سانحہ تربت سے سانحہ موٹروے تک۔۔صادق صبا

ایک نہ تھمنے والی چیخ ہے، ایک لامتناہی ماتم ہے، ایک المیہ کی مذمت میں زہر افشانی ہے۔ اخبارات میں خبروں میں لہو کی بو ہے۔ کالموں سے عورت پہ ہونے والے تمام ظلم و عدو کی ایک بار پھر نقشہ گیری جاری ہے۔ ٹی وی کی سرخیاں خوں چکاں ہیں۔ ماہرین، اداکار، تجزیہ نگار اپنے اپنے تجزیات کی روشنی میں معاشرے کی پیوند کاری میں مصروف ہیں۔ قانون دان، قانون میں موجود سقم پہ نوحہ خواں ہیں۔ آئین کے ان چور دروازوں کو کوسا جا رہا ہے جہاں سے مجرم، باعزت برعیت کی سند پاتے ہیں۔

یہ تمام نوحہ خوانی لاہور میں موٹروے پر حّوا کی ایک بیٹی کی اس کے بچوں کے سامنے عزت تار تار کرنے اور جواہرات لوٹنے کے بعد کی جا رہی ہے۔ وزیراعلیٰ سے لے کر وزیراعظم تک ہر کوئی اپنے گہرے صدمے کا اظہار کر رہا ہے۔ جو یقیننا ان کو کرنا چاہیے۔ یہ ان کا حق ہے اور فرض بھی۔ مجروموں کو کیفر کردار تک پہنچانا حکومت کی ذمہ داری ہے۔ تاکہ کل پھر سے حّوا کی کسی اور بیٹی کی عزت تار تار نہ ہو۔

لیکن، یہ شور و غوغاں کئی سوالات کو جنم دیتا ہے۔

پہلا سوال کہ کہاں تھا یہ شورو غوغا جب ملکناز کو اس کی بیٹی، پھول جیسی برّمش کے سامنے گولیوں سے بھون دیا گیا؟ کہاں تھے یہ اخبارات، یہ رسائل، یہ ٹی وی پہ چیخ چیخ کر ہر جھوٹ کو سچ ثابت کرنے والے، کہاں تھا وزیر اعظم اور وزیر اعلیٰ۔ آخر کیا ملکناز عورت نہیں تھی؟ کیا ملکناز اسی وطن کی باسی نہیں تھی؟ شور اٹھا تو یہیں تک اور یہیں دب گیا۔

سوال ہے کہ کلثوم کا جب گلا کاٹا گیا تو کہاں تھا یہ نام نہاد میڈیا کہ چار سال کی بیٹی کے سامنے ایک ماں کا گلا کاٹا گیا؟ نہ کوئی سیاسی بیان آیا نہ ٹیوٹر والوں کی طرف سے کوئی ٹیوٹر پیغام۔

حالاں کہ یہ بھی اما حّوا کی بیٹیاں تھیں، ان کو بھی ڈاکوؤں نے بے رحمی سے قتل کیا۔ مگر شاید صحافت و حکومت کے روایت و معیارات پر یہ واقعات پورے نہیں اترتے تھے۔

المیہ یہ ہے کے لاہور موٹروے واقعہ سے محض چند دن پہلے تربت میں ایک مصور، ایک شاعرہ اور ایک صحافی بی بی شاہینہ شاہین کی ابھرتی آواز کو گولیوں سے خاموش کر دیا گیا۔ لیکن یہ خبر فقط کچھ نیوز چینل کی بیس سیکنڈ کی ہیڈلائنز تک محدود رہی۔ چند نے تو اسے فقط ٹکر تک ہی محدود رکھا۔ حکومتِ وقت نے تو اپنی انگلیوں کو ایک ٹوئٹ کی بھی زحمت دینا گوارا نہیں کی۔

تو آخر سوال اٹھتا ہے کہ میڈیا کی طرف سے یہ دوغلاپن کیوں کیا برتا ہے؟ کیوں بلوچستان کی بیٹیوں کو حوّا کی بیٹیاں تسلیم نہیں کیا جاتا؟ کیوں لاہور موٹرے کا واقعہ تمام ملک کو ہلا کر رکھ دیتا ہے اور چوبیس گھنٹے تک میڈیا کی زبان پہ رہتا ہے لیکن شاہینہ شاہین ایک ٹکر تک محدود۔ کیا بلوچستان ہمارے میڈیا کے لیے کولمبس کا ہندوستان ہے جو اسے ڈھونڈنے سے بھی نہیں ملتا؟
سوال تو اٹھتا ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

اگر صورت حال یہی رہی تو بلوچستان میں محرومیت کی صدائیں کبھی ختم نہیں ہوں گی۔ میڈیا کو چاہیے تھا کہ وہ بلوچستان میں عورتوں کے ہر قتل اور اس پر ہونے والے مظاہرہ کو اپنی اسکرین پر جگہ دیتا۔ بلوچ عورت کا خون بھی اسی طرح سرخ ہے جیسا ملک کی کسی دوسری عورت کا۔ اس لیے یہ تفریق اب ختم ہونی چاہیے۔

Facebook Comments

حال حوال
یہ تحریر بشکریہ حال حوال شائع کی جا رہی ہے۔ "مکالمہ" اور "حال حوال" ایک دوسرے پر شائع ہونے والی اچھی تحاریر اپنے قارئین کیلیے مشترکہ شائع کریں گے تاکہ بلوچستان کے دوستوں کے مسائل، خیالات اور فکر سے باقی قوموں کو بھی آگاہی ہو۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply