گٹر کا ڈھکن اور نیا صوبہ۔۔محمد مظفر الدین زمن

مسلسل کئی ماہ سے سیوریج کا پانی راستہ میں کھڑا تالاب کا منظر پیش کررہاتھا۔گٹر کا پانی سیوریج سسٹم کی تباہی کی وجہ سے مارکیٹ اور راستے میں جمع تھا۔
یوسی چیئرمین سے رابطہ کیاکہ سر!سڑک پر گندہ پانی جمع ہے۔بڑی پریشانی ہورہی ہے۔نمازیوں کا گزرنا محال ہے،دوکاندار اپنی دوکانیں نہیں کھول سکتے،خواتین اور بچے اسی گندے پانی سے گزرنے پر مجبورہیں۔مسجد کے سامنے گندے پانی کا تالاب ہونے کی وجہ سے جنازے بھی اسی پانی سے گزاراگیا۔کہنے لگے:بھائی:واٹر اینڈ سیوریج بورڈ کا محکمہ سندھ حکومت کے زیر انتظام ہے،ہمارے پاس گٹر کا ڈھکن کھولنے کا بھی اختیار نہیں ہے۔
ہم نے کہاکہ سر کچرا اٹھوادیں۔کہنے لگے ہماری یوسی میں صرف دو جمعدار ہیں،کہاں کہاں صفائی کروائیں۔
لیکن حقیقت یہ ہے کہ یوسی میں آٹھ جمعداروں کی حاضری لگتی ہے،او رسیلری پوری بنتی ہے۔
سوال یہ کہ بلدیاتی نظام کی تباہی کا ذمہ دار کون ہے؟؟؟
2015 کے بلدیاتی انتخابات میں ایم کیوایم کے 109 چئیرمین منتخب ہوئے۔مئیر کراچی سمیت چار ڈسٹرکٹ میں ایم کیوایم کی حکومت رہی،
مئیر کراچی ان پانچ سالوں میں صرف اختیارات اور وسائل کے نہ ہونے کا رونے روتی رہی۔
سوال یہ ہےکہ ا س عرصہ میں اختیارات اور وسائل کے لیے کیاجدوجہد کی؟؟
کیا کبھی ایم کیوایم نے کراچی کے مسائل کے لیے ان پانچ سالوں میں کبھی کوئی احتجاج ریکارڈ کروایا۔۔
سال 2018 کے عام انتخابات میں اپنی بدترین ناکامی کے بعد رہی سہی چادر پکڑ کر وفاقی حکومت کا حصہ بن گئیں۔
حکومت میں شراکت داری اور تعاون کے بدلہ کیاملا۔۔
آئی ٹی والا وزارتی لولی پاپ کے عوض کراچی کے مسائل کا سودا کیا۔
کچھ عرصہ بعد دیگچی میں کھچڑی پکنے لگی تو جناب خالد مقبول صدیقی صاحب کی جگہ امین الحق کو وزارت دے کر رام کیاگیا۔
لوٹ کے بدھو گھر کو آئے والا محاورہ بھی اس گردش پر نوحہ کناں ہے۔
تحریک انصاف کی حکومت میں شامل ہونا خسرے سے شادی کے مترادف تھا لیکن وزارت کے وسیع تر مفاد میں اپنوں کا ووٹ اپنے کے لیے دیاجلاتے ہوئے انھوں نے کراچی کا ایک بار پھرسودا کیا۔
اگر اختیارات کی بات کی جائے تو موجودہ بلدیاتی نظام کی منظوری اسی پیپلز پارٹی کے ساتھ ایم کیوایم نے 2013 میں اپنے گورنر کی موجودگی میں دستخط کئے۔
خود اپنے ہاتھوں سے شہر کی چابیاں ڈاکوؤں کے حوالے کئے۔
وسائل کی عجب کہانی غضب کرپشن ہے۔
مئیر جو آخری دنوں میں آنسو بہاکر پریس کانفرس کررہے تھے۔انکے قریبی افسران کی کرپشن کی داستانیں زبان زد عام ہے۔
ڈسٹرکٹ چیئرمینز کے خلاف نیب کی فائلیں تیار ہے۔
اس عرصہ میں ہر یوسی کو ہر ماہ پانچ پانچ لاکھ کا فنڈ ملتارہا،ہمارے علاقہ کی مارکیٹ میں کم وبیش ایک ہزار دوکانیں ہیں۔روزانہ پرائیوٹ جمعدار ہر دوکان سے دس روپے وصول کرتاہے۔بقول جمعدار اس رقم کا آدھا حصہ یوسی آفس میں جمع کرانا پڑتاہے۔
گذشتہ سالوں میں پانی کے کنکشن کے لیے فی گھر چالیس سے پچاس ہزار روپے تک وصول کئے۔
عمران خان کے نفیس لوگ کراچی میں کیاگل کھلارہے ہیں۔
ناجانے کیوں حرام کا پیٹ نہیں بھرتا۔۔۔
پچھلے سال ایم این اے خالد مقبول صدیقی صاحب کے فنڈ سے علاقہ میں پانی کی نئی لائن بچھائی گئیں۔
بے حسی کی انتہادیکھیے کہ صرف لائنیں بچھاکر بغیر کنکشن کے اوپر سے مٹی ڈال دیاگیا۔
گھروں میں موجود پرانی لائن میں جوپانی دستیاب تھا اس کو بھی ختم کردیاگیا۔
یہ صرف ایک یوسی کی کہانی ہے۔
نفاست سے بھرے حکمران جواب دے سکتے ہیں کہ کرپشن میں بھیگے نام نہاد ٹھیکدار نے کراچی کے زخموں پر مرہم رکھنے کے لیے حل ڈھونڈا اور کیا ہی بہترین حل پیش کیاجس پرافلاطون بھی نوحہ کناں ہے۔
تمام مسائل کے حل کے لیے نیاصوبہ کے قیام کا نعرہ لگایا۔
گٹر کا ڈھکن سے لے کر پانی کی عدم دستیابی اور سڑکوں کی تباہی سے لے کر کچرے کے ڈھیر تک ہر چیز کے لیے نیا صوبہ کا متعصبانہ نعرہ لگایا۔
عقل و دانش کی گتھیاں سلجانے والے مہ خانے کے مکینوں سے بصد احترام عرض ہے کہ کیا کبھی آئین و قانون کے مطابق اسمبلی کے فلورمیں کوئی قرار داد پیش کی ۔
صوبہ کے قیام کے لیے دوتہائی اکثریت سے بل کی منظوری ضروری ہے۔کیا اسمبلی میں اتنی تعدادہے۔
دوسرا طریقہ لڑائی کا ہے۔
اس کے لیے شہر کراچی کو ایک بار پھر خاک وخون میں نہلایاجائیگا۔شہر کے امن کوخراب کرنے کے لیے لسانیت او رقومیت کے نعرے لگے گے۔
ملک دشمن عناصر کے ایجنڈا پر قومی وحدت کو پارہ پارہ کرکے لاشوں کی سیاست کی جائے گی۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply