• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • پاکستان میں نئے شہر بسانے کے منصوبے اور خستہ حال موجودہ شہر۔۔رضوان اکبر علی

پاکستان میں نئے شہر بسانے کے منصوبے اور خستہ حال موجودہ شہر۔۔رضوان اکبر علی

گزشتہ تین ہفتوں میں ہمارے مرکزی شہر کچھ اس طرح سے خبروں کی زینت بنے؛

1۔ اسلام آباد میں وفاقی وزارت ماحولیاتی تبدیلی غیر قانونی تعمیرات کے خلاف پالیسی بنانے پر غور کر رہی ہے۔ پالیسی کا مقصد اسلام آباد اور اس کے ارد گرد کے علاقوں میں قدرتی ماحول، جانوروں اور پودوں کی قدرتی پناہ گاہوں کو تحفظ فراہم کرنا ہے۔

2۔ وزیر اعظم عمران خان کی چیئرمین این ڈی ایم اے کو کراچی کے برساتی نالوں کی صفائی کی ہدایت۔

3۔ لاہور بارشوں سے زیر آب اور اورینج میٹرو ٹرین کے افتتاح میں تاخیر۔

4۔ پشاور میں بی آر ٹی بس کا آخر کار افتتاح

جہاں یہ ساری خبریں شہری منصوبہ بندی، شہروں کے فطرت پر اثرات اور ماحولیاتی تبدیلیوں کے خستہ حال شہری انفرااسٹرکچر پر بڑھتے دباؤسے جڑی ہیں وہیں دوسری طرف گزشتہ دنوں وزیراعظم عمران خان نے لاہور میں پانچ کھرب لاگت والے راوی ڈویلپمنٹ پروجیکٹ کا افتتاح بھی کیا۔ مزید یہ کہ کراچی میں ڈی ایچ اے فیز 8 کے پاس بنڈل جزیرہ پر نئے شہر کے منصوبے کا ایک انٹرویو میں عندیہ بھی دیاگیا ہے۔

تاہم یہ دونوں منصوبے نئے نہیں ہیں۔ راوی ڈویلپمنٹ پروجیکٹ میں ماحول، نکاسی آب اور صاف پانی کی فراہمی کے اتنے جھول ہیں کہ ق لیگ 2005 اور ن لیگ 2014 میں اس منصوبہ سے پیچھے ہٹ گئی تھی۔ کراچی بنڈل جزیرہ پر جدید شہر کے منصوبے جنرل پرویز مشرف کےزمانے سے بن رہے ہیں۔

2013 میں بحریہ ٹاؤن کے چیئرمین ملک ریاض نے امریکہ کے رئیل اسٹیٹ ٹائکون تھامس کریمر کے ساتھ پاکستان کے پہلے آئی لینڈ سٹی کے لئے 20 بلین ڈالر کے معاہدے پر دستخط کے ساتھ جزیرہ پر دنیا کی سب سے بلند عمارت بنانے کا اعلان کی خبریں دھوم دھام سے شائع کی گئی تھی۔ ابھی بھی بحریہ ٹاؤن آئی لینڈ سٹی کراچی کے کئی پیجز انٹرنیٹ پر مل جائیں گے۔

مگر ان دہائیوں پرانے منصوبوں کے حوالے سے ماہرین ماحولیات شدید تشویش کا اظہار مسلسل کرتے رہے ہیں۔ وزیر اعظم نے ایک ایسے منصوبے کا افتتاح کیا جس کی ماحولیاتی منظوری نہیں دی گئی اور دوسرا ایک فطرت سے بھرپور جزیرہ جہاں جدید شہر صفر سے بسانا ہوگا۔

ایک اچھا شہر کیسا ہوتا ہے اور شہروں میں بہتری کیسے لائی جائے۔ یہ سوال اتنے ہی پرانے ہیں جتنے کہ شہر خود۔ ان سوالوں کا حل کوئی ایک مرکب نہیں جس کو گھولنے سے جوابات مل جائیں۔ نئے جدید شہر آباد کرنا وقت کی اہم ضرورت ضرور ہےمگر کیا ہمارے شہروں کے موجودہ مسائل کا حل نئے شہروں کی تعمیر ہے؟

کیا نئے شہروں کی بنیاد موجودہ شہروں کی خرابی کی جڑوں پر رکھی جائے گی؟

کیا بہتر شہری منصوبہ بندی متبادل ہوسکتی ہے؟

کیا مقامی حکومتوں کو اختیارات اور وسائل دینے سے بہتری لائی جا سکتی ہے؟

کیا نئے شہر میں غریب پرور ہوں گے؟

یہ پی ٹی آئی کے اپنے منشور کے خلاف ہے جس میں انہوں نے بارہا پائیدار ترقی اور موجودہ شہروں کے نظام کو بہتر بنانے اور مقامی حکومتون کو مضبوط بنانے کے وعدے کئے تھے۔

یاد رہے اسلام آباد پاکستان میں پہلا ماسٹر پلان کے تحت بسایا گیا شہر تھا۔ مگر چند ہی دہائیوں کے بعد آج یہ اس نہج پر کھڑا ہے۔ ماحولیاتی ماہرین کے رائے کے خلاف اور فطرت کو تحفظ فراہم کیے بغیر اور طویل مدتی شہری منصوبہ بندی سے عاری نئے شہروں کو بھی انہیں مسائل کا سامنا ہوگاجو آج کراچی، لاہور اور اسلام آباد کو درپیش ہیں،حکومت جو آج اسلام آباد اور کراچی میں قدرتی ماحول کے تحفظ اور نکاسی آب کو بہتر بنانے کے لیے ناجائز تعمیرات کو گرانے کا سوچ رہی ہے اگر آج توجہ نہ دی گئی تو نئے شہر بھی چند دہائیوں بعد اسی صورتحال کا شکار ہوں گےمگر تب تک قدرتی ماحول، جانوروں اور پودوں کی قدرتی پناہ گاہوں کو ناقابل تلافی نقصان پہنچ چکا ہوگا جس کی بحالی ممکن نہیں ہوگی۔

کورونا وائرس ہو یا دوسری آفات، شہر ہی سب سے زیادہ متاثر ہوئے ہیں۔ ورلڈ وائڈ فنڈ کی حالیہ رپورٹ سے ظاہر ہوتا ہے کہ انسان اور وائلڈ لائف کے بڑھتے تعامل سے نئی بیماریوں کا خطرہ پہلے سے کہیں زیادہ بڑھ گیا ہے۔ اس سے عالمی صحت، معیشت اور سلامتی میں خطرات کا زیادہ امکان ہے۔ اگر وائرس اور آفات کی پوری دنیا تک پہنچنے کی قابلیت بڑھتی جارہی ہے تو پھر ہمیں بھی اپنے شہروں کو مستقبل کے لئے تیار کرنا ہوگا۔ یہ ایک مسلسل سیکھنے اور تیار رہنے کا عمل ہے جس میں تھوڑی بھی سستی لاکھوں جانوں کے نقصان کا باعث بنے گی۔

پچھلے بیس سالوں میں پاکستان میں غربت چالیس فیصد سے کم ہو کر چوبیس اعشاریہ تین فیصد رہ گئی تھی۔ تقریباً تئیس ملین لوگوں کو غربت سے نکالا گیا۔ مگر آئی ایم ایف کے تخمینہ کے مطابق کرونا کی وبا سے پاکستان میں غربت پھر سے چالیس فیصد تک بڑھ جانے کا امکان ہے۔ یہ ہماری پچھلی بیس سال کی محنت پر پانی پھیرنے کے مترادف ہے۔ پاکستان کی ترقی ہمارے شہروں میں ہے۔ جب تک ہمارے شہر جدید خطوط پر استوار نہیں ہوں گے، عوام کو آسانیاں اور سہولیات نہیں دیں گے، تب تک ملکی ترقی میں ان کا حصہ کم اور بوجھ زیادہ ہوگا۔

کرونا وائرس کے بعد بدلتی شہری زندگی، ڈیجیٹل انقلاب، کاربن فری، نیٹ زیرو توانائی اور ماحولیاتی تبدیلی کے شہروں پر اثرات کی تیاری کی بات کیا کرنا جب ہمارے شہروں کاسب سے بڑا مسئلہ ہی کچرا، سیوریج اور برساتی پانی کی نکاسی ہو۔ پاکستان میں شہروں کی موجودہ صورتحال کسی سے ڈھکی چھپی نہیں۔ اکنامک انٹیلی جنس یونٹ (ای آئی یو) نے گلوبل لیویلبلٹی انڈیکس 2019 میں کراچی کو دنیا کے 140شہروں میں سے 136ویں نمبرپر رکھا۔ کراچی صرف دمشق، لاگوس، ڈھاکہ اور لیبیا کے طرابلس سے بہتر پایا گیا۔

ملکی ترقی صرف تعمیرات نہیں بلکہ ماحول دوست پائیدار ڈیولپمنٹ ہیں جس میں ماحول پر کم سے کم اثر پڑے۔ ہمیں موجودہ شہروں میں بگڑتے ہوئے انفراسٹرکچر، صاف پانی کی فراہمی، نکاسی آب، ماحولیات پر دباؤ کو بہتر بنانے میں زیادہ سرمایہ کاری کرنے کی ضرورت ہے۔ آبادی کے بڑھتے دباؤ کو کم کرنے کے لئے چھوٹے شہروں میں تعلیم، صحت اور ملازمت کے مواقع پیدا کرنے ہوں گے جس سے بڑے شہری مراکز میں نقل مکانی میں غیر تسلی بخش نمو کو کنٹرول کیا جاسکے۔

ہمیں اربن گورنس اور شہری منصوبہ بندی کی اہمیت کو سمجھناہوگا۔ پانچ لا کھ کی آبادی کے سب شہروں کے ماسٹر پلان جدید خطوط پر بنانے ہوں گے۔ شہری حکومتوں کو وسائل اور اختیارات دینے ہوں گے۔ کمیونٹیز کو فیصلہ سازی میں شامل کرنا ہوگا ، پہلے ان دیرینہ مسائل کا حل نکالنا ہوگا پھر چاہے دو نئے شہر بنائے جائیں یا ضرورت کے تحت بیس شہر آباد کرلئے جائیں ۔ اگر اربن گورنس اور شہری منصوبہ بندی ہماری ترجیحات میں شامل نہیں تو ہم نئے شہر نہیں بلکہ مستقبل کی نئی کچی آبادیاں تعمیر کر رہے ہیں جہاں انسانیت پننے کی بجائے سسکیاں لینے پہ مجبور رہے گی۔

Advertisements
julia rana solicitors london

بشکریہ تجزیات آن لائن

Facebook Comments

مہمان تحریر
وہ تحاریر جو ہمیں نا بھیجی جائیں مگر اچھی ہوں، مہمان تحریر کے طور پہ لگائی جاتی ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply