امت مسلمہ اور عرب حکمران۔۔محمد احمد

ہمارے کچھ کرم فرما عرب حکمرانوں کو مقدس گائے قرار دینے پر مُصر ہیں ان کی دلیل یہ ہے کہ حرمین شریفین کی نگہبانی سمیت بڑے نیک کاموں کی نگرانی میں
مصروفِ عمل ہیں، ساتھ میں وہ حضرات جو احادیث مبارکہ میں عرب کی فضیلتیں وارد ہوئی ہیں ان سے بھی استدلال کرتے ہیں. پہلی بات کا کھوکھلا ہونا واضح ہے، کسی کے گناہ اور جرائم کی شناعت اس سے کم نہیں ہوتی بلکہ بڑھتی ہے کہ حرمین شریفین اور مقامات مقدسہ متولی ہوکر ایسی غلیظ حرکتیں؟ دوسری بات دوستوں کی خدمت میں مؤدبانہ التماس ہے کہ قرآن پاک نے معیارِ فضیلت “تقوی” کو قرار دیا ہے، اس وجہ سے آپ کی دلیل بے وزن اور کمزور ہے کسی جزوی فضلیت کو لے کر کسی کو افضل قرار نہیں دیا جاسکتا اور ویسے بھی فضلیت حکمرانوں کی نہیں بلکہ پوری قوم کی بیان کی گئی ہے،اس وجہ استدلال نامکمل ہے. دوسری بات محسن انسانیت صلی اللہ علیہ وسلم نے حجۃ الوداع کے خطبے کے موقع پر ارشاد فرمایا کہ آج میں نے قومپرستی کے بت کو پاؤں تلے روند دیا ہے، کسی عرب کو عجم پر فوقیت نہیں اور کسی عجمی کو عربی پر فضلیت نہیں، برتری کا پیمانہ تقوی ہے. اس وجہ سے ان حضرات کی اس منطق میں وزن نہیں. اگر دیکھا جائے تو عرب ممالک پر باری تعالی نے انعامات کی کتنی بارش فرمائی ہے، جس کا لازمی نتیجہ یہ تھا شکریہ آوری بجا لائی جاتی لیکن دیکھیں کہ حکمرانوں کی ناشکریاں اور سرکشیاں کتنی بڑھی ہوئی ہیں. اللہ تعالیٰ نے مشرق وسطی کو تمام وسائل سے مالا مال فرمایا ہے، تیل کے ذخائر اور معدنیات کے وسائل کے علاوہ بہت کچھ خیر اس سرزمین کی جھولی میں ڈال دیا گیا ہے. اور وہاں کے حکمرانوں کو بے تحاشا دولت سے نوازا گیا ہے. دینا کے امیر ترین لوگوں میں عرب شہزادوں کا شمار ہوتا ہے. ان نعمتوں اور وسائل کا تقاضا یہ تھا کہ یہ لوگ دفاعی طور پر اپنے آپ کو مضبوط کرتے، ٹیکنالوجی اور سائنس میں خودمختار ہوتے،تجارتی طور پر مستحکم ہوتے لیکن بدقسمتی ایسا نہیں،ان کی ساری دولت اور سرمایہ عیاشی میں تو خوب خرچ ہوا ہے، لیکن تعمیر وترقی میں ذرہ برابر بھی استعمال نہیں ہوا. یہی وجہ ہے کہ کوئی عرب ملک عالمی افق پر اس پوزیشن میں نہیں کہ عالم کفر سے آنکھیں آنکھوں میں ڈال کر بات کرے. بس اپنے آپ کو امریکا اور روس بلاک میں تقسیم کر رکھا ہے کبھی روس سے امیدیں وابستہ کی ہوئی تھی، اب امریکہ بہادر کی طرف جھکاؤ ہے. عالم اسلام پر کتنے مشکل مواقع آئے اور انسانیت کے نام نہاد علمبرداروں کی طرف سے ننگی جارحیت کی گئی لیکن یہ مُہرے لب بَمُہر رہے.
عرب حکمرانوں کی بے حسی پر جتنا ماتم کیا جائے اتنا کم ہے،انہوں نے جتنا عالم اسلام کو نقصان پہنچایا ہے وہ تصور سے باہر ہے. فلسطین خون سے لت پت ہے، وہاں معصوم بچوں کا قتل عام، بیواہوں اور یتیموں کی آہ وپکار ان کے ضمیر کو جھنجھوڑ نہیں سکی اب ہمارے دوست کونسی قیامت بپا ہونے کے منتظر ہیں جو اس کے بعد شاہانِ عرب بیدار ہونگے؟ ان کی کاسہ لیسی اور ناکام حکمرانی کی وجہ سے عراق خون کی نظر ہوگیا، یمن اجڑ گیا، چیھٹیں سعودی عرب تک پہنچ رہی ہیں، مصر ویران ہوگیا، ارضِ مقدسہ شام پر خون کی ہولی جاری ہے، لبنان میں بم دھماکے ہورہے ہیں. کسی نے کبھی سوچا کہ آخر کار یہ یہ سب کچھ کیوں اور کس کے ایما پر ہورہا ہے؟پورا عرب آگ کی طرف جھونک دیا گیا ہے، ہر جگہ خانہ جنگی اور فسادات کا بازار گرم ہے، کہیں ریاستی استحکام نظر نہیں آرہا ہے سب اقتدار بچانے کی خاطر امریکہ کی منتیں کررہے ہیں. فلسطین ان سب عیاش حکمرانوں کے منہ پر زوردار طمانچہ ہے ان مظلوموں کے لیے انہوں نے کیا کچھ جدوجہد کی ہے وہ بھی ہم جانتے ہیں 1967 میں عرب اسرائیل جنگ میں عرب کو بدترین شکست ہوئی اس ہزیمت کے پیچھے بھی ان کے سیاہ کرتوت کار فرما تھے. جذبہ اخوت کو پست پشت ڈال کر جب قوم پرستی کی بنیاد پر جنگ لڑی جا رہی تھی تو شکست تو ہونی تھی. اس دوران ان کی طرف جاہلیت پرمشتمل ایسے ایسے بدبودار نعرے سامنے آئے تھے کہ امت مسلمہ کی وحدت کے خواب کو پارہ پارہ کرکے رکھ دیا. یاسر عرفات، کرنل قذافی اور صدام حسین جیسے مزاحمتی کردار سمجھنے جانے والے بھی کوئی بڑا کارنامہ سرانجام نہیں دے سکے.
اگر سب عرب ملک مل کر مضبوط لائحہ عمل دیتے تو فلسطینی کب کو ظلم سے نجات حاصل کرچکے ہوتے لیکن
اب بجائے مظلوم کی حمایت، مدد ونصرت کے امریکہ کی شاطرانہ چالوں اور مکاریوں کا شکار ہوکر تیزی سے قابض اسرائیل کے وجود کو تسلیم کرکے ان کے ظلم کو مزید ہتھی دی جارہی ہے. اس غلامی کی دوڑ میں سب سے پہلے امارات پیش پیش رہا دوسرے نمبر پر پیش قدمی بحرین نے کی. تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ اب عمان اور سعودی عرب کی باری ہے. خطیبان حرم کو یہ ٹاسک دیا چکا ہے کہ وہ فضا ہموار کریں، تاکہ کسی بھی ممکنہ رد عمل سے بچا جاسکے.
اس ساری خرابی کی بنیادی وجہ مطلق العنان حکمرانی اور ان کا طرز حکومت ہے.ہر ملک میں ایک ہی خاندان عشروں سے مسلط ہے. اظہار رائے کی آزادی پر بری طرح قدغیں ہیں، کلمہ حق بلند کرنے پر بڑی بھاری سزائیں دی جاتی ہیں. جمعہ کے مقدس اجتماعات میں بھی ائمہ کرام مکار شاہوں کی تعریف پر مبنی لکھے ہوئے خطبے پڑھنے پر مجبور ہیں، خلاف ورزی پر سلاخوں کے پیچھے دہکیل دیا جاتا ہے،ربانی اور حقانی علماء کرام وہاں دیوار زنداں میں زندگی بسر کررہے ہیں، قدر و منزلت ان کی ہے جو مداہنت یا کم از کم حق سے سکوت اختیار کرلیں.
عرب حکمرانوں کی نااہلیوں کا نوحہ بڑا طویل ہے، کاش! اگر ان کو اپنی طاقت، قوت، عزت، اخوت کا احساس ہوتا تو آج یہ اس غلامی کی زندگی بسر نہیں کرتے بلکہ بڑی بڑی طاقتیں ان کے سامنے سرنگوں ہوتی. اس سارے ماحول میں اگر کہیں سے امت مسلمہ کی آواز اٹھی بھی ہے تو یہ لوگ رکاوٹ بنیں ہیں، ترکی اور ملائشیا سے سعودی حکمرانوں کو خار اور قدرتی بیر ہے کیونکہ وہ خودداری اور خودمختاری چاہتے ہیں جب کہ یہ غلامی پر خوش ہیں، عجب تماشا ہے کہ عرب جیسی بہادر، غیرت مند قوم کے لیڈر اتنے بزدل کیوں؟
محمد احمد
محمد
عوام میں تو جذبہ حریت کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا ہے، وہ صدائیں بھی بلند کرتے ہیں جس کے نتیجے میں سزائیں بھی بھگتتیں ہیں.
دوستو!
یہی باتیں مجھے کبھی کسی خوش فہمی میں مبتلا نہیں دیتی ساری طاقت اور توانائی کے باوجود جب عرب حکمران مسلم امہ کی طرف داری سے خاموش اور جاری مظالم پرمذمت کے دو بول بھی نہیں بول سکتے ہیں تو ان سے کونسی امیدیں وابستہ کی جاسکتی ہیں.

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply