گورکھ ہل سٹیشن تپتے سندھ کا سرد ترین مقام۔۔۔ ذیشان محمود

نظروں سے اوجھل قدرتی حسن سے مالا مال سندھ کا مری۔۔

Advertisements
julia rana solicitors london

برفباری اور سندھ میں؟ سننے والا شاید یقین نہ کرے مگر اس صوبہ سندھ میں ایک مقام ایسابھی ہے جہاں موسم سرما میں حقیقت میں برفباری ہوتی ہے۔ 2008ء میں تو یہاں کی تمام پہاڑیاں ہی برف سے ڈھک گئی تھیں۔گورکھ ہل کا سفر ایک یادگار تجربہ اور سنسنی خیز ایڈونچر ہے۔ اگر آپ ایڈونچر اور نئی جگہیں تلاش کرنے کے شوقین ہیں تو گورکھ ہل آپ کا منتظر ہے۔ یہ مقام ان افراد کو اپنی جانب کھینچتا ہے جو پہاڑوں، بلندو ہموار مقامات اور جانورا ور پودوں کو سراہتے ہوں۔یہاں کا دلفریب منظر سانسیں روک دیتا ہے جبکہ ہر طرف موجود چھوٹی بڑی پہاڑی چوٹیاں اور ہل ٹاپ پر سرسبز میدان اور خطرناک کھائیوں کا نظارہ سحر طاری کردیتا ہے۔
دریافت
گورکھ ہل سٹیشن کو1860ء میں ایک انگریز سیاح جارج نے دریافت کیا تھا۔ مقامی لوگوں کا کہنا ہے کہ ایک ہندوعورت کے نام گرکھ سے بگڑ کر گورکھ بن گیا۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ گورکھ بلوچی زبان کا لفظ ہے جس کے معنی ٹھنڈا مقام ہے۔
محل وقوع
سطح سمندر سے 5688فٹ بلندی پر واقع گورکھ ہل سٹیشن وادی مہران کا واحد بلند تفریحی اور پُرفضا مقام ہے اور یہ کیرتھرکے پہاڑی سلسلے کا حصہ ہے جس نے مغرب سے سندھ کی سرحد کو بلوچستان سے ملا رکھا ہے۔گورکھ ہل سٹیشن کیر تھر کے پہاڑی دامن میں اسی سرحدی پٹی پر واقع ہے۔ گورکھ کے ساتھ بلوچستان کا اہم شہر خضدار ہے اور اسی مقام سے بلوچستان کے خانہ بدوش اور تاجر دادو کے علاقے کاچھو میں داخل ہوتے ہیں۔ گورکھ ہل سٹیشن گلگت کی طرح پہاڑی سلسلوں میں واقع ہے لیکن یہ انتہائی وسیع میدانی رقبہ2500 ایکڑوں پرپھیلا ہوا ہے۔ گورکھ ہل سٹیشن دادو سے 93 کلومیٹر اورکراچی سے 450کلومیٹر دور ہے۔ جامشورو، سیہون اور دادو کے راستے بھی پہنچا جا سکتا ہے۔
موسم
موسم گرما میں یہاں دن کے وقت درجہ حرارت 25 سے 30سینٹی گریڈ اور رات میں یہ درجہ حرارت20سینٹی گریڈ سے 5سینٹی گریڈتک ہو جاتا ہے جبکہ موسم سرما میں یہ درجہ حرارت صفر سے بھی نیچے تک گر جاتا ہے۔
سیاحت
گورکھ ہل سٹیشن تک پہنچنے کے لئے کوئی باضابطہ راستہ نہیں بنایا گیا بلکہ پہاڑیوں کو کاٹ کر غیرمحفوظ راستہ تیار کیا گیا ہے۔ جس پر صرف فوروہیل جیپ ہی سفر کرسکتی ہیں جنہیں صرف مقامی ڈرائیورز ہی چلا سکتے ہیں۔ سیاحتی مقام تک پہنچنے کیلئے 90 کلو میٹر کا راستہ دشوار اور پہاڑیوں پر بنا ہوا ہے جبکہ شہر سے 35کلو میٹر کے بعد کسی بھی جگہ کسی بھی ایمرجنسی کی صورت میں کوئی بھی سٹاپ نہیں بنایا گیا۔
یہاں کی سیاحت کے لئے موسم گرما میں جون اور جولائی جبکہ موسم سرما میں دسمبر اور جنوری بہترین مہینے ہیں۔ جون اورجولائی کے مہینے میں بھی یہاں آپ جیکٹ پہننے پر مجبور ہوں گے۔مقامی افراد مشورہ دیتے ہیں کہ موسم سرما میں چوٹی تک نہیں جانا چاہئے یہاں تک کہ گورکھ کے مختلف حصوں میں مقیم قبائل بھی سردیوں کا وقت میدانوں میں گزارتے ہیں۔یہاں رہائش کا انتظام ہے مگر کیمپنگ سے قدرتی ماحول کا لطف دوبالا ہو جاتا ہے۔ نوتعمیرشدہ ریسٹورنٹ آپ کی مہمان نوازی کیلئے موجود ہے لیکن آپ اپنے ساتھ ٹِن پیک خوراک بھی لے جاسکتے ہیں یا پہاڑی پر اپنا کھانا خود بھی پکا سکتے ہیں۔
آثار قدیمہ
یہ پورا خطہ ماحولیاتی اور آثار قدیمہ کے لحاظ سے بہت اہم ہے، یہاں ایسی سینکڑوں قدیم جگہیں موجود ہیں جن میں خوبصورت قدرتی جھرنوں کے ساتھ ماقبل تاریخ کے غار، فوسلز، بدھ مت کے سٹوپا، پرانے قلعے اور مندر وغیرہ قابل ذکر ہیں۔
کچھو اور کوہستان کے علاقے ان آثار قدیمہ کے گھر سمجھے جاسکتے ہیں، جہاں ماہرین آثار قدیمہ اور تحقیق کی غرض سے آنے والے افراد نے غیر رسمی سیاحت کو فروغ دیا ہے، تاہم اس حوالے سے حکومت کا قابل قدر تعاون نظر نہیں آتا۔
تعمیراتی کام
حکومت کی جانب سے بعض تعمیراتی کام جاری ہیں جن میں سڑکوں اور پلوںکی تعمیر، پانی و بجلی کی فراہمی اور شجرکاری اہم منصوبے ہیں۔جبکہ ہل سٹیشن کے لیے دیگر سہولیات یعنی قدرتی گیس کی فراہمی، موبائل فون ٹاورز، ریسٹورنٹس، ہوٹلز اور چیئرلفٹ وغیرہ اگلے مرحلہ میں مکمل ہوں گے۔گورکھ ایک کامیاب ہل سٹیشن بن کر ہزاروں سیاحوں کو اپنی جانب کھینچ کرملک کے لیے آمدنی اور مقامی افراد کے لئے روزگار کے مواقع فراہم کرنے کا سبب بن سکتا ہے۔
گورکھ ہل سٹیشن سہولیات سے محروم ہونے کے باوجود سندھ سمیت ملک بھر بلکہ بیرون ملک رہنے والے سیاحوں کے لئے بھی کشش رکھتا ہے۔ گورکھ ہل سٹیشن پر سخت گرمی کے دنوں میں بھی برفباری اور ٹھنڈک پڑنے کی وجہ سے یہ سیاحتی مقام لوگوں کی توجہ کا مرکز بنا ہوا ہے۔ کئی نجی کمپنیاں کراچی سے گورکھ ہل سٹیشن تک سیاحوں کو پہنچانے کا انتظام کرتی ہیں جبکہ تمام کمپنیوں کے اخراجات بھی مناسب ہوتے ہیں۔

Facebook Comments

ذیشان محمود
طالب علم اور ایک عام قاری

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply