لہو سے ٹپکتے آنسو۔۔ملک جان کےڈی

کہتے ہیں کہ مزاحمت زندگی ہے ، جو لوگ مزاحمت نہیں کرتے اس کا واضح مقصد یہ ہے کہ وہ لوگ غلامی پسندانہ سماج کو قبول کرنا چاہتے ہیں ، یہ وہ معاشرہ   قبول کرنا چاہ رہے ہیں جہاں   کوئی بھی محفوظ نہیں  نہ وہاں ماں کی عزت  رکھی جاتی ہے نہ    باپ کی ، سب کی عزت داؤ  پہ لگی  ہوتی  ہے ۔ میں کہتا ہوں کہ ظلم کے خلاف سارے لوگ یکجا و   ہم آواز ہو کے احتجاج کریں اور  ظالم  کو یہ باور کروائیں کہ ہم  یہ ظلم برداشت نہیں کریں  گے ۔

محسن علی کہتے ہیں ”ہم سر پر کفن باندھ کر نہیں نکلے نہ ہمیں جنت میں جانے کی اتنی جلدی ہے ۔ ہم زندہ رہنا چاہتے ہیں۔ہمارے بچوں کو اپنے شاندار مستقبل کے خواب پورے کرنے ہیں۔ ہمیں دشمن کا بچہ ہی سمجھ کر پڑھنے اور زندہ رہنے دیں ۔”

کے بی فراق صاحب لکھتے ہیں ” حیات بلوچ نے  لفظ  کے  ارتباط  میں   زندگی کرنے کا سلیقہ تراشا لیکن  تاریک  سرشت  نے  اس روشن چراغ کی روشنی سلب کرکے بلوچ طلباء میں  ریاست  کی بابت یہ سوچنا بجا ٹھہرا کہ بلوچ  مائیں  بچوں کو علم سے سرفراز کرنے کے لیے سب کچھ نچھاور  کرتی  ہیں لیکن ظلم کرنے والے ان کے لختِ جگر کی  سانسیں  سلب  کر  جاتے  ہیں۔جبکہ روشنی کا سفر کہیں رُکا نہیں اور نہ ہی بلوچستان میں رُکنےکی صورت ہے۔اس لیے اندھیرے کی سرشت میں ہمیشہ شکست رہی ہے۔”

اس تناضر میں اسد  عزیز لکھتے ہیں ”یار حیات بلوچ!مجھے آج تک نوحہ گری یا ماتم کرنا اچھا نہیں لگا۔ ظلم ہے تو اس کے خلاف لڑنا زندگی! یہی سیکھا اور سکھایا۔ آپ کا چہرہ آپ کی امیدوں بھری معصوم جستجو کہ،  پڑھ لکھ کر کچھ بنوں گا، میری روح میں ایک ایسا عکس بنا گیا ہے کہ جسے مٹانا نا ممکن ہو چکا ہے۔
بہت ظلم بہت بدمعاشی ہو رہی  ہے ہر طرف ،ہر روز۔ اور جانتا بھی  ہوں کہ کیوں ہورہا  ہے یہ سب،کون کر رہا  ہے ، انسانی زندگی پر اتنا بھیانک وقت شاید کبھی آیا ہو”۔

چی گویرا نے کہا تھا کہ دنیا بھر کے تمام اثاثے بھی ایک انسانی جان کا مول نہیں ہو سکتے! لیکن اثاثوں کو جان سمجھنے والے ہمارے حکمران اور ان کے ادارے انسانی جان کو نہ اہمیت کل دیتے تھے نہ آج ،نہ آنے والے دنوں میں کہ یہی ان کے نظام کی اساس اور ان کا حقیقی مکروہ کردار چلا آرہا ہے ۔

مزید کے بی فراق صاحب لکھتے ہیں ”ظالم کو انعام دیا جاتا ہے۔ ظالم کو داد دی جاتی ہے۔ مظلوم کو دلاسہ دیا جاتا ہے۔ مظلوم کی آہ و پکار پر لائیک کا بٹن دبایا جاتا ہے۔ رسمی جملے لکھے جاتے ہیں ۔ اس دکھ کو الفاظ میں بیان کرتے ہوئے بار بار ٹھنڈی آہ بھرتا رہا۔ بقولِ فراق صاحب کہ  مظلوم کی آہ  و پکار پر لائیک کا بٹن دبایا جاتا ہے کہنے کا مقصد یہ ہے کہ ہمارے لوگ بھی کتنے بے حساس ہوگئے ہیں” ۔

اب لوگوں کو چاہیے کہ مزاحمت کریں ، اپنی ماں  ، بہن ، بھائیوں کو  ساتھ لے  کر سڑکوں پہ نکلیں ،  ہم آواز ہوکر ظلم کے خلاف لڑیں  لاپتہ افراد  کا غم زدہ خاندان اپنے یقین کو ساتھ لے کر باہر نکلے ۔  اور بتائیں کہ ہم لاشیں اٹھا اٹھا کر تھک گئے ہیں ۔۔۔اب ظلم کا یہ بازار بند کردیا جائے۔۔

مار  دیا مرے بچوں کو
اک آواز اٹھانے  پر
مار دیا مرے بچوں کو
میں نے کو کھ میں سینچا تھا
دھڑکن کے پیمانوں سے
اسکی پیاس بجھائی تھی
آنکھوں میں تھے خواب دھرے
پاؤں پاؤں چلو ایا تھا
اجلی سب کرنیں لے کر
سندر چھاتی سینچی تھی
سورج کی گرمی لے کر
پوروں پوروں رکھی تھی
چیخ کو اپنی گوندھا تھا
پھر اس سانس میں بوئی تھی
شوق کی سبز ہر اک کونپل
اس کے صبر میں رکھی تھی
اگلے پچھلے خداؤں سے
میں نے منت مانگی تھی
اس کے پیدا ہونے پر
میں نے بھوگ چڑھایا تھا
درد کی شاخ تلے پل پل
سارا سوزاٹھایا تھا
پھر اک کورے سانچے میں
پیار سے اسکو گوندھا تھا
اپنے منہ کے نوالوں سے
پیٹ کی آگ کو سینچا  تھا
پورا ہجر کمایا تھا
اس کی روشن آنکھوں میں
گرمیء   دل کا سوداتھا
سانسوں کے پیمانے میں
صبح کی خوشبوبہتی تھی
دل کے حبس کو ڈھانے کے

Advertisements
julia rana solicitors

ہر اندازمیں پورا تھا
اک آزاد ہوا کا ساز
اس کی سانس میں پلتا تھا
ایک تعمیر کی خواہش سی
اس کے صبر میں جاگی تھی
تیرے حلوے مانڈوں سے
اک روٹی ہی مانگی تھی
میری تعبیروں کا کیا
میرے خواب کی وقعت کیا
اک آواز اٹھانے پر
مٹی میں ہی گاڑ دیا
مار دیا میرے بچوں کو!

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply