میاں صاحب کی شرارتی فوٹو۔۔ذیشان نور خلجی

پلیز ! میری ایک تصویر تو بنا دیں۔ نہیں، یہ ٹھیک نہیں آئی۔ میں موبائل کے فرنٹ کیمرے سے خود ہی بنا لیتا ہوں۔ اور اب تصویر کے کچھ لوازمات بھی سن لیں۔ آنکھیں اوپر کو چڑھی ہوئیں کہ جیسے محترم عزرائیل آئے ہی چاہتے ہیں۔ ہونٹ ذرا سے سکیڑے ہوئے کہ پھونکنی سے آگ کو ہوا دینا مقصود ہو۔ اور ہاتھ کی دو انگلیوں سے یوں وکٹری کا نشان بناتے ہوئے کہ جیسے عمران خان کے جلسے میں ناچ ناچ کے انہوں نے ہی نیا پاکستان بنایا تھا۔ لیں جی، ایک خوب صورت سی سیلفی تیار ہو چکی ہے۔ لیکن یہ کیا؟ ڈنگا سدھا منہ بنا کے، پھر اس پر ٹاکی شاکی مار کے، بالوں میں تیل شیل لگا کے، اوپر کنگی پٹی بٹھا کے، پھر بھی کسی نے لائک تو دور کی بات فٹے منہ بھی نہیں کہا۔

اور ایک یہ صاحب ہیں۔ نہ تو انہیں منہ بنانے کی ضرورت پڑتی ہے کہ ان کو دیکھ کر شریکوں کا جو منہ بن جاتا ہے تو بس پھر یہ تجاہل عارفانہ سے ہی کام چلاتے ہیں۔ اور نہ انہیں کوئی پوز بنانے کی ضرورت پڑتی ہے کہ ایک بوڑھا اوپر سے بیمار، سو جسم میں دکھانے کو بچا ہی کیا ہے جو پوزنگ کی نوبت آئے۔ اور نہ ہی یہ کوئی خاص تیاری شیاری کرتے ہیں فوٹو شوٹنگ کے لئے ۔ بس ایویں منہ اٹھایا اور ایک عدد تصویر بنوا لی۔ وہ بھی کبھی کافی شاپ پہ، تو کبھی کسی ولایتی چائے کے کھوکھے پر۔ اب چونکہ دور دیس میں مقیم ہیں تو کبھی جگہ نہیں بھی بن پڑتی، لیکن یہ پھر بھی باز نہیں آتے بس یونہی سرِراہ چلتے چلتے شرارت کر جاتے ہیں۔ اب آپ پوچھیں گے یہ تصویر کھنچوانے اور شرارت میں کیا تعلق ہے؟ تو بھائی میرے صبر کیجئے نا اسی طرف کو آ رہا ہوں۔ پہلے مجھے بات تو پوری کر لینے دیں۔
اس دفعہ تو شاید یہ موقعے ہی کی تلاش میں تھے۔ ادھر برسات شروع ہوئی اور ادھر ہم پاکستانی سر چھپانے کو جگہ ڈھونڈنے لگے۔ جب کہ شہر کے شہر پانی و پانی ہو گئے یہ الگ بات کہ حکومت کے ڈوب مرنے کو چلو بھر پانی پھر بھی نہ مل سکا۔ اور یہ صاحب ایک دفعہ پھر سے چھتری لئے کیمرے کے سامنے آن موجود ہوئے۔ اب ہوتا کیا ہے؟ جب بھی یہ ادھر سے کوئی تازہ تصویر بنا کے بھیجتے ہیں ادھر ان کے شریکوں کو ابرار الحق کے گانے ” شریکاں نوں اگ لگ گئی مٹھی مٹھی” کی طرز پر دھیمی آنچ کی آگ لگ جاتی ہے۔ جب کہ ماہرین کا کہنا ہے درون خانہ کہانی کچھ اور ہے جنہیں آپ دھیمی آنچ سمجھ رہے ہوتے ہیں وہ دراصل تسلی والے بھانبھڑ بل رہے ہوتے ہیں۔

بھئی آپس کی بات ہے میں تو ان کو مان گیا ہوں۔ انہیں تو شریکوں کو جلانے کا ملکہ حاصل ہے کہ جب جب اپنی بے ضرر سی تصویر بھیجتے ہیں تب تب مخالفین کو وہاں وہاں مرچیں لگتی ہیں جہاں جہاں سب سے زیادہ تکلیف محسوس ہوتی ہے۔ آخر تین بار وزیر اعظم منتخب ہونا کوئی مخول تھوڑی ہے۔

دوستو ! ان کے مخالفین کا مدعا ہے کہ یہ تصویر بنا کے بھیجتے ہیں تو اس سے ان کا جھوٹ سامنے آتا ہے کہ یہ بیمار نہیں ہیں۔ بندہ پوچھے ! تو آپ نے انہیں بغرض علاج بیرون ملک آخر بھیجا ہی کیوں تھا؟ جب حکومت آپ کی، ادارے سارے ایک پیج پر، تو پھر کیا آپ کا چکی میں ہاتھ آ گیا تھا جو انہیں باہر کا ٹکٹ کٹا دیا۔ اب جو ٹکٹ کٹا دیا ہے تو پھر بھگتیں۔

ویسے آپس کی بات ہے جب ان کی ایک تصویر سے اہل سیاست میں اتھل پتھل مچ جاتی ہے تو یوں محسوس ہوتا ہے جیسے ان کی پارٹی کا نعرہ درست ہو کہ نواز شریف دلوں کے وزیر اعظم ہیں۔
جب کہ دوسری طرف ہمارے اصلی والے وزیر اعظم ہیں جن کی حرکتیں چیخ چیخ کر فرما رہی ہیں میں عمران خان ابھی بھی اپوزیشن لیڈر ہی ہوں۔ اور مجھے ابھی بھی 2014ء کے دھرنے میں ہی بیٹھا ہوا سمجھیں۔

Advertisements
julia rana solicitors london

خیر ! مجھے خان صاحب سے دلی ہمدردی ہے اور اس میں ان کا بھی کوئی قصور نہیں کہ جب سب اختیارات ہی کسی دیکھی ان دیکھی قوت کے پاس ہیں تو پھر ان کا رونا تو بنتا ہے نا۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply