مشرق یا مغرب اونٹ کس کروٹ بیٹھے گا۔۔زین سہیل وارثی

میرا بھائی کتاب جناب محترمہ فاطمہ جناح نے اپنے بھائی محمد علی جناح کے لئے لکھی تھی، اس کتاب پر آمریت کے دور میں پابندی رہی، لیکن پھر 1987 میں اس کتاب سے چند ایک صفحات جو ملکی اسٹیبلشمنٹ سے متعلق تھے حذف کر کے قائداعظم اکیڈمی نے چھاپی۔

اس کتاب سے ایک واقعہ جو محترمہ فاطمہ نے اپنے بھائی سے متعلق درج کیا وہ کچھ یوں ہے، کہ جب جناب قائداعظم کو 9 سال کی عمر میں سکول میں داخل کروایا گیا تو کچھ عرصہ بعد انکو اس بات کا احساس ہوا کہ کلاس کے باقی طالبعلم ان سے تعلیم میں بہتر ہیں۔ اس لئے انھوں نے اپنے والد جناب پونجا جناح سے گزارش کی کہ وہ مزید تعلیم نہیں حاصل کرنا چاہتے۔ وہ چاہتے ہیں کہ کاروبار میں والد کا ہاتھ بٹائیں۔ والد نے کافی سمجھایا کہ دفتر جانے کہ لئے انھیں ٹائم سے اٹھنا پڑھے گا، کھیل کود کو بھی قربان کرنا پڑے گا وغیرہ وغیرہ۔ کیونکہ محمد علی جناح فیصلہ کر چکے تھے، بالآخر والد مان گئے اور قائداعظم نے دفتر جانا شروع کر دیا۔

کیونکہ محمد علی جناح اتنے پڑھے لکھے نہیں تھے، وہ دفتر کے معاملات میں والد کی کوئی مدد نا کر سکے اور چند دن بعد والد سے درخواست کی کہ میں واپس سکول جانا چاہتا ہوں۔ والد دلی طور پر بہت خوش ہوئے کہ بیٹے نے آخر درست فیصلہ کیا ہے۔

انھوں نے محمد علی جناح کو بلایا اور کہنے لگے زندگی میں سیکھنے کے دو طریقے ہوتے ہیں۔ پہلا طریقہ یہ ہے کہ آپ اپنے بزرگوں کی دانش و تجربے پر بھروسہ کریں اور انکی نصیحت قبول کریں اور انکے مشورے کے عین مطابق عمل کریں۔ قائداعظم نے دوسرے طریقہ پر استفسار کیا کہ وہ کیا ہے، تو انکے والد نے فرمایا کہ آپ خود اپنے راستے پر چلیں، غلطیاں کریں، ان سے سبق سیکھیں اور زندگی کی شدید تکلیف دہ ٹھوکروں اور مشکلات سے زندگی گزارنے کا ڈھنگ سیکھیں اور سمجھیں۔

الحمداللہ من حیث القوم ہم نے قسم کھائی ہے کہ کسی مروجہ طریقہ و تجربے سے فائدہ نہیں اٹھانا اور خود کوئی سبق نہیں حاصل کرنا ہے۔ مغرب نے اس دنیا میں رہنے کے عمرانی معاہدہ کے خدوخال یہ دریافت کئے ہیں کہ اس دنیا میں جمہوریت ہی اصل عمرانی معاہدہ ہے، جس کا چارٹر آئین کی صورت میں تشکیل دیا جاتا ہے۔ جس پر تمام سٹیک ہولڈرز متفق ہوتے ہیں، جن میں سیاست دان، اسٹیبلشمنٹ، عدلیہ، بیوروکریسی اور مذہبی رہنما شامل ہیں۔ یہ سب اس آئین سے پاسداری کا حلف اٹھاتے ہیں، اس عمرانی معاہدہ کی پاسداری میں ہی ان سب کی بقا ہے۔ یہ عمرانی معاہدہ صدارتی و پارلیمانی ہو سکتا ہے، بات بحث طلب ہے۔ ریاست مذہب کی مداخلت کی حدود متعین کرتی ہے، نیز سرکاری طور پر مذہب کا وہ چارٹر بھی تیار کرتی ہے۔ جو معاشرتی زندگی گزارنے کے اصول طے کرتا ہے کہ ملک میں کتنی مذہبی آزادی حاصل ہو گی اور کس طرح مذہب کو فروغ دیا جائے گا۔ کس طرح مبلغین کو پابند کیا جائے گا، کہ وہ تبلیغ کر سکتے ہیں، مگر اشتعال انگیز بیانات سے گریز کریں۔ اگر اشتعال انگیزی کا کوئی ارتکاب کرے گا تو چارٹر کے تحت اسکی سزا بھی متعین کی جاتی ہے۔ معاشرتی طور پر آپ مکمل آزاد ہیں، آپ کوئی بھی تہذیب و تمدن، ثقافت، لباس، زبان اور روایات اختیار کر سکتے ہیں۔ آپ بےحیائی کی کوئی بھی قسم اختیار کر سکتے ہیں، اس کے لئے شہروں میں باقاعدہ جگہ مختص کی گئی ہے، جسکا انتظام قوانین کے تحت چلایا جاتا ہے۔

مشرق میں اس نظام کی مثال سعودی عرب یا ایران ہیں، جہاں ایک طرح کا بادشاہی یا مذہبی نظام رائج ہے۔ ملک میں واضح طور پر تشریح کی گئی ہے کہ اگر آپ طاقتور ہیں تو آپ قانون سے بالاتر ہیں، اگر آپ کمزور ہیں تو تمام قوانین آپ پر لاگو ہوتے ہیں۔ ایک خاص مسلک کو دونوں ممالک میں سرکاری سرپرستی حاصل ہے، اس مسلک کی تبلیغ و ترویج کی مشروط آزادی ہے، جس میں حکومت وقت کی کسی بھی پالیسی کو حرف تنقید بنانا جرم ہے۔ تہذیب و تمدن، ثقافت، لباس، زبان اور روایات عرب یا فارس کی اختیار کی جا سکتی ہیں۔ ان تمام اصولوں کا اطلاق ان لوگوں پر بھی عائد ہوتا ہے جو بیرون ملک سے سعودی عرب یا ایران میں رہائش پذیر ہیں۔ بے حیائی پر دونوں ممالک میں پابندی ہے، لیکن سعودی عرب نے اس کا حل بحرین، مراکو، متحدہ عرب امارات اور مصر کی شکل میں اختیار کیا ہے۔ جبکہ ایران اس کے لئے عراق کو بروئے کار لاتا ہے۔

اب ہم اپنے پیارے ملک پاکستان کی طرف آتے ہیں، جو ابھی تک تعین نہیں کر سکا کہ ماڈل کون سا اپنایا جائے مشرقی ہو جائیں یا مغربی یا کوئی نیا تجربہ کر کے نیا نظام تشکیل دیا جائے۔1977 سے پہلے کا پاکستان مغربی تھا، جس میں آمریت کے ساتھ ساتھ سرخ انقلاب کا تڑکا وقتا فوقتا لگایا جاتا رہا۔ اس کے بعد پاکستان کو مشرقی بنانے کی سر توڑ کوششیں کی مگر یہ تعین نا کر پائے کہ مشرقی سعودی ہو یا ایرانی، نیز جمہوری ہو یا غیر جمہوری۔ نتیجہ یہ ہے کہ آج اس قوم کا نا اپنا کوئی نظام ہے اور نا ہی اپنی کوئی شناخت و اساس۔ یہ ہر وقت دوسروں کی طرف دیکھ رہی ہے کہ کوئی تو ہمارا والی وارث بن جائے، نیا وارث جس کی حکومتی سطح پر ترویج کی جارہی ہے وہ اب ترکی یا چین ہو گا۔ ترک ماڈل مغربی ہے، اب پتا نہیں اس مذہب و آمریت کے ہیضہ میں مبتلا قوم کو ذہنی طور پر ترکوں کی طرح مذہبی و سیاسی طور پر وسیع الذہن کیا جا سکے گا یا دوبارہ سے سرخ انقلاب کے غوطے دیے جائیں گے، دیکھا جائے تو اس ماڈل میں بھی مذہب کا عمل دخل کم ہے، نیز آمریت اس نظام کی روح ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors

ماڈل ترکی ہو گا یا چائنیز یہ تو وقت ہی بتائے گا، البتہ فی الحال حالات بہت نازک صورتحال اختیار کر چکے ہیں۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply