دیواروں سے سر ٹکرانے کی ضرورت نہیں /گل بخشالوی

ایوبی دور ِ حکمرانی میں معاشرتی اور سیاسی شعور کی آنکھ اس وقت کھلی جب چینی دو آنے مہنگی ہو گئی تھی ۔ عوام سراپا احتجاج تھے ۔ ایوب خان کے وزیر خارجہ ذوالفقار علی بھٹو عوام کی آواز بن کر سڑک پر آئے تھے ، میں اس وقت کھاریاں میں پاک فوج کا سپاہی تھا ، ہم فوجیوں کے لئے بھٹو کا نام لینا بھی جرم تھا ، لیکن دیکھنا تو تھا اس بھٹو کو  ،جو مقبولیت کی بلندیوں پر تھے، مارشل لاءاحکامات سے بے پرواہ  کھاریاں شہر آیا اور جی ٹی روڈ پر بھٹو کے استقبالیوں میں شامل ہو گیا ، موقع ملا اور ذوالفقار علی بھٹو کے عوامی سمندر میں بھٹو سے ہاتھ ملایا ۔ تب سے سیاست کا کھیل دیکھ اور بھگت رہا ہوں   ،شاید ہم اس حقیقت کو تسلیم نہیں کرتے کہ اسلامی جمہوریہ پاکستان میں جمہو ری حکومت جمہوریت کا مذاق اڑانے کے مترادف ہے ہم پاکستا نی تو امر یکی درباریوں کے کھیل کھلونے ہیں ۔ درباری جنہیں چاہتے ہیں وہ حکمران اور ہم پاکستا نی ان کے غلام ہوتے ہیں۔

لیاقت علی خان کی شہادت ایوبی دور ِ حکومت تک تو میں سیاسی نابا لغ تھا لیکن راولپنڈی میں امریکہ کے دھمکی آمیز خط کے لہرانے اوردنیائے اسلام کے مقبول ترین مسلم لیڈر پاکستان کے قائد عوام ذوالفقار علی بھٹوکے خلاف پی این اے کی تحریک کے دوران سیاسی عقل داڑ نکل آئی اور میں نے فوج کو سلام کیا ، جرنیل کی غلامی چھوڑ کر پاکستان کا غلام بن گیا ،اس وقت سے آج تک پاکستان میں درباریوں کی حکمرانی دیکھ ر ہا ہوں، جس بھی کسی عوامی قائد جمہوری حکمران کے پاؤں جمتے ہیں تو درباریوں کو اشار ہ ملتا ہے ،   حکمرانی کے خلاف تحریک اٹھتی ہے لاشیں گرتی ہیں عدلیہ کے وقار پر کالا غلاف چڑھا دیا جاتا ہے رات بارہ بجے عدالت لگتی ہے اور حکمرا ن کا چہرہ تبدیل کر دیا جاتا ہے ۔ اس لئے کہ یہودی پاکستان میں پاکستانیوں کی نہیں غلاموں کی حکمرانی چاہتے ہیں ، امریکی دربار کے ڈسے ہوئے موروثی اور کاروباری سیاست دان بھی جانتے ہیں لیکن ذاتی مفادات کے لئے قو م کے اجتماعی مفاد کا شملہ سر سے اتار کر امریکی درباریوں کے قدموں میں رکھ دیتے ہیں ڈالروں کی بوریوں کے منہ کھل جاتے ہیں اور لوٹوں کے وارے نیارے ہو جاتے ہیں ، آزادی تو بس نام کی ہے محب وطن پاکستانی توامریکی غلاموں کے غلام بھی نہیں کمی کمین ہیں ۔

پاکستان پیپلز پارٹی کی قومی مقبولیت کو کراچی میں ایم کیو ایم اور پنجاب میں اشر افیہ کا پودا لگایا گیا توپیپلز پارٹی کے لوٹے مسلم لیگ ن کی ڈالی سے لٹکنے لگے پیپلز پارٹی سندھ تک محدود ہو کر رہ گئی ،   جب ایم کیو ایم پر بہار آئی تو اس کا شیرازہ بکھیر دیا گیا، اور پاکستان میں زردار ی اور اشرافیہ کی نورا کشتی شروع ہو گئی ،ایک دوسرے کے خلاف غداری اور کرپشن کے مقدمات درج ہونے لگے ۔ عدالتوں کے جج خریدے جانے لگے ، یہ کھیل بھی زیادہ دیر نہیں کھیلا گیا ، اس لئے کہ مسلم لیگ ن قومی سطح پر ثمر بار ہوئی ، تو عدالت سے فیصلہ آ گیا میاں صاحب تم صادق اور امین نہیں ہو عد الت نے ہاتھ دکھایا اور میاں صاحب ہر کسی سے سوال کرنے لگے “مجھے کیوں نکالا” ؟

درباریوں کی نظر تحریک انصاف پر تھی ، پیپلز پارٹی اور اشرافیہ کے لوٹے تحریک ِ انصاف میں شامل ہونے لگے ، لیکن لوٹوں کی بد قسمتی کھلاڑی نے” ایبسلوٹلی ناٹ ” کا نعرہ لگایا اور ماورائے عدالت قتل ہونے والے ذوالفقار علی بھٹو کی طرح پاکستان کے لئے بے لگام ہو گیا ۔ آستین کے سانپ ، آستین سے باہر آئے، درباریوں کی ڈگڈگی بجنے لگی اور سابق چینی چور کی استحکام پارٹی میں شامل ہونے لگے ،لوٹے ناچنے لگے ، جو پاکستان دوست بولا اسے شہید کیا جانے لگا ، زبانیں کٹنے لگیں، اور سیاسی مزدو تماشا  دیکھتے رہ گئے۔

ظلم کے خلاف گھر سے نہیں نکلے ،اس لئے کہ  درباریوں کی آنکھوں میں خون اُترا ہے، موت تو برحق ہے لیکن میاں بیٹیوں اور بہنوں کو مادر زاد ننگا نہیں دیکھ سکتے۔

Advertisements
julia rana solicitors

دیکھتے ہیں کہ حکمرانی کے لئے امریکہ کی نظر اشرافیہ پر ہے یا لوٹا استحکام پارٹی پر، کوئی نہیں جانتا ، جہاں تک تحریک ِ انصاف کے چیئر مین عمران خان کی بات ہے تو ، اگر اس کے ساتھ ذوالفقار علی بھٹو والا سلوک نہیں کیا گیا تو وہ جیل ہی میں رہیں گے، وکلاءکو  دیواروں سے سر ٹکرانے کی ضرورت نہیں۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply