سرائیکی صوبہ بننا چاہیے، یہ انتظامی اعتبار سے بے حد ضروری ہے،اس کے علاوہ یہ سرائیکی عوام کے احساس محرومی کو ختم کرنے میں معاون ثابت ہو گا. اس اقدام سے لوگوں کی شکایات کم ہوں گی اور وفاق مضبوط ہو گا. انتظامی امور کی انجام دہی آسان ہو جائے گی. اختیارات کی تقسیم میں توازن قائم ہو گا. چھوٹے صوبوں کا احساس محرومی کم ہو گا. سیاسی جماعتوں کے لیے میدان عمل مزید کھلا ہو گا. سرائیکی وسیب کے لوگوں کو تعلیم و صحت جیسی بنیادی سہولیات کی فراہمی بہتر ہو گی. عام آدمی کا میعار زندگی بہتر ہو گا.
سرائیکی صوبہ کیوں ضروری ہے؟۔۔۔سرائیکی صوبہ اس لیے بھی ضروری ہے کہ سرائیکی وسیب کا فاصلہ پنجاب کے دارالحکومت سے بہت زیادہ ہے. آپ تصور کیجیے کہ ایک بندے کو اپنا کام کروانے کے لیے بہاولپور سے لاہور آنا پڑے تو اس کا کتنا وقت برباد ہو گا اور وہ سفر کی کتنی کٹھن صعوبت سے گذرے گا. جب ریاست بہاولپور کو مرکزی حیثیت حاصل تھی تو وہاں کے عوام کا میعار زندگی بہتر تھا. لیکن پھر لاہور نے بہاولپور سے اس کی حیثیت چھین لی اور بہاولپور پسماندگی کی طرف چلا گیا. حکمرانوں کو چاہیے کہ سرائیکی بیلٹ کے مطالبہ پر توجہ دینے کے علاوہ پنجاب کو جغرافیائی و انتظامی اعتبار سے چار یا پانچ صوبوں میں تقسیم کیا جائے.
ہندوستان ہم سے پہلے اس قسم کی تقسیم کے ذریعے اپنے بہت سے مسائل حل کر چکا ہے لیکن ہمارے حکمران مسائل حل کرنے سے زیادہ مسائل پیدا کرنے کو ترجیح دیتے ہیں. 1951/52 کے انتخابات کے بعد مشرقی پنجاب کی سکھ جماعت اکالی دل نے لسانی/مذہبی بنیادوں پر پنجاب کی تقسیم کا مطالبہ کیا جسے تقریباً ایک عشرے بعد تسلیم کر لیا گیا اور ہندوستان حکومت نے پنجاب کو تین حصوں میں تقسیم کرنے کا دانشمندانہ فیصلہ کیا. ہندی سے ملتی جلتی زبان بولنے والوں کو ہریانہ کی صورت پنجاب سے الگ کیا گیا. پہاڑی زبان بولنے والے علاقوں کو ہما چل پردیش کا حصہ بنا دیا گیا اور پنجابی بولنے والے علاقوں کو پنجاب کا نام دیا گیا. ایسی تقسیم سے کون سی قیامت ٹوٹ پڑی. کون سا آسمان آن گرا. ہاں انڈیا کے اس دانشمندانہ فیصلے کا فائدہ یہ ہوا کہ ہندوستان کا بازوئے شمشیر زن یعنی سکھ قوم دل و جان سے انڈیا کی حفاظت و ترقی کے لیے کمر بستہ ہو گئی.
انڈین وفاق نے اس کامیاب تجربے کے بعد متعدد نئے صوبے بنائے اور انہیں داخلی خود مختاری دے کر بہت سے فوائد سمیٹے. ہمسایہ ملک چین نے بھی صوبوں کو انتظامی اعتبار سے چھوٹا کیا اور گورننس لیول کو تین سے دو یا ایک پر لائے. چینی صوبوں کو دوبارہ سےترتیب دینے کی ایک حکمت عملی اپنائی گئی ہے جس میں ثقافت اور جغرافیہ کو بنیادی حیثیت حاصل ہے اور چین کے ذمہ دار حلقوں کو یقین ہے کہ ثقافتی اور جغرافیائی عوامل کو مد نظر رکھ کر کی جانے والی تقسیم باہمی تصادم سے چھٹکارہ پانے میں مدد دے گی، علاقائی تعاون کو فروغ ملے گا اور انتظامی امور کی انجام دہی میں سہولت پیدا ہو گی. چین کے سب سے بڑے صوبے کی آبادی بھی پنجاب سے کم ہے،آبادی کے لحاظ سے پنجاب کا شمار دنیا کے ساتویں یا غالباً آٹھویں صوبے میں ہوتا ہے اس پر مستزاد کہ دارالحکومت مرکز میں ہونے کی بجائے پنجاب کے آخری کونے پر ہے. ر
اجن پور کا لاہور سے فاصلہ 606 کلو میٹر ہے. بہاولپور کا فاصلہ 443 کلومیٹر, فورٹ عباس 408 اور ڈیرہ غازی خان کا فاصلہ 504 کلومیٹر ہے.ایڈمنسٹریشن کے دوسرے لیول کا دارالحکومت سے اس قدر فاصلہ غیر فطری اور غیر حقیقی ہے. سرائیکی وسیب کا رسم و رواج، ثقافت، رہن سہن، زبان اور تاریخی پس منظر دوسرے پنجاب سے مکمل مختلف ہے یہ کہنے میں عار محسوس نہیں کرتا ہوں کہ سرائیکی بیلٹ ایک الگ تہذیب و ثقافت اور تاریخی پس منظر رکھنے والا علاقہ ہے اس لیے ضرورت اس امر کی ہے کہ سرائیکی بولنے والے اضلاع کو ایک الگ صوبہ کا درجہ دے کر پنجاب اور پاکستان سے بھلائی کی جائے. زمینی حقائق کو مسترد کر کے سرائیکی بیلٹ کو ساتھ رکھنے کی کوشش اس علاقہ کے نوجوانوں میں اضطراب پھیلانے کا باعث بن سکتا ہے جس کے اثرات سست سہی لیکن دیرپا اور خطرناک ہوں گے.
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں