غالبؔ۔۔محمد فیاض

27 دسمبر ، استاذ غالب کا یوم ِ ولادت ۔گوگل  کا  اردو کے عظیم شاعر  مرزا اسد اللہ خاں غالب کو خراج عقیدت۔

ہو گا کوئی ایسا بھی جو غالب کو نہ جانے۔ ایسا شاید ہی ہو کہ کوئی غالب کو نہ جانے  کیونکہ  اردو سے لگاؤ  رکھنے والے کسی بھی انسان پہ غالب کی عظمت ظاهر ہے ،سبھی جانتے ہیں غالبؔ تو غالب ہے۔   یعنی،  ہم سب مانتے اور جانتے ہیں کہ غالب کی اردو شاعری میں ایک منفرد حیثیت ہے ۔غالب نے کم سنی کی ہی  عمر  میں شعر  کہنا شروع کر دیے تھے ۔غالب کی شاعری کا ایک منفرد انداز  ہے ۔

ہیں اور بھی دنیا میں سخنور بہت اچھے

کہتے ہیں  کہ غالبؔ کا  ہے اندازِ بیاں اور

غالب کو اس دور کے شعرا حضرات نے بہت تنقید کا نشانہ بنایا  اور  ان حضرات کی یہ تنقید شروع سے لے کر آخر تک رہی ۔یہ دنیا میں ہوتا آیا ہے کہ ایسا شخص   جس کی سوچ و فکر اور خیال بالکل مختلف ہوں ،جو اپنے ساتھ رہتے لوگوں سے کچھ الگ سوچ و فکر رکھتا ہو   اس  کو  معاشرہ کبھی قبول نہیں کرتا اور اسے   تنقید کا نشانہ ضرور بننا  پڑتا ہے  ۔ دراصل اس  شخص کے ساتھ ایسا   رویہ اس لیے رکھا جاتا ہے کیونکہ وہ     شخص  ایک صدی آگے کی سوچ و فکر رکھتا ہے، وہ ایک صدی  آگے جی رہا ہوتا ہے   ۔    جو اسے دے دیے گئے ہیں یقین ، خیالات یا نظام   وہ انہیں قبول تب  تک نہیں  کرتا ہے جب   تک وہ اس پہ     غور  و فکر نہ کرے،  اس پہ تحقیق نہ  کرے  اور اس پہ سوال نہ  کرے  ۔

“وہ ہر اک بات پر کہناکہ یوں ہوتا تو کیا ہوتا ”

مشہور ادیب رشید احمد صدیقی لکھتے ہیں ، مغل دور نے ہندوستان کو تین چیزیں  دیں  تاج محل، اردو زبان اور  غالب ۔مغلوں نے پہلے تاج محل بنایا اور پھر اردو زبان کی بنیاد ڈالی   یہاں تک کہ تاج محل کی جمالیاتی حقیقت اور اردو کی قوتِ اظہار غالب میں آ کر مکمل ہو گئی ۔

غالب پہ تنقید کرتے ہوئے  کچھ شعرا نے  یہ بھی کہا کہ  ان کا کہا یہ آپ سمجھیں،  تو غالب کو یہاں تک کہنا پڑا  کہ

ہمارے  شعر ہیں اب صرف دل لگی کے اسد

کھلا کہ فائدہ  عرض ہنر میں خاک نہیں ۔

بعض  حضرات  کو تو  غالب سے کچھ اس قدر مخالفت تھی کہ    گالیوں بھرے خط   غالب کو بھیج دیا کرتے تھے  ۔ ایسے ہی ایک خط کا تذکرہ کرتا چلوں ۔ غالب کھانا کھا رہے تھے چھٹی رساں نے ایک لفافہ لا کر دیا ۔ لفافے کی بے ربطی اور کاتب کے نام کی اجنبیت  سے ان کو یقین ہو گیا کہ یہ کسی مخالف کا ویسا ہی گمنام خط ہے جیسے پہلے آ چکے ہیں ۔ لفافہ پیس بیٹھے شاگرد کو دیا کہ اس کو کھول کے پڑھو  ۔ سارا خط فحش اور دشنام سے بھرا ہوا تھا ۔ پوچھا کس کا خط ہے ؟ اور کیا لکھا ہے ؟ شاگر د کو اس کے اظہار  میں تامل ہو ۔ غالب نے فوراً اس کے ہاتھ سے لفافہ چھین کے خود  پڑھا  ۔ اس میں ایک جگہ ماں کی گالی بھی لکھی تھی ۔ مسکرا کر کہنے لگے ” الو کو گالی دینی بھی نہیں آتی ۔ بڈھے یا ادھیڑ عمر کے آدمی کو  بیٹی کی گالی دیتے  ہیں تاکہ  اس کو غیرت آئے ۔ جوان کو جورو کی گالی دیتے ہیں کیونکہ اس کو جورو سے زیادہ تعلق ہوتا ہے ۔ بچے کو ماں کی گالی دیتے ہیں کہ وہ ماں کے برابر کسی سے مانوس نہیں ہوتا ۔ یہ جوکر  جو بہتر برس کے بڈھے کو ماں کی گالی دیتا ہے ، اس سے زیادہ کون بیوقوف ہو گا؟”

یعنی  گالیاں سن کر بھی کچھ نہ کہنا ، چپ رہنا  بڑی شخصیت کی خوبیوں میں سے ایک خوبی ہے ۔

ایک بڑے شاعر  میں یہ خصوصیت ہوتی ہے  اس کا لکھا ہوا  کلام جب کوئی پڑھتا ہے تو    پڑھنے  والے کو ایسا  محسوس ہوتا ہے کہ جیسے لکھنے والا اسے جانتا ہو  اور  اس کے دکھوں کا اندازہ کرتے ہوئے وہ  لکھ رہا ہو ۔ غالب  میں  یہ  خصو صیت  بالکل نمایاں ہے ۔

جب تک اردو زندہ ہے ان کا نام بھی جاوداں رہے گا ۔

Save

Advertisements
julia rana solicitors london

Save

Facebook Comments

محمد فیاض حسرت
تحریر اور شاعری کے فن سے کچھ واقفیت۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply