مولانا زکریا کاندھلوی اور فتنہ مودودیت۔۔غزالی فاروقی

میں کافی عرصے سے مولانا مودودیؒ پہ کیے جانے والے اعتراضات کا مطالعہ کر رہا تھا۔ اس دوران شیخ الحدیث زکریا کاندھلوی کی کتاب ’فتنہ مودودیت‘ نظر سے گزری۔ اس کتاب کا مطالعہ کرنے کے بعد یہ ادراک ہوا کہ مصنف نے دیانتداری کا مظاہرہ نہیں کیا بلکہ حسد اور تعصب سے کام لیا ہے۔ یعنی جیسے جیسے ہم یہ کتاب پڑھتے جاتے، یہ بات ہم پر واضح ہوتی جاتی کے شیخ الحدیث نے مولانا مودودیؒ کے ساتھ بڑی زیادتی کی ہے۔
یہ بات ہم جذبات میں آکر نہیں کہہ رہے، بلکہ ہمارے ذہن میں شیخ الحدیث کی جو عظمت بھری تصویر تھی ہم اس کی بنیاد پر کافی دیر تک اس خیال میں مبتلا رہے کہ یہ کتاب جناب شیخ الحدیث مولانا زکریا کاندھلویؒ نے قلم بند نہیں کی ہوگی۔ یہ وہی کتاب ہے جس کی بنا پر تبلیغی جماعت والے مولانا مودودی کی تکفیر کرتے، انہیں گمراہ اور یہودی کہتے ہیں۔ سید ابوالحسن علی ندوی کا مولانا مودودی کا ساتھ چھوڑنے کی بڑی وجہ زکریا صاحب ہی تھے۔ مولانا حسین احمد مدنی نے بھی مولانا مودودی کے خلاف اپنا جھوٹ پر مبنی فتویٰ زکریا کاندھلوی کے مفروضوں کی بنا پر جڑا تھا۔ پھر ہوا یہ کہ شخصی تقلید کرنے والوں نے فتووں کی بھرمار کردی۔ بات یہاں تک پہنچی کے دیوبند سے بانی ٔ دیوبند مولانا قاسم نانوتویؒ کے خلاف بھی کفر کا فتویٰ نکل گیا۔ ہوا کچھ یوں کہ کسی شخص نے دیوبند کے مفتیانِ کرام کی خدمت میں کچھ سطور بھیجیں، اور ان پر علمائے دیوبند کی رائے مانگی۔ تو دو مفتیان کرام اس وہم میں پڑ گئے کہ ہونا ہو یہ مولانا مودودی یا ان کے کسی ساتھی ہی کی تحریر ہے۔ پھر انہوں نے نہ دائیں دیکھا نہ بائیں، جھٹ سے زور دار کفر کا فتویٰ جڑ دیا۔ بعد میں معلوم ہوا کہ یہ تو مولانا قاسم نانوتویؒ، بانی دیوبند کی تحریر تھی۔ (اور اللہ جانتا ہے کے مولانا قاسم نانوتویؒ اور مولانا مودودی کی ذات پہ ایسے جاہل مفتیوں کے فتووں سے رتی برابر بھی فرق نہیں پڑتا۔ اللہ ان کے جنت میں مقام بلند کرے آمین)۔ یہ سب بتانے کی وجہ صرف یہ ہے کہ مولانا زکریا کاندھلوی اور ان جیسے دیگر لوگوں کی تحریروں نے کیسا فتنہ برپا کیا۔ ہم کافی دیر تک مولانا زکریا کاندھلوی کی کتاب کی یہ تاویل کرتے رہے کہ کسی جاہل مفسد نے شیخ الحدیث مولانا زکریا کاندھلوی کو مولانا مودودی کے بارے میں غلط اطلاع دی ہوگی جس کی بنا پر شیخ الحدیث نے یہ تصنیف قلم بند کی۔ جیسے جیسے مطالعہ بڑھتا گیا اور شیخ الحدیث کے کچھ مکتوبات کا جائزہ لیا تو معلوم ہوا کہ ہماری یہ تاویل اور وہم غلط ہے۔
شیخ الحدیث مولانا زکریا کا اپنے مکتوب میں یہ دعویٰ ہے کہ انہوں نے خود مولانا مودودی کی تصانیف کا مطالعہ کیا ہے اور پھر نتائج اخذ کیے ہیں۔ اور اپنے ایک مکتوب میں وہ یہ اعتراف کرتے ہوئے نظر آتے ہیں کہ کیسے ان کی تحریر کی بنا پر علماء، خاص طور پر مولانا حسین احمد مدنی مولانا مودودی اور جماعت اسلامی کی جوش و خروش سے مخالفت کر رہے ہیں اور انہیں گمراہ اور نجانے کیا کیا ٹھیراتے رہے ہیں۔ اِنَّا ِللّہِ وَاِنَّااِلَیہِ رٰجِعونَ۔
آئیں ملاحظہ فرمائیں کہ مولانا زکریا کاندھلوی کے مفروضوں کی کیا حیثیت ہے۔ ہم صرف ایک الزام کا جائزہ لیں گے جو مولانا زکریا کاندھلوی کے نزدیک مولانا مودودی کے لٹریچر کی سب سے زیادہ ’’سخت اور خطرناک‘‘ چیز ہے۔ اس ایک اعتراض کے جواب سے ہی قارئین کو پتا چل جائے گا کہ مولانا زکریا کے دیگر مفروضوں کی کیا علمی حیثیت ہے۔ مولانا زکریا کاندھلوی کا پہلا اور سب سے بڑا اعتراض ملاحظہ فرمائیں، لکھتے ہیں: ’’میری نگاہ میں لٹریچر میں سب سے زیادہ سخت اور خطرناک چیز مودودی صاحب کی قرآن پاک کی تفسیر بالرائے ہے جس کے متعلق وہ خود اس کا اعتراف کرتے ہیں کہ انہوں نے اس میں منقولات کی طرف التفات کی ضرورت نہیں سمجھی‘‘۔ وہ اپنی تفسیر میں لکھتے ہیں۔’’اس تفسیر میں جس چیز کی میں نے کوشش کی ہے، وہ یہ ہے کہ قرآن پڑھ کر جو مفہوم میری سمجھ میں آتا ہے اور جو اثر میرے قلب پر پڑتا ہے۔ حتیٰ المکان جوں کا تو اپنی زبان میں منتقل کر دوں‘‘۔
اس اقتباس سے شیخ الحدیث مولانا زکریا نے جو نتیجہ نکالا ہے وہ یہ ہے کہ مولانا مودودی صاحب منقولات کو چھوڑ کر تفسیر بالرائے کا راستہ اختیار کرتے ہیں۔ جن لوگوں نے مولانا مودودی کی تفہیم القرآن کا سرسری طور پر بھی مطالعہ کیا ہے وہ تو پہلے سے جانتے ہیں کے تفسیر بالرائے کا جو الزام لگایا گیا ہے اس الزام سے مولانا مودودی کی ذات بالکل پاک ہے۔
شیخ الحدیث عالمِ دین تھے ان کو یہ بات بھی معلوم ہونی چاہیے تھی کہ تفسیر بالرائے کا مطلب منقولات کی نفی نہیں بلکہ جو جی میں آئے وہ تفسیر کردینے کے ہیں۔ بہرحال اب ہم قارئین کے سامنے مولانا مودودی کے مضمون کا مکمل اقتباس پیش کرتے ہیں جس کا ایک چھوٹا سا ٹکڑا نکال کر مولانا زکریا کاندھلوی نے دلیل کے طور پر استعمال کیا ہے۔ مکمل اقتباس ملاحظہ کیجیے مولانا مودودی اصل میں کیا فرما رہے ہیں: ’’اس اشاعت سے ان صفحات میں قرآن مجید کے ترجمے اور تفسیر کا ایک سلسلہ شروع ہورہا ہے۔ ترجمہ جس نوعیت کا ہے اس کے لحاظ سے اسے ترجمہ کہنے کے بجائے ترجمانی کہنا زیادہ صحیح ہوگا۔ اس میں جس چیز کی کوشش میں نے کی ہے وہ یہ ہے کہ قرآن کو پڑھ کر جومفہوم میری سمجھ میں آتا ہے۔ اسے حتیٰ الامکان جوں کا توں اپنی زبان میں منتقل کردوں۔ اسلوبِ بیان میں ترجمہ پن نہ ہو۔ عربی میں جو کلام نازل ہوا ہے اس کی ترجمانی جہاں تک ممکن ہے اردوئے مبین میں ہو۔ اصل کلام کا فطری ربط آپ سے آپ ترجمہ میں نمایاں ہوتا جائے اور کلام الٰہی کے وقار، زور بیان اور موقع و محل کے مطابق بدلتے ہوئے لہجے اور اسلوب کو بھی جہاں تک بس چلے اردو میں منتقل کرنے کی کوشش کی جائے۔ ان اغراض کے لیے لفظی ترجمہ کی پابندیوں سے نکلنا بہرحال ناگزیر تھا۔ اس لیے میں نے ترجمہ کے بجائے ترجمانی کا ڈھنگ اختیار کیا۔ انتہائی ممکن احتیاط کے ساتھ میں نے اس امر کا التزام کیا ہے کہ اصل عبارت کے الفاظ جس قدر مفہوم کے متحمّل ہوں اس سے تجاوز نہ ہونے پائے‘‘۔
قارئین اب خود فیصلہ کرلیں کہ اگر اس کو خیانت کا نام نہ دیں تو اور کیا کہیں۔ دیکھا کیسے جو بات مولانا مودودی نے ترجمہ کے بارے میں فرمائی، مولانا الیاس نے اس کا چھوٹا سا حصہ نکال کر یہ باور کرانے کی کوشش کی ہے کہ مولانا مودودی تفسیر بالرائے جیسی گمراہی میں مبتلا ہیں۔ اور اوپر سے یہ جو مولانا مودودی کے اقتباس میں لفظ ’تفسیر‘ لگا دیا وہ تحریف نہیں تو اور کیا ہے؟ (آپ دیکھیں گے کہ مولانا زکریا کی کتاب کے بعد کے ایڈیشن میں سے ایڈیٹر نے لفظ ’تفسیر‘ نکال دیا۔ بہرحال پھر بھی مطلب وہی رہتا ہے)۔
ہمارے مسئلہ یہ نہیں کہ مولانا الیاس کاندھلوی، اللہ ان کی غلطیوں کو معاف کرے اور جنت میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے، نے یہ اور دیگر غلط باتیں مولانا مودودی سے منسوب کیں۔ اصل بات یہ ہے کہ ان سارے الزامات کا بہت بار جواب دیا جا چکا ہے، مگر پھر بھی مفتی عبدالوحید قریشی اور الیاس گھمن جیسے علمائے کرام اور مبلغین اکابر پرستی کی وجہ سے ان الزامات کو مسلسل دہراتے رہتے ہیں اور لوگوں کو گمراہ کرتے ہیں۔

Facebook Comments

مہمان تحریر
وہ تحاریر جو ہمیں نا بھیجی جائیں مگر اچھی ہوں، مہمان تحریر کے طور پہ لگائی جاتی ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply