مفاد عامہ اور پاکستانی سیاست۔۔چوہدری عامر عباس ایڈووکیٹ

ایف اے ٹی ایف گرے لسٹ کی تلوار پاکستان کے سر پر لٹک رہی ہے۔ ستائیس نکات پر مشتمل ایک روڈ میپ ہے جس کے مطابق پاکستان نے عمل کرنا ہے اور قانون سازی کرنی ہے تب ہی جا کر پاکستان گرے لسٹ سے نکل پائے گا۔ اسی سلسلے میں گزشتہ روز اینٹی منی لانڈرنگ بل جو سینٹ میں پیش ہوا اپوزیشن اور حکومتی اراکین کی لڑائی کی نذر ہو کر بالآخر مسترد ہو گیا۔ ایسے مفاد عامہ کے بلز کا مسترد ہو جانا بجائے خود پاکستانی سیاست پر ایک سیاہ دھبہ ہے جس میں حکومت اور اپوزیشن دونوں پر برابر کی ذمہ داری عائد ہوتی ہے۔ حکومت اور اپوزیشن اپنے جھگڑوں میں اس حد تک الجھ چکے ہیں کہ قومی اور عوامی مفادات کے متعلق معاملات پس پشت چلے گئے ہیں۔ دوسرا یہ کہ اینٹی منی لانڈرنگ بل جیسے مفاد عامہ کے بل اسمبلی میں لانے سے قبل باقاعدہ طور پر ہوم ورک کیا جاتا ہے۔ ایوان زیریں اور ایوان بالا دونوں ایوانوں کے اپوزیشن اراکین کو اعتماد میں لیا جاتا ہے۔ اگر اپوزیشن کے بل کے متعلق کوئی جائز تحفظات ہیں تو پہلے انھیں دور کر لیا جائے۔ لیکن بدقسمتی سے یہاں اس کا فقدان نظر آیا۔ یہ بل مسترد ہونے کی خبر سن کر مجھے گزشتہ برس کی اسلام آباد ہائی کورٹ میں دائر کی گئی ایک رٹ پٹیشن یاد آ رہی ہے۔ الیکشن کمیشن ممبران کی تقرری حکومت اور اپوزیشن مل کر کرتی ہیں۔ اس سلسلے میں حکومت اور اپوزیشن کی کئی میٹنگز ہوئیں لیکن ناموں پر اتفاق نہ ہو سکا۔ بالآخر ایک اپوزیشن رہنما نے اس سلسلے میں اسلام آباد ہائی کورٹ میں رٹ دائر کر دی۔ اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس نے یہ کہہ کر رٹ خارج کر دی کہ الیکشن کمیشن اراکین کی تقرری پارلیمنٹ کا اختیار ہے۔ جائیں اور اپنے معاملات پارلیمنٹ کے اندر مل بیٹھ کر حل کیجئے۔ اس طرح کے معاملات عدالت میں مت لے کر آیا کریں۔

ایوان کو چلانا حکومت وقت کی ذمہ داری ہوتی ہے۔ اپوزیشن نے تو ہمیشہ حکومت پر تنقید کرنا ہوتی ہے۔ قانون سازی کے وقت اپوزیشن کی ضرورت پڑتی ہے اور اپوزیشن کی طرف سے مزاحمت ہونا بعید از قیاس نہیں۔ یہ جمہوریت کا حسن ہوتا ہے۔ اگر اپوزیشن کو اس قانون سازی پر کوئی تحفظات ہیں تو یہ حکومت کی ذمہ داری ہے کہ کم از کم اپوزیشن کی بات تو سنے اور ان کے جائز تحفظات دور کرے۔ لیکن پاکستان کی سیاسی جماعتوں میں ایک حیرت انگیز بات دیکھنے میں آئی ہے کہ جہاں اپنے سیاسی مفادات کی بات ہو وہاں کوئی بھی قانون سازی تو کیا آئین میں ترمیم بھی منٹوں میں کر لی جاتی ہے بھلے وہ تیسری بار وزیراعظم بننے کی بابت ہی کیوں نہ ہو۔ جہاں ملکی مفادات کے تحفظ کے متعلق قانون سازی کا معاملہ ہو وہاں اپوزیشن کو بھی چاہیے کہ اپنے ذاتی مفادات اور لڑائی جھگڑوں کو بالائے تاک رکھ کر ایسی قانون سازی میں اپنا مثبت اور تعمیری کردار ادا کرے۔ اب یہ حکومت پر بھی منحصر ہوتا ہے کہ وہ وقتاً فوقتاً قانون سازی کرتے ہوئے اپوزیشن کیساتھ کیا طرزِ عمل اپناتی ہے۔ کسی بھی قسم کی قانون سازی کیلئے حکومت کو اپوزیشن کیساتھ ایک ورکنگ ریلیشن شپ بنانا پڑتا ہے اور نہ چاہتے ہوئے بھی ایک میز پر بیٹھنا پڑتا ہے۔ اب اگر حکومت ہر وقت اپوزیشن کو چور اور کرپٹ کہتی رہے تو اپوزیشن کا تعاون حاصل کرنا خاصا مشکل ہو جاتا ہے۔ کسی کو کرپشن یا ایمانداری کا سرٹیفیکیٹ جاری کرنا کسی فرد واحد یا سیاسی جماعت کا کام نہیں ہے۔ کرپشن کی تحقیقات اور سزا کے تعین کیلئے عدالتیں، نیب اور دیگر ملکی ادارے موجود ہیں جو اپنے اپنے دائرہ اختیار میں کام کر رہے ہیں۔ کسی پر محض زبان درازی کے بجائے کرپشن کے مقدمات ان اداروں میں لے کر جائیں اور ان اداروں کو اپنا کام کرنے دیں۔ جہاں تک اینٹی منی لانڈرنگ بل کا تعلق ہے تو غالب امکان ہے کہ اب یہ بل پارلیمنٹ کے جوائنٹ سیشن میں پیش کیا جائے گا اور وہاں سے منظور ہو جائے گا لیکن اس کی منظوری میں تعطل ہماری سیاسی جماعتوں کے طرز عمل پر ایک سوالیہ نشان ہے۔

ایف اے ٹی ایف کی گرے لسٹ سے نکلنے کا معاملہ بہت حساس ہے۔ ملکی معیشت کا دآرومدار اسی قانون سازی پر ہے۔ ہم نے پہلے ہی بہت دیر کر دی ہے۔ حکومت کو ایسا لائحہ عمل طے کرنا ہے کہ ایف اے ٹی ایف کی طرف سے دئیے گئے نکات پر عملدرآمد یقینی بنایا جا سکے تاکہ پاکستان گرے لسٹ سے نکل کر وائٹ میں جا سکے۔ اس طرح نہ صرف پاکستان کو بیرونی قرضے لینے میں آسانی ہو گی بلکہ دیگر ممالک کے ساتھ بہترین تجارتی تعلقات استوار ہوں گے۔ جہاں تک قرض لینے کی بات ہے تو یہ ظاہر ہے ملک پر ایک اضافی بوجھ ہی ہو گا لیکن اس وقت ملک کی جو معاشی صورتحال ہے اس کے پیش نظر قرضوں کے علاوہ کوئی دوسرا راستہ بھی نہیں ہے۔ بدقسمتی سے ہمیں ماضی میں لئے گئے قرض اتارنے کیلئے بھی مزید قرضے لینے پڑ رہے ہیں۔ پی ٹی آئی نے اقتدار میں آتے ہی قرض نہ لینے کا اعلان کیا تھا جس کے لئے کافی عرصہ تک متبادل زرائع پر غور کیا جاتا رہا جس کا کوئی حوصلہ افزا نتیجہ برآمد نہ ہوا۔ بالآخر پاکستان کو آئی ایم ایف کی طرف جانا پڑا اور قرض لینے میں تاخیر کا خمیازہ ملک کو الگ سے بھگتنا پڑا۔

Advertisements
julia rana solicitors london

ایف اے ٹی ایف کی گرے لسٹ سے نکلنا بھی اتنا آسان نہیں ہے۔ اس کیلئے بھی پاکستان کو بین الاقوامی سطح پر ایک مضبوط لابنگ کرنی پڑے گی کیونکہ بھارت کبھی نہیں چاہے گا کہ پاکستان ایف اے ٹی ایف کی گرے لسٹ سے نکلے بلکہ وہ پاکستان کو بلیک لسٹ کرنے کیلئے ایڑی چوٹی کا زور لگائے ہوئے ہے۔ پاکستان کیلئے واحد حوصلہ افزا بات یہ ہے کہ ایف اے ٹی ایف کی صدارت چین کے پاس ہے۔

Facebook Comments

چوہدری عامر عباس
کالم نگار چوہدری عامر عباس نے ایف سی کالج سے گریچوائشن کیا. پنجاب یونیورسٹی سے ایل ایل بی کی ڈگری حاصل کرنے کے بعد ماس کمیونیکیشن میں ماسٹرز کی ڈگری حاصل کی. آج کل ہائی کورٹ لاہور میں وکالت کے شعبہ سے وابستہ ہیں. سماجی موضوعات اور حالات حاضرہ پر لکھتے ہیں".

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply