” ہوپ “فلم ریویو:/ احسن رسول ہاشمی

(حقیقی واقعات پر مبنی فلم)

Advertisements
julia rana solicitors

جنوبی کوریا کے دارالحکومت سیول کے شہر آنسان میں گیارہ دسمبر سن ۲۰۰۸ ء کو ایک چرچ کے بیت الخلا میں آٹھ سالہ بچی نییونگ ( فرضی نام ) کی عصمت دری کا دل خراش واقع پیش آیا ، جس کے باعث پورے ملک میں غم و غصّے کی لہر دوڑ گئی۔ مختلف شہروں میں لاکھوں کی تعداد میں لوگ سڑکوں پر نکل آئے اور احتجاجی مظاہرے کیے گئے۔اس واقع نے کورین نظام عدل میں موجود کمزوریوں کو عیاں کردیا، عوام نے حکومت وقت پر دباؤ ڈالا کہ عصمت دری کے متعلق موجودہ قانون میں ترمیم کی جائے اور مجرم کو سخت سے سخت سزا دی جائے۔ سالوں اس کیس کی پیروی کی گئی اور مجرم کوکیفرِ کردار تک پہنچانے کیلئے دن رات مظاہرے کیے گئے۔ عالمی میڈیا پر اس کیس کو بڑے پیمانے پر کوریج ملی۔ مقامی و عالمی سطح پر اس متعلق بے شمار پروگرامز نشر ہوئے اور دستاویزی فلمیں بنائی گئیں۔ زیر بحث فلم ” ہوپ” انہی حقیقی واقعات پر مبنی ہے۔
حالیہ برسوں کے دوران کورین سینماکو بہت پزیرائی ملی ہے۔ انسانی زندگی کی الجھنوں ، پیچیدہ رویوں اور سماجی مسائل کی حقیقت پسندانہ پیش کاری کورین فلموں کا خاصہ ہے ۔ بونگ اور لی جون-اک جیسے ہدایت کاروں نے اس کا عملی مظاہرہ کیا ہے۔ لی جون-اک نے انسانی نفسیات اور معاشرتی رویوں کو اس مہارت سے پردہ سکرین پر پیش کیا کہ دیکھتے ہوئے محسوس ہوتا ہے جیسے یہ سب کچھ آپ کے سامنے رونما ہو رہا ہے اور آپ ہر کردار کا درد محسوس کر رہے ہیں۔اداکاروں نے اپنے رول کے ساتھ مکمل انصاف کیا، خاص طور پر بچی اور اس کے والد کی اداکاری قابلِ داد ہے۔ لی جون-اک کے اس شاہکار کی عظمت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ اس فلم نے ” میریکل ان سیل نمبر سیون ” جیسی لازوال فلم کو پیچھے چھوڑتے ہوئے سال کی بہترین فلم کا ایوارڈ اپنے نام کیا۔
فلم کی کہانی :
نشے میں دھت ایک ۵۷ سالہ بوڑھے شخص چو ڈو سون نے نییونگ کو سکول جاتے ہوئے اغوا کیا اور گھسیٹتے ہوئےچرچ کے بیت الخلاء میں لے گیا ۔ اس نے بچی کا گلہ دبایا اور اس وقت تک مارتا رہا جب تک وہ ہوش نہ کھو بیٹھی ۔ وہ بار بار اس کی عصمت دری کرتا رہا، بچی پر اس قدر تشدد کیا کہ اس کی آنتیں مقعد سے نکلنا شروع ہوگئیں۔ وہ درد سے چلا رہی تھی لیکن سفاک مجرم نے اس قبیح فعل کو جاری رکھا۔
تقریباً نصف گھنٹے بعد بچی کو جائے وقوعہ پر چھوڑ کر فرار ہو گیا ، بچی نے نیم مردہ حالت میں ایمرجنسی نمبر پر کال کی اور اپنے متعلق آگاہ کیا۔ پولیس جائے وقوعہ پر پہنچی تو اسے بے ہوش پایا۔ نییونگ کو ہسپتال منتقل کیا گیا، معائنے کے دوران پتا چلا کہ اس کی بڑی آنت اور نسوانی اعضاء کے اسی فیصد حصے کو نقصان پہنچا۔ زخموں کی شدت اس قدر تھی کہ ڈاکٹرز کو سرجری کرنا پڑی جس کے باعث اسے “اوسٹومی پاؤچنگ سسٹم ” کا سہارا لینا پڑا۔
دوسری جانب اس کیس کی تفتیش نا تجربہ کار پولیس افسران کے ذریعے کی گئی ، انھوں نے بچی سے گھنٹوں پوچھ گچھ کی۔ میڈیا اور پولیس کی جانب سے بے پناہ جسمانی و نفسیاتی دباؤ کی وجہ سے نییونگ ” پوسٹ ٹرامیٹک اسٹریس ڈس آرڈر ” کا شکار ہو گئی۔ وہ بار بار یہی کہتی ہے کہ ” کیا اس نے کچھ برا کیا ہے جو اس کے ساتھ ایسا ہوا ” خوف کا یہ عالم تھا کہ وہ اپنے باپ سے دوری اختیار کر لیتی ہے۔ یہاں لی جون-اک نے باپ کے جذبات کو جس انداز میں پیش کیا ہے وہ قابلِ تحسین ہے یہ مناظرسینما کی تاریخ کے چند بہترین مناظر میں سے ہیں۔
اس واقع کے چند دن بعد مجرم چو ڈو سون کو گرفتار کر لیا گیا۔استغاثہ کی جانب سے عمر قید کی سزا کے مطالبے کے باوجود عدالت نے مجرم کو نشے کا عادی اور ذہنی بیمار قرار دیتے ہوئے محض بارہ سال قید کی سزا سنائی جس کے بعد پورے ملک میں پھر سے احتجاج شروع ہو گئے،اس متعلق ایک پٹیشن درج ہوئی جس پر تقریباً چھ لاکھ افراد نے دستخط کیے۔ فلم جب نقطہ عروج پر پہنچتی ہے تو ہدایتکار ناظر کو سوچنے پر مجبور کرتا ہے کہ
کیا نییونگ زندگی کی جانب لوٹ پائے گی ؟ کیا مجرم کو سزا ملے گی ؟ یا ذہنی مرض کی آڑ میں اسے رہا کر دیا جائے گا ؟
ایسے جرائم کے محرکات کثیر الجہتی ہو سکتے ہیں لیکن عموماً ایسے جرائم کے مرتکب لوگوں کا بنیادی مقصد بے بس شکار پر ان کی برتری کا دعویٰ ہے، اپنی کمتری کے احساس کی تلافی اور جنسی لذت کی خواہش کا اظہار ہے۔ ڈاکٹر طاہرہ اس متعلق لکھتی ہیں کہ امریکی ماہر نفسیات نکولس گروتھ نے جنسی ریپ کی تین اقسام بیان کی ہیں۔
۱- غصیلا ریپسٹ: ایسے ریپسٹ کا مقصد اپنے شکار کی تذلیل ، بے عزتی اور تکلیف پہنچانا ہے۔ غیظ و غضب اس کی شخصیت کے نمایاں اوصاف ہیں۔ وہ اپنے شکار کو مارتا ہے، اس کے کپڑے پھاڑ دیتا ہےاور بے پناہ قوت کا استعمال کرتا ہے۔ ریپسٹ کی یہ قسم سب سے عام قسم ہے ۔
۲- طاقت و اختیار کی ہوس کا مارا ریپسٹ :
ایسا ریپسٹ کمزور اور خوفزدہ شکار کو زیر کر کے بالادستی قائم کرنے میں لذت محسوس کرتا ہے کہ لرزتا ، کانپتا ، رحم کی بھیک مانگتا بے بس شکار اسے اپنی کمزوریوں کو بھلا دینے میں مدد دیتا ہے۔ ایسی حالت میں عصمت دری کرنے والے کو لگتا ہے کہ اسے ایک اور شکار کو تلاش کرنا چاہیے ، یوں وہ بار بار اس جرم کا ارتکاب کرتا ہے۔
۳- تڑپتا شکار دیکھ کر جنسی حظ اٹھانے والا ریپسٹ:ایسا ریپسٹ اپنے شکار کے نازک اعضاء پر کسی اوزار کی مدد سے تشدد کرتا ہے وہ بے بس و بے اختیار شکار کو درد سے تڑپتا دیکھ کر لطف اندوز ہوتا ہے۔
نییونگ کے کیس میں مذکورہ بالا تینوں اقسام کا استعمال ہوا ، یہی وجہ تھی جس نے پورے جنوبی کوریا کو ہلا کر رکھ دیا کیونکہ اس سے قبل ایسی سفاکیت کا مظاہرہ نہیں کیا گیا تھا۔
پاکستان میں ہر سال لاتعداد بچے جنسی تشدد کا نشانہ بنتے ہیں۔ایک محتاط اندازے کے مطابق پاکستان میں روزانہ کی بنیاد پر بارہ سے زائد بچوں کو جنسی زیادتی کا نشانہ بنایا جاتا ہےجن میں سے بیشتر بچوں کی عمر پندرہ برس سے کم ہوتی ہے۔ ایسے جرائم کے مرتکب افراد نفسیاتی بیماری ” پیڈوفیلیا ڈس آرڈر” کا شکار ہوتے ہیں۔ پیڈو فیلک جرائم کے مرتکب افراد میں متاثرہ کے جاننے والے اور خاندان کے افراد سب سے زیادہ ہوتے ہیں۔
بچوں کو جنسی ہراسانی کے بارے میں آگاہی فراہم کرنا انہیں محفوظ رکھنے میں مدد کرنے کا بہترین طریقہ ہے۔ ہمارے معاشرے میں ایسے موضوعات کو ٹیبو بنا دیا گیا ہے جس پر بات کرنا تو درکنار نام لینا بھی ممنوع ہے۔ سیکس ایجوکیشن ہر عمر کے لوگوں کیلئے ضروری ہے خاص کر بچوں کیلئے تاکہ وہ جنسی ہراسانی سے محفوظ رہ سکیں۔ کوشش کریں کہ اپنے بچوں کو کم عمری میں ہی اس متعلق آگاہی فراہم کریں کہ کوئی بھی انھیں نازیبا جملے ، اشارے یا ان کے پوشیدہ جسمانی اعضاء کو نہیں چھو سکتا اگر کوئی ایسا عمل کرے تو اسے روکیں اور فوری طور پر اپنے والدین کو آگاہ کریں تاکہ ایسے حادثات سے بچا جا سکے۔
حوالہ جات
مجھے فیمنسٹ نہ کہو! از ڈاکٹر طاہرہ کاظمی
چو ڈو سون کیس از جولین کنہا

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply