ایک ادیب کا محرومیت نامہ ۔۔تصنیف حیدر

میں نے اپنے آس پاس اب تک جو ادبی و علمی سماج دیکھا ہے، اس میں بلا کی چالاکی پائی جاتی ہے۔وہ میرے لگائے گئے الزامات، اٹھائے گئے سوالات اور سوچے گئے نکات پر ہمیشہ مجھے ایک ہی طعنہ دیتا آیا ہے کہ آپ چونکہ ہماری طرح مادی و معاشی طور پر کامیاب نہیں ہیں اس لیے آپ ہم سے حسد کرتے ہیں۔بعض احباب بہت صاف لفظوں میں کہتے ہیں کہ تصنیف ایک ذہنی مریض یا محروم شخص ہیں اس لیے ان کی باتوں پر زیادہ دھیان دینے کی ضرورت نہیں ہے۔اس فقرے کا دوسرا حصہ بے حد جاندار اور قابل غور ہے، میری باتوں پر دھیان نہیں دیا جاتا اور میں اسے اپنی سب سے بڑی محرومی سمجھتا ہوں۔اس محرومی سے بھی بڑھ کر جسے میرے فاضل ہم عصر کامیابدوست معاشی یا مادی قسم کی کوئی محرومی سمجھتے ہیں۔یہ بات بتانا بہت ضروری ہے، خاص طور پر اپنے دوستوں کو کہ ان کا مجھے محروم کہنامجھے قطعی طور پر برا نہیں لگتا ۔محرومیت کا تصور آخر کیسے پیدا ہوتا ہے۔آپ یہ کیسے طے کریں گے کہ کسی انسان کے پاس رہنے، کھانے یا پینے کے وہ اسباب نہیں، جو آپ کے پاس ہیں۔یہ سب ہمارے یہاں ایک مستقل قسم کی سرکاری یا نیم سرکاری نوکری سے طے ہوتا ہے۔اور یہ نوکری بغیر رشوت دیے حاصل کرنا انتہائی ناممکن کام ہے۔رشوت سے آپ یہ نہ سمجھیے کہ ہر شخص پیسے دے کر ہندوستان کے اردو شعبوں میں اپنی نوکری بہ آسانی لگواسکتا ہے۔ایسا نہیں ہے، یہ رشوت کا ایک طویل دورانیہ ہے، اس کے لیے کافی مشقت و محنت کرنی پڑتی ہے۔ایک باقاعدہ تربیت حاصل کرنی پڑتی ہے، تب کہیں جاکر آپ اس قابل ہوتے ہیں کہ اپنی محرومیوں کو کم یا بالکل ختم کرسکیں۔

معاشی محرومی کو ختم کرنے کے لیے آپ کا خوشامد، چاپلوسی اور غلط کو صحیح، بھونڈے کو بہتر اور قبیح کو فصیح کہنے کے غیر معمولی ہنر سے متصف ہونا لازمی ہے۔علمی و فکری محرومی کا سرے سے کوئی تصور ہمارے معاشرےمیں ہے ہی نہیں۔ نصاب کی نپی تلی مقدار گھول کر پی لیجیے، امتحانات پاس کرنے کے لیے کچھ رٹو فارمولے آزما لیجیے۔کچھ تراکیب ایسی گڑھ لیجیے جن سے آپ اپنے استاد یا کھویا کے نور نظر بن سکیں۔اس کے بعد صحیح موقع دیکھ کر ایک نہ ایک کرسی آپ کو سونپ دی جائے گی ،اور آپ کی محرومی کا مستقل علاج آپ کی تشریف کے عین نیچے موجود ہوگا، جس پر بیٹھ کر آرام سے توند پھلائی جاسکتی ہے اور طلبا کے مستقبل کو بھاڑ میں جھونک کر ان پر ہاتھ سینکے جاسکتے ہیں۔عقل سے محروم ہونا ہمارے یہاں ذلت کی بات نہیں ہے، یہ ایک نعمت ہے بلکہ اگر آپ تھوڑی بہت عقل رکھتے ہوں اور اسے بوقت ضرورت داڑھ کے نیچے دبانے کی صلاحیت کے مالک بھی ہوں تب تو آپ جیسا قسمت کا دھنی شاید ہی کوئی اور ہوگا۔

میری محرومیت کا تعلق ان باتوں سے اس لیے بھی گہرا ہے کہ میں سمجھتا ہوں کہ ابھی میرے آس پاس کا ماحول اتنا کھوکھلا نہیں ہوا ہے کہ اس میں بات کرنے کی گنجائش بھی موجود نہ ہو۔ابھی اردو کے شعبوں میں نہ سہی، مگر اردو جاننے والے ایک چھوٹے طبقے کا مثبت فکری رویے پر ایمان قائم ہے اور وہ اس گرتے ہوئے درخت کو سنبھالا دینے کی کوشش کردیکھنے کی ہمت پر شاید افسوس بھری حیرت کے ساتھ نہ دیکھے۔ابھی اردو میں اچھے تخلیق کار موجود ہیں اور ہندوستان میں مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے لوگ اردو کے سیکولر رویے اور اس کےوسیع علمی و ادبی خزانے کو قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔میرا محروم رہ جانا اتنے زیادہ دکھ کی بات ویسے بھی نہیں کہ میں اپنی جائداد بنالینے کا ایسا قائل نہیں، مگر اس حد تک تو نظام میں تبدیلی چاہتا ہی ہوں کہ اردو ادب سے تعلق رکھنے والے لوگ ایسی حماقت آمیز باتوں پر ایمان نہ لائیں کہ اردو صرف مسلم جامعات میں ہی محفوظ رہ سکتی ہے، مدرسوں کے بغیر اردو کا وجود ناممکن ہے یا زبان کا رسم الخط تبدیل ہوجانے سے اس کی بقا خطرے میں پڑ سکتی ہے یا رسم الخط ہی زبان کی شناخت ہوا کرتی ہے وغیرہ وغیرہ۔

میں ایسی باتوں پر صحت مند ذہنوں کے ساتھ( خواہ اردو بولنے والے رائٹ ونگ نے ان کےدماغ کے داہنے طرف پھپھوند کیوں نہ بودی ہو)ان معاملات پر بحث کرنا چاہتا ہوں اور جہاں تک ممکن ہو، اردو کو اس کی ادبی و علمی صلابت و سلاست روی کے ساتھ رومن اور دیوناگری رسم الخظوں میں بھی تمام پڑھنے والوں تک پہنچانا چاہتا ہوں۔اردو کے مستقبل کی خالص مذہبی و مسلکی فکر، جس میں اسے ہمیشہ طرح طرح کے شکوک و شبہات کا سامنا کرنا پڑتا ہے، کو نظر انداز کرکے اسے ایک پریکٹیکل رویے کا قائل بنانا چاہتا ہوں۔جس کے ذریعے اردو اخبارات و رسائل میں کام کرنے والے ،اداروں میں موجود مزدور نما رپورٹر اور ادیب اپنے آپ کو لیبر ورک سے ہٹا کر ایک عزت دار امپلائی کی پوزیشن میں ڈھال سکیں۔ان تمام باتوں سے میری محرومیت کا تعلق اتنا گہرا ہے کہ میں خود کو تو مادی ترقی سے محروم رکھ سکتا ہوں، مگر دماغ کو اس خواب سے محروم رکھنا میرے لیے کافی مشکل کام ہے۔

ظاہر ہے کہ جب تک یہ محرومیت طاری رہے گی، میں بھی محروم ہی رہوں گا اور مستقل اس کوشش میں بھی رہوں گا کہ یہ منظر نامہ کہیں سے ذرا سا بدلے۔کئی بار میری ہمت ٹوٹے گی، کئی بار میری سانس اکھڑے گی اور کئی بار میرے ہم عصر فاضل دوستوں کے طعنے کام بھی کرجائیں گے اور میں تھک کر کچھ دیر کے لیے چپ بیٹھ رہوں گا، مگر اس کا مطلب یہ بالکل نہیں ہوگا کہ میں اپنے ارادوں سے باز آگیا ہوں۔انقلاب لانا میرے بس کی بات نہیں۔میں یہ بالکل نہیں چاہتا کہ راتوں رات ایک ایسی تحریک خواب سے حقیقت کی عملی شکل اختیار کرلے ، جس سے میری محرومی دور ہوجائے۔یہ سب جس قدر دھیرے دھیرے بگڑا ہے، اسی طرح دھیرے دھیرے سنوارا جاسکتا ہے۔شعر و شاعری سننے والے اپنا کام کرتے رہیں، کسی کے لیے میرا طرز فکر، میرا طے کردہ معیار گھسا پٹا ہے تو ہو، اور کسی کا طرز فکر یا پسند میرے معیار کے مطابق نہ ہو تو کوئی بات نہیں۔ مگر یہ سب تخلیقی رویوں کے پسند کرنے یا نہ کرنے کی حد تک ٹھیک ہے،مگر جب بات اجتماعی فائدوں اور نقصانات کی ہے تو کتابوں کو پڑھنے، ان پر بات کرنے، نئے مباحث قائم کرنے، نئی چیزوں اور نظریات کے بارے میں غور کرنے اور دنیا کی دوسری زبانوں کے بارے میں جاننے ، ان کے ادبی و علمی سماج کا مطالعہ و مشاہدہ کرنے کی روش کو اختیار کرنے سے گریز کرنا ایک قسم کی ذہنی گراوٹ پیدا کرتا ہے، جسے قبول نہیں کرنا چاہیے۔کم از کم میں نہیں کرتا اور چاہتا ہوں کہ ہر وہ شخص جو میری طرح اس معاملے میں خود کو محروم سمجھتا ہے، اس منظر نامے کے خلاف کچھ کہے یا لکھے۔پھر وہ لاکھ میری طرح آرام طلبی ، اچھے مکان، بہترین کپڑوں اور مہنگی گاڑی کی لالچ میں ہی یہ سب کیوں نہ کررہا ہو۔

یہ تو تھا میری ایک محرومی کا ذکر۔لیکن اکثر میری سوسائٹی مجھے نفسیاتی مریض یا جنسی طور پر ناآسودہ یا محروم شخص کے لقب سے بھی پکارتی ہے۔یعنی کہ میں بستر پر بھی اتنا ہی محروم تصور کیا جاتا ہوں ، جتنا کہ چلتے پھرتے، لکھتے پڑھتے۔ایسا کیوں ہے، اس لیے کیونکہ میں جنسی موضوعات پر لکھتا ہوں، بولتا ہوں اور انہیں ٹیبو قسم کی کوئی چیز نہیں سمجھتا۔اردو میں ایروٹکا کو سنجیدہ صنف کے طور پر متعارف کروانے کی خواہش رکھتا ہوں۔آپ سمجھ سکتے ہیں کہ ایسا آدمی ایک ایسی زبان سے تعلق رکھنے کے باوجود، جسے اس کی بولنے والی نصف سے کئی گنا زائد آبادی ایک خاص قسم کے مذہبی لوگوں کا ورثہ سمجھتی آئی ہے، کیسے معاف کیا جاسکتا ہے۔چنانچہ ہمارے یہاں سوال سے پہلے اور مکالمے سے پیشتر ایسی کسی تحریر کو دیکھتے ہی اس کو مصنف کے غیر فطری ناآسودہ جنسی جذبات سے منسلک کردیا جاتا ہے۔میں اس معاملے میں خود کو اتنا قصور وار تو پاتا ہوں کہ اپنی محرومیوں کی داستانیں ایسے کھلے عام لکھتا پھروں۔مگر سوچتا ہوں کہ سماج میری محرومیوں کا طعنہ دینے کے بجائے میرے منہ پر یہ چیزیں پھینک کر کیوں نہیں مارتا اور قصہ ختم کیوں نہیں کرتا۔

بھائی! آپ کا مسئلہ یہ ہے کہ ایک بے چارہ غیر اطمینان بخش انسان ایسی فحش تحریریں لکھتا پھررہا ہے جس سے سوسائٹی میں بے شرمی کے پھیلنے کا امکان ہے اور آپ اتفاق سے اس کے مرض کی تشخیص بھی کرچکے ہیں، آپ جانتے ہیں کہ وہ محروم ہے مگر اس کی محرومیوں کے تعلق سے کوئی علاج کرنے پر آپ غور نہیں فرمائیں گے اور وہ تو لکھ سکتا ہے، اس نے اپنی محرومیت کابکھان لکھ مارا ہے، اپنی آسودگی کا ایک راستہ تلاش کرلیا ہے، اس کے بارے میں سوچیے جو نہیں لکھ سکتا۔اس کے پاگل ہونے میں کیا کسر رہ جائے گی، اگر وہ بے چارہ محروم ترین آدمی ریپ نہ کرے، بازار میں چلتی ہوئی لڑکیوں کے سینے یا کمر پر ہاتھ نہ پھیرے، آنکھیں نہ سینکے، چھیڑ خانی نہ کرے تو کہاں جائے۔ایسی محروم ترین سوسائٹی پیدا کرنے کے باوجود آپ چاہتے ہیں کہ کوئی انسان خود اپنی محرومی کا آسان ترین نسخہ بھی دریافت نہ کرے۔

Advertisements
julia rana solicitors

اس مضمون میں ظاہر ہے کہ میں نے اپنی دونوں قسم کی محرومیوں کو قبول کیا ہے ۔اگر کوئی شخص مجھے میری خواہش کے مطابق جنسی آسودگیوں کے بہم کرانے پر اپنے مذہبی سماج کے بگڑ جانے کا اندیشہ نہ پال بیٹھے تو یقین جانیے مجھے ایسی ایروٹکا کی ہرگز ضرورت نہ پڑے۔میں یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ ایک پرفیکٹ سماج کہانیوں کے بغیر رہ سکتا ہے مگر اھورے، ناقص اور اتھلے سماجوں کو کہانیوں کی بے حد ضرورت ہے۔کیونکہ کہانیاں دراصل ہماری معاشی ، ذہنی، سماجی اور جنسی ناآسودگیوں کی وہ داستانیں سناتی ہیں، جنہیں آپ کبھی اپنے طعنوں کی آگ سے راکھ نہیں کرسکتے۔میں ناآسودہ رہوں گا یا ناآسودگیاں دیکھوں گا تو انہیں بیان بھی کروں گا، آپ میرے سوالات یامیری کہانیوں کو میری محرومی سمجھتے ہیں تو اس محرومی کو ختم کرنے کا کوئی ایسا راستہ تلاش کیجیے،جہاں مجھ جیسے ذہنی و جنسی مریض پیدا ہی نہ ہوسکیں۔مگر وہ آپ کے بس کی بات نہیں۔

Facebook Comments

سید تصنیف
تصنیف حیدر دلی میں مقیم شاعر، ادیب اور معروف بلاگر ہیں۔ آپ لمبے عرصے سے "ادبی دنیا" نامی بلاگ کے ذریعے اردو کی خدمت کرتے رہے ہیں۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply