوراک جمع کی جائے ۔تمام تیاریاں زوروشور سےجاری تھیں ۔چیونٹیاں قطار در قطار چلتے ہوئے اپنے اینٹینا سے ایک دوسری کو چھوکر ضروری معلومات یا ہارمونز لیتیں، اور ان ہار مونزکی مدد سے سونگھتے سونگھتے، خوراک تک پہنچ جاتیں۔
گندم کا ایک دانہ، ایک چیونٹی کے لیےسال بھرکے لیئے کافی رہتا۔ مردہ چیونٹیاں، حشرات اور خشک اناج کا ذخیرہ تھا۔اگر بارش کے پانی یا سیلن کی وجہ سےخوراک میں نمو کا عمل شروع ہو جاتا تو اس خوراک کو ٹکڑوں میں توڑ لیا جاتا۔خشک خوراک کافی جمع ہوچکی تھی اب چیونٹیوں کو کچھ میٹھا درکار تھا۔
قطار میں چلتے چلتے، سینڈی کوسامنے والی قطار میں، لورا آتی دکھائی دی، قریب آنے پہ، سینڈی نے اپنے سر کونوے ڈگری کے زاویے پہ گھمایااوراپنےانٹینا کو لورا کےاینٹینا سے چھو کر بتایاکہ ایک کوس دور ایک انسانی آبادی موجود ہے جہاں سےانہیں میٹھامل سکتا ہے، یہ معلوماتی سگنل ملتے ہی تمام قطاروں نے رخ موڑا، اور آبادی کی طرف سفرشروع کردیا۔راستہ کافی لمبا تھا۔سفر کے دوران چیونٹیوں کو بھوک محسوس ہوتی تو پیروں کی مدد سے ایک دوسری کا پیٹ کھجلا کر خوراک حاصل کرتیں۔
ابھی تھوڑا فاصلہ طے کیا تھا کہ لورا اور سینڈی کودھمک محسوس ہوئی، یہ خطرے کا سگنل تھا، جب کہیں چیونٹیوں پہ کوئی مصیبت آتی، وہ اپنے جسم کو زمین سے ٹکرا کر یا کسی چیز سے رگڑ کراطلاعی سگنل جاری کرتیں،جوچھ سات میٹر دور تک محسوس کیا جاتا۔باقی چیونٹیاں یہ دھمک سنتے ہی مدد کو دوڑ پڑتیں ۔

Advertisements
julia rana solicitors london

تھوڑا آگے بڑھتے ہی چیونٹیوں کو ایک خوفناک مینڈک، زبان لپکاتانظرآیا، مینڈک کی للچائی نظریں، ایک گھروندے پہ جمی تھیں ۔مینڈک نے جو چیونٹیوں کی اتنی بڑی فوج آتے دیکھی تو زبان لپکاتے ہوئے، ٹرانےلگا۔
تمام چیونٹیاں،ملکہ کی تربیت یافتہ تھیں، لورا اور سینڈی نے کارکن چیونٹیوں کو کھانے کی تلاش میں آبادی کی طرف روانہ کیا، جبکہ مکوڑوں اور بھوری چیونٹیوں کےدستےکو ،مینڈک پہ عقب سے حملہ کرنے کا حکم دیا۔اشارہ ملتے ہی، فوج نےمینڈک کو گھیر کرحملہ کر دیا،
مینڈک کو سامنے کوئی چیز نظر نہیں آرہی تھی، مگر کچھ تو تھا، جو اسکے جسم میں گھسا جاتا تھا، مینڈک نے خوف اور تکلیف سے اچھلنا شروع کر دیا، چیونٹیاں ہمت دکھاتے ہوئے، مینڈک کی آنکھوں اور ناک میں گھس گئیں ۔
مینڈک تکلیف سے اچھل رہا تھا، اسنے جیسے ہی ٹرانے کے لیے منہ کھولا، ڈرے بغیرچیونٹیاں مینڈک کے منہ اور ناک میں گھس گئیں۔مینڈک کی اچھل کود بند ہوگئی ۔
چیونٹیاں گر رہی تھیں، پھر اٹھ کر لپک رہی تھیں، مگر ہار ماننے پہ تیار نہیں تھیں۔
اسی جنگ میں صبح سے شام ہو گئی۔ مینڈک کی مزاحمت دم توڑنے لگی، اسے کچھ نظر نہیں آ رہا تھا۔چیونٹیوں نے مینڈک کو حوصلہ ہارتےدیکھا تو ہمت پکڑی اور تیز دھار دانتوں سے کاٹنا شروع کر دیا، اب مینڈک مر چکا تھا۔
چیونٹیوں کے لیے، جشن کا سماں تھا، وہ خوشی سے نعرے لگانے لگیں، اتنے میں آبادی کی طرف جانےوالادستہ،شہتوت اور کچھ انگور کے ٹکڑے اٹھائے، آتا دکھائی دیا۔چیونٹیوں کی خوشی کی انتہا نا رہی ۔اب آتی سردیوں کے لیے، پیٹ بھر خوراک اور میٹھےکا بھی انتظام ہو چکا تھا۔بہت دن لگے، لیکن چیونٹیوں نے کسی نہ کسی طرح، مینڈک کو گھروندے میں منتقل کر دیا،
ملکہ نے تمام گھروندوں میں آبادچیونٹیوں کی دعوت کی،
اب فکر کی کوئی بات نہ تھی، خالق کائنات نے انکی محنت کے بدلے، ہمشہ کی طرح رزق سے نواز دیا تھا۔
سچ کہتے ہیں محنت میں عظمت ہے۔اور اتفاق میں برکت ہے۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply