قیامت اور کیا ہوگی۔۔ایم اے صبور ملک

مکے نے دیا خاکِ جینوا کو یہ پیغام
جمعیت اقوام کہ جمعیت آدم

اپنے دور کے صاحب بصیرت علامہ محمد اقبال کی دور رس نگاہوں نے پہلی جنگ عظیم کے بعد جب یہ بھانپ لیا کہ یہ تنظیم اقوام عالم کے مسائل میز پر حل کرنے میں ناکام ہو جائے گی تو آپ نے قرآن کی زبان میں یہ شعر کہا،اور آج کا کالم بھی اقبال کے اس شعر سے ہی شروع کیا ہے،لیگ آف نیشنز کے بعد جب علامہ کو دُنیا سے رخصت ہوئے ابھی ایک سال ہی گزرا تھا کہ جنگ عظیم دوم شروع ہو گئی اور اُ س جنگ نے جو تباہی مچائی اس پر کسی تبصرے کی ضرورت نہیں،اور پھر جب جنگ کے اختتام پر 24اکتوبر 1945کو اقوام متحدہ کا ادارہ قائم ہوا تو بات پھر بھی نہیں بنی اور دُنیا بھر میں کمزور ممالک طاقتوروں کے آگئے سجدہ ریز رہے اور رہی اقوام متحدہ تو وہ شروع دن سے عالمی طاقتوں کی لونڈی کا کردار ادا کررہی ہے، یعنی وہی بات کہ نہ تو لیگ آف نیشنز اور نہ ہی اقوام متحدہ دونوں وہ کردار نہ ادا کرسکیں جن کے لئے ان کو قائم کیا گیا تھا،اقبال کے نزدیک بظاہر لیگ آف نیشنز بنانے کا مقصد اقوام عالم کے درمیان مسائل کا حل تھا تاکہ جنگ کی تباہ کاریوں سے بچا جاسکے،لیکن عملاًاسکا کوئی فائدہ نہیں ہوا اور یہ تنظیم اپنے مقاصد میں ناکام ہوئی اور دُنیا کو ایک اور بڑی جنگ کی ہولناکی سہنا پڑی۔

جبکہ اس کے مقابلے میں ہمارا دین اسلام وہ واحد نظریہ حیات ہے،جو قوموں کے اتحاد اوریگانگت کی بات کرتا ہے،قرآن ساری انسانیت کو اللہ کا کنبہ قرار دیتا ہے اور اسکامقصد ایک ایسی جنتی زندگی کا حصول ہے جہاں نہ کوئی بھوکا سوئے نہ ننگا،جہاں انفرادیت کے بجائے اجتماعیت کی بات ہو،دوسرے کا دکھ درد اپنا دکھ درد سمجھا جائے،آج دُنیا کے ایک سرے سے لے کر دوسرے سرے تک ایک چھوٹے سے وائرس نے تباہی مچا دی ہے،رنگ،نسل،زبان،اور مذہب سے ماوراء ہو کر کورونا وائرس نے ہر کس وناکس کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے،آدھی سے زیادہ دُنیا لاک ڈاؤن کا شکار ہو چکی ہے،اور قیامت کیا ہو گئی،کہ سائنس وٹیکنالوجی میں انتہائی ترقی یافتہ ممالک ہوں یا مذہبی لحاظ سے مقدس کہلائے جانے والے شہر،ہر سو ویرانی نے ڈیرے ڈال لئے ہیں،انسان ایک دوسرے سے بچ رہا ہے،کھانے پینے کی اشیاء کی قلت ہو رہی ہے،دُنیا بھر کی سٹاک مارکیٹیں مندی کا شکار ہو رہی ہیں،ممالک کے درمیان درآمدات برآمدات رک گئیں،سرحدیں سیل ہو چکی ہیں،ادائیگیوں کا توازن بگڑ رہا ہے،ہمارے جیسے ترقی پذیر اور غریب ملک تو ایک طرف چین،جاپان،فرانس،جرمنی،برطانیہ،روس اور امریکہ جیسے ممالک کی چیں بول گئی ہے۔

دودن قبل راقم کی امریکہ میں مقیم ایک پاکستانی فیملی سے بات ہوئی،بقول ان کے امریکہ لاک ڈاؤن ہو رہا ہے،ہم خود پاکستان آنے کی سوچ رہے ہیں،اور جب میں نے انھیں پاکستان کی صورت حال سے آگاہ کیا تو مزید پریشان ہو گئے،جائیں تو جائیں کہاں،کورونا وائرس کا شکار عالم انسانیت کے دکھ کا مداوا نہ تو اقوام متحدہ کے پاس ہے نہ کسی ترقی یافتہ ملک کے پاس،خود غرضی کی حد تو ملاحظہ کریں،کہ امریکی صدر ٹرمپ نے کورونا وائرس کی ویکسین تیار کرنے والی کمپنی کو ایک بڑی رقم کا لالچ دیا کہ یہ ٹیکہ صرف امریکہ کے لئے تیار کیا جائے،لیکن کمپنی نے انکار کردیا،انسانی بے حسی کی اس سے بڑی اور مثال کیا ہو گئی کہ اس وقت جبکہ عالم انسانیت کررونا وائرس کی وجہ سے مر رہی ہے،اور امریکہ کے صدر اس پر بھی ڈنڈی مارنے سے باز نہ آئے،ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ ٹرمپ دل بڑا کرتے اور کہتے کہ اس ٹیکے یا ویکسین کی تیاری پر ہونے والا تمام خرچ امریکہ برداشت کرے گا،اور یہ ساری دُنیا کے لئے تیار کی جائے،لیکن نہیں صاحب سرمایہ دار ی نظام کے کل پرزوں کی سوچ دو جمع دو چا ر کی ہوتی ہے،یہ لوگ مرنے والے انسانوں کی نعشوں سے بھی اپنے لئے کوئی نہ کوئی فائدہ حاصل کرنے کی سوچتے ہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors london

آج انسانیت کو سوچنا ہوگا کہ ہماری بقاء کس میں ہے،انفرادیت یا اجتماعیت اور اگر اجتماعیت ہو تو کس نظام کے تحت،وہ کون سا رشتہ کون سا لنگر ہے،وہ کون سی چٹان ہے بقول بانی پاکستان قائد اعظم کے جو انسانیت کی جوڑ سکتی ہے وہ رشتہ،وہ چٹان وہ نظام صرف ایک ہے،دین کا نظام،قرآن کا نظام،آج کررونا وائرس کے آگئے سارے مذاہب دم توڑ چکے ہیں،مکہ سے لے کر ویٹی کن سٹی اور بنارس سے لے کر امریکہ کے کلیساؤں تک ہر جگہ ہو کا عالم ہے،کورونا کا کم ازکم انسانیت پر ایک احسان تو ہے کہ اس نے اقوام عالم کو پھر سے ایک امت وحداہ بننے کا سوچنے پر مجبور تو کردیاہے،یہی وہ نظام ہے جوتمام انسانوں کو تمام تر اختلافات بھلا کر ایک ہونے کا درس دیتا ہے،تمام انسانوں کو اتفاق و اتحاد،آپس میں میل جول،رکھ رکھاؤ کے ساتھ جینے کا ڈھنگ سکھلاتا ہے،آج اقوام متحدہ بھی بس کر چکی،بہتری اسی میں ہے کہ اقبال کی زبان میں جمعیت اقوام سے جمعیت آدم کی جانب سفرشروع کیا جائے،یہ جو کورونا وائرس کی وجہ سے ذخیرہ اندوزی اور لوٹ مار مچ گئی ہے اسکا حل بھی قرآن نے بتا دیا کہ تمھاری ضرورت سے زائد جو بھی ہے وہ نظام کو دے دو تاکہ اس سے معاشرے کے ان افراد کی نشوونما اور نگہداشت ہو سکے جو سامان زیست کمانے سے محروم ہیں یا کسی وجہ سے سفر زندگی میں پیچھے رہ گئے ہیں،یہ نہیں کہ ٹرمپ کی طرح صرف امریکہ کی سوچو باقی جائیں بھاڑ میں،اس قیامت سے نکلنا ہے تو عالم انسانیت کوسوچنا ہوگا،وگرنہ اگر یہی حال رہا تو آنے والے دن اس زمین پر بسنے والوں کے لئے کسی عذاب سے کم نہیں ہوں گئے،قدرت کا اشارہ سمجھیں اور جمعیت آدم کا سفر شروع کریں۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply