نادرہ مہرنواز کا دوسرا خط،اور ڈاکٹر خالد سہیل کا جواب

آپ نے مثال دی کہ کسی کو غالب پسند ہے تو کسی کو اقبال۔ کسی کو پیرس اچھا لگتا ہے کسی کو روم۔ ڈاکٹر صاحب یہ اپنی اپنی پسند ہے۔ اپنی رائے ہے۔ اور رائے غلط بھی ہو سکتی ہے۔ جیسے میں کہوں مجھے پیلا رنگ پسند ہے اور آپ کہیں آپ کو نیلا۔ یہاں تک سب ٹھیک۔ پسند اپنی اپنی۔ لیکن اگر میں یہ بحث کرنے بیٹھ جاوں کہ پیلا رنگ ہی سب سے اچھا ہے۔ اور آپ کو بھی یہی رنگ پسند کرنا چاہئے بلکہ ساری دنیا کو یہ رنگ اپنا لینا چاہیئے۔ تو یہ سراسر زیادتی ہو گی۔ آپ اگر بحث سے بچنا چاہیں اور کہیں ” اچھا چلو مفاہمت کر لیتے ہیں۔ نہ میری نہ تمہاری ۔ بیچ کا راستہ اپناتے ہیں۔ سبز رنگ کو بہترین مان لیتے ہیں۔ کیونکہ یہ نیلے اور پیلے سے مل کر بنتا ہے” ڈاکٹر صاحب یہ سچ تو نہ ہوا نا۔؟آپ نے اختلاف سے بچنے کے لیئے سمجھوتہ کر لیا اور میں اگر اپنی پسند آپ پر نہ لاد سکی تو کم سے کم آپ کو اپنی پسند سے دستبردار ہونے ضرور پر آمادہ کر لیا۔

ہم اپنی رائے، اپنی پسند اور اپنے عقیدے کو سچ مانتے ہیں۔ دوسروں کو اختلاف کا حق بھی دینے کو تیار نہیں۔ تحمل اور برداشت تمام ہوئی اور مقابل پر حاوی ہونے کی کوشش میں حدیں پار ہونے لگیں۔ یہ مان لیا گیا کہ جو جتنا اونچا بولے گا وہی سچا ہو گا۔حالانکہ یہ صاف صاف ایک مینٹل ڈس آرڈر ہے۔ اوور کنٹرولنگ پاور کی خواہش ہے جسے چیخ پکار کر کے سچ ثابت کرنے پر تلے ہوئے ہیں۔ اور یہ وہی تیسرا سچ ہے جو آپ نے بیان کیا ہے۔ اور یہ حد درجہ خطرناک ہے۔ اس کی قیمت پورا معاشرہ چکاتا ہے۔

کشش ثقل، آکسیجن اور ہایئڈروجن یہ ثابت شدہ حقیقتیں ہیں۔ میرا سوال پھر یہ بنتا ہے کہ کیا حقیقت اور سچائی ایک ہی چیز ہے؟ ایک بات آپ کی

درست ہے کہ حقیقت سچائی ہے۔

میں ابھی بھی سیکھنے کے عمل میں ہوں۔ رہنمائی درکار ہے۔ کچھ بساط سے ذیادہ کہہ دیا تو معذرت۔نادرہ۔۔۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ڈاکٹر خالد سہیل کا دوسرا خط

محترمہ نادرہ صاحبہ !

آپ نے جس بات کی طرف اشارہ کیا ہے اس کا تعلق سچ سے نہیں انسانی نفسیات اور شخصیت سے ہے۔ جو لوگ شدت پسند اور fundamentalist شخصیت کا مالک ہوتے ہیں وہ اپنے سچ کو پہلا اور آخری اور حتمی اور مکمل سچ سمجھتے ہیں اور دوسروں پر اپنا سچ تھوپنا چاہتے ہیں اور اگر دوسرا شخص ان کا سچ نہ مانے تو ان پر فتوے لگا کر خوف زدہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔

ان کے مقابلے میں جمہوری سوچ رکھنے والے انسان دوست دوسروں کی رائے کا احترام کرتے ہیں۔ بات مدلل کرتے ہیں اور دوسرے کی رائے پر سنجیدگی سے غور کرتے ہیں۔جیسا کہ میں آپ کے سچ پر غور کر رہا ہوں۔

سائنس کی دنیا میں اختلاف نظریاتی ہوتا ہے ذاتی نہیں اور کسی کا فارمولا یا تھیوری اگر غلظ ثابت ہو جائے تو وہ اپنی رائے بدل دیتا ہے۔ سائنسدان جانتے ہیں کہ ہر عہد اور ہر نسل نئی تحقیق کرتی ہے اور زندگی کے نئے راز جانتی ہے۔فلسفے کی دنیا میں اختلاف الرائے کا خیر مقدم کیا جاتا ہے اور اختلاف الرئے کا مطلب دشمنی نہیں ہوتا۔

سائنس میں سچ کا سفر آئندہ کل کی طرف بڑھتا ہے

مذہب میں سچ کا سفر گزشتہ کل کی طرف لوٹتا ہے

سائنسدان مستقبل کی طرف اور مذہبی انسان ماضی کی طرف دیکھتا ہے۔

سائنس کی دنیا میں نیوٹن کے سچ میں آئن سٹائن کے سچ نے اضافہ کیا اور آئن ستائن کے سچ کو سٹیون ہاکنگ نے آگے بڑھایا۔ سائنس میں نفسیات میں فلسفے میں سچ کا سفر جاری ہے لیکن مذہب کی دنیا میں آخری کتاب بھی آ چکی اور آخری پیغمبر بھی آ چکا۔سب کچھ مکمل ہو چکا۔

میری نگاہ میں سچ کوئی حتمی چیز نہیں۔ ہر انسان اور ہر عہد کے ارتقاکے ساتھ ساتھ سچ کا بھی ارتقا ہوتا ہے۔

جب ہم انسانوں کے سچ کا نفسیاتی مطالعہ کرتے ہیں تو ہمیں اندازہ ہوتا ہے کہ انسانوں کا سچ ان کے تجربے مشاہدے مطالعے اور تجزیے کا رہینِ منت ہے اور وہ انسانی بلوغت اور ارتقا کے ساتھ ساتھ بدلتا ہے پھیلتا ہے آگے بڑھتا ہے اور زندگی کے رازوں سے پردہ اٹھاتا ہے۔

آج کے دور کا سچ ماضی کے سچ سے چند قدم آگے اور مستقبل کے سچ سے چند قدم پیچھے ہے۔

امید ہے میں اپنا موقف قدرے بہتر طور پر واضح کر پایا ہوں

مخلص

خالد سہیل

Advertisements
julia rana solicitors

۳۰ اکتوبر ۲۰۱۹

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply