میں نے عائشہ اکرم کا ساتھ کیوں دیا؟نجم ولی خان

سوال: ”آپ کی سوشل میڈیا پر پرسنل پروفائلز اور پروگرام نیوز نائیٹ کے پیج کا ان باکس ایسے پیغامات سے بھرا پڑا ہے جن میں عائشہ اکرم کے ساتھ پروگرام اور اس کے موقف کی پروجیکشن پر اعتراضات کئے جا رہے ہیں،ان میں بہت سارے آپ کے خیرخواہ اور چاہنے والے ہیں جو چاہتے ہیں کہ آپ نیکی اور اچھائی کے ساتھ کھڑے ہوں۔ ان پیغامات کا آ پ کے پاس کیا جواب ہے“؟
جواب:”جس طرح لوگوں کے جوابات اور پیغامات موصول ہوئے ان کی تعداد مجموعی طور پرلاکھوں میں ہے اور چاہنے کے باوجود فرداً فرداً ان کے جوابات نہیں دئیے جا سکتے مگر ان سوالوں کے جواب دینے سے پہلے ایک سوال کرنا چاہتا ہوں کہ مینار پاکستان پر ایک لڑکی پر اوباشوں کاگروہ حملہ کر دیتا ہے، اس کے کپڑے پھاڑ کے عریاں کرتا ہے، اڑھائی تین گھنٹوں تک اسے مسلسل اذیت اور تشدد کا نشانہ بناتا ہے۔ کیا یہ بدترین ظلم اور زیادتی ہے یا نہیں؟

سوال: ”بے شک  عائشہ کے ساتھ جو ہوا و  ہ بدترین ظلم اور زیادتی ہے مگر۔۔۔“
جواب:”باقی بات بعد میں کریں گے، جب واقعے کی حد تک اختلاف نہیں کہ یہ بدترین ظلم اور زیادتی ہے تو پھر مجھے مظلوم کے ساتھ کھڑے ہونا ہے، اس کی آواز بننا ہے۔ میں نے عائشہ کے کرداراور ماضی کے بارے گواہی اپنے پچھلے کالم میں بھی نہیں دی۔ میں نے اپنے ضمیر سے پوچھا کہ مجھے عائشہ کو انصاف دلوانے کی حمایت کرنی ہے یا اس پر حملہ کرنیو الوں کے ساتھ کھڑے ہونا ہے۔ میرے دل، دماغ اور ضمیر نے ایک ہی جواب دیا کہ تم اوباشوں کے ساتھ کھڑے ہونے سے پہلے خود کشی کر لینا۔۔“

سوال: ہر واقعے کا ایک سیاق و سباق ہوتا ہے اور اس کا بھی ہے، سوال یہ ہے کہ عائشہ کے ساتھ ہی یہ سب کیوں ہوا، عائشہ کے علاوہ بھی تو وہا ں ہزاروں خواتین تھیں۔۔؟
جواب:”یہ ایک دلچسپ سوال ہے۔ یہ درست ہے کہ ہر واقعے کا ایک سیاق و سباق ہوتا ہے مگر ہر واقعہ بھی اپنی جگہ ایک واقعہ ہوتا ہے۔ آپ نے پہلے واقعے سے ڈیل کرنا ہے اوراس کے بعد سیاق و سباق کی بحث میں جانا ہے۔ جو یہ کہتے ہیں کہ وہ ہزاروں دوسری خواتین بھی تھیں تو یہی واقعہ کسی دوسری خاتون کے ساتھ ہوجاتا تو وہ پھر بھی یہی کہتے۔ روزانہ ہزاروں بسیں سڑکوں پر چلتی ہیں مگر ہم اسی بس کی بات کرتے ہیں جسے خدانخواستہ حادثہ پیش آتا ہے اور ہلاکتیں ہوتی ہیں، کیا آپ سڑک پر یہ رپورٹنگ کر سکتے ہیں کہ دوسری بسوں کو حادثہ پیش کیوں نہیں آیا،یہ نان پروفیشنل ہے، نان اے تھیکل ہے“۔
سوال:”اس بس میں کوئی نہ کوئی خامی ہو گی تو حادثہ پیش آیا ہوگا“؟
جواب: ”اسی کو وکٹم بلیمنگ کہتے ہیں،دنیا بھر کے مہذب معاشرے اور ماہرین قانون اس تھیوری کو قبول نہیں کرتے، چلیں مان لیں، عائشہ میں خامی تھی کہ وہ ٹک ٹاکر تھی اور اس کی دوستی ریمبو کے ساتھ تھی تو کیا یہ دونوں باتیں اس پر حملے کا جواز دیتی ہیں۔ یہ بھی مان لیا کہ اس نے فین اور فالورز کو دعوت دی تھی تو کیا وہ دعوت حملہ کرنے کی تھی، ہرگز نہیں، حملہ کرنے والوں نے حدود اور اختیار سے تجاوز کیا اور ہمیں اسی جرم کو ڈیل کرنا ہے۔ تعزیرات پاکستان میں ٹک ٹاک بنانا جرم نہیں مگر حملہ، تشدد اور برہنہ کرنا سنگین جرائم ہیں۔ اسی بحث کو آگے کو بڑھائیں، عائشہ غلط تھی تو کیا وہ قصور کی زینب بھی غلط تھی، اچھرے کی سات برس کی بچی بھی غلط تھی جس سے اکہتربرس کے بوڑھے نے زیادتی کی کوشش کی، وہ لڑکی بھی غلط تھی جو موٹرسائیکل رکشے میں اپنی فیملی کے ساتھ بیٹھی تھی، وہ ماں بیٹیاں بھی غلط تھیں جن کو ایک رکشے والا لاری اڈے سے سنسان جگہ پر لے گیا اور ساتھی کے ساتھ مل کرزنا باالجبر کا نشانہ بنایا، وہ لڑکی بھی غلط تھی جو پیر ودھائی کے مدرسے قرآن پڑھنے گئی تھی۔۔“

سوال: ”اس کامطلب ہے کہ آپ ٹک ٹاکرز کو غلط نہیں سمجھتے، ان پر پارکوں میں جانے کی پابندی کو بھی نہیں“؟
جواب:”میں غلط کو غلط سمجھتا ہوں، اگر ٹک ٹاک غلط ہے تو پھر اسنیک بھی غلط ہے، یوٹیوب کی شارٹ ویڈیوز بھی غلط ہیں، انسٹا اور فیس بک کی ویڈیوز بھی غلط ہیں بلکہ واٹس ایپ کیا انٹرنیٹ ہی غلط ہے۔ میں نے ابھی فیس بک پر ایک دیہات کے لڑکے کی ویڈیو دیکھی ہے جو ایک لڑکی کو موٹرسائیکل سکھا رہا ہے جو غلیظ ترین ہے، بدترین ہے، واہیات ترین ہے۔ کیا ہم ان سب کو بند کر سکتے ہیں، کیا ہم اس سے پہلے ریڈیو، ٹی وی،فون اور انٹرنیٹ کا راستہ روک سکے۔ ہمیں ان کے قواعد و ضوابط بنانے ہیں۔ ہمارے دوست حافظ ذیشان رشید نے پارکوں میں ٹک ٹاکرز کا داخلہ بند کر دیا کیونکہ وہ وائس چیئرمین پی ایچ اے ہیں حالانکہ ایک مہینے میں ٹک ٹاکر والا واقعہ ایک ہوا مگر رکشے اور مدارس کے واقعات کئی ہوئے تو وہ خواتین کے رکشوں میں بیٹھنے اور مدارس میں جانے پر بھی پابندی لگائیں گے۔ معاشرے میں جتنی گھٹن اور فرسٹریشن ہے خدا کے لئے اس میں اضافہ نہ کریں، لوگوں کو جینے دیں۔ انہیں ہنسنے او رمسکرانے کا موقع دیں۔ جو غلط اور گندی ویڈیوز بناتے ہیں ان کو عبرت کا نشان بنا دیں جیسے کچھ یوٹیوب چینلز لڑکیوں کے ذریعے گندے سوالات پوچھتے ہیں، انہیں روکیں۔ یہ گھر میں چھری کی طرح ہے اس سے پھل کاٹیں، سبزی کاٹیں، سلاد بنائیں، جو اس سے حملہ کرے او رپیٹ پھاڑے اسے پکڑیں“۔

سوال: ”آپ نے پہلے اعتراض کیا کہ اینکرز عائشہ کے گھر پہنچ گئے اور پھر آپ نے اسے سٹوڈیو بلا لیا“؟
جواب: ”یہ بہت اچھا سوال ہے۔ میری رائے اورخواہش تھی کہ عائشہ کی پہچان اسی طرح چھپی رہتی جیسے موٹر وے کیس والی خاتون کی چھپی رہی مگر جب اس نے خود سامنے آنے کا فیصلہ کر لیا تو میری رائے غیر متعلقہ ہو گئی۔ ہر کسی کو اپنے بار ے میں فیصلہ کرنے کا حق ہے اور یہ فیصلہ انہی کا تھا جیسے موٹرسائیکل رکشے کی متاثرہ لڑکی نے سامنے نہ آنے کا فیصلہ کیا ہے تو میں اس کا انٹرویو نہیں کر سکتا“۔
سوال: آپ ان ویڈیوز کو نظرانداز کر رہے ہیں جو عائشہ کی آئیں، جیسے باواجی لاری اڈے والی ویڈیو، جیسے ریمبو کی عائشہ کو گلے لگانے والی ویڈیو، کیا یہ ثابت نہیں کرتیں کہ وہ اچھی لڑکی نہیں؟
جواب: میں پھر پہلے سوال کی طرف جاؤں گااور پوچھوں گا کہ کیا ظلم ہوا، آپ کہیں گے کہ ہاں ہوا، میرا جواب ہوگا کہ کوئی حکمران ہو، پولیس والا ہو یا صحافی، اسے مظلوم کے ساتھ کھڑے ہونے کے لئے یہ نہیں دیکھنا کہ اس کا رنگ، نسل، مذہب کیا ہیں اور کیا اس کے پاس کریکٹر سرٹیفیکیٹ ہے۔ عائشہ ان دونوں ویڈیوز میں اپنے ہونے کی تردید کرتی ہے مگر میں آپ کی مان لیتا ہوں کہ یہ عائشہ کی ہی ویڈیوز ہیں اور کہتا ہوں کہ آپ ایسی ایک ہزار ویڈیوز بھی مزید لے آئیں تو میں اپنی اس ذمہ داری سے نہیں ہٹ سکتا کہ مجھے مظلوم کی مدد کرنی ہے اور ظالم کا راستہ روکنا ہے۔ عائشہ تو محض ایک ٹک ٹاکرہے، اوباش کسی طوائف کے ساتھ بھی یہ کریں گے تو میں ان کا وہاں تک جا کے ہاتھ روکوں گا جہاں تک روک سکوں۔ میرا رب سب کا رب ہے وہ صرف اچھوں کار ب ہوتا تو رزق اور عزت صرف مسجد والوں کو ملتی۔

Advertisements
julia rana solicitors

سوال: لوگ کہہ رہے ہیں کہ آپ کی عائشہ سے اچھی دوستی ہو گئی ہو گی؟
جواب: جی ہاں، یہ بھی کہا جا رہا ہے۔ میرا یہ کہنا ہے کہ آپ کسی کے بارے جو کمنٹ کرتے ہیں وہ اس کی نہیں آپ کے کردار، تربیت اور ماحول کی پہچان کرواتا ہے۔ عائشہ اکرم میرے پروگرام میں جناب سردار اویس عباسی ایڈووکیٹ کے ریفرنس سے آئی تھیں۔ پروگرام کے لئے رابطے میری ٹیم کرتی ہے اور اس تمام کے باوجود میرے پاس نہ تو عائشہ کا کوئی رابطہ نمبر ہے اور نہ ہی ریمبو کا، نہ ہی مجھے اس کی ضرورت ہے اور آخری بات یہ کہ اس موقف کی وجہ سے میرے فالورز کی تعداد کم ہوسکتی ہے تو میں واضح ہوں کہ میں کبھی مقبولیت اور فین فالوئنگ کے لئے چلتی ہوا کے ساتھ نہیں جا سکتا، مجھے وہ بات کہنی ہے جس کی گواہی میرا ضمیر دے۔
اللہ ہر کسی کو اس کی نیت اور گما ن کا اجر دے۔ آمین

Facebook Comments

نجم ولی خان
ڈائریکٹر جنرل پاکستان ریلوے،کالمسٹ،اینکر

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply