بچوں کی تربیت اور اسکی اہمیت۔۔سلمان اسلم

اس وقت بیچلر            آف کامرس کے اکنامکس اور مینجمنٹ سے متعلقہ تھیوری مضامین کے خلاصے پروفیسر سعید خان کے بہت مشہور ہوتے تھے اور یہ خلاصے عموما ًطلباء پشاور میں موجود اولڈ بک بازار سے لیتے تھے۔ پروفیسر سعید خان کے خلاصوں میں دو بڑی اچھی باتیں تھیں جو مجھے ذاتی طور پر پسند تھیں ، پہلی کہ وہ نہایت سادہ الفاظ میں لکھی ہوتے تھے،یعنی انگلش بھی دیسی انداز سے لکھی ہوتی تھی جو مجھ جیسے پنڈو بندے کو بھی بآسانی سمجھ میں آجاتی تھیں، اور دوسری بڑی بات ہر باب کے آغاز پہ صفحے کے اوپری حصے پہ دانشوروں کے مختلف اور آ سان فہم قول لکھے ہوتے تھے۔ انہی میں سے کہیں مجھے ڈیل کارنیگی کا اک قول پڑھنے کو ملا اور مرے ذہن میں ہمیشہ کے لیے نقش ہوگیا۔
ڈیل کارنیگی نے کہا تھا کہ ”بچے ہمیشہ سننے سے زیادہ دیکھنے سے سیکھتے ہیں یا بچے آپ کو سنتے نہیں بلکہ دیکھتے ہیں۔“

میں نے جب یہ فقرہ پڑھا تھا تب مجھے اس کی سمجھ تو آگئی تھی لیکن اس کا ادراک مجھے شادی کے بعد حاصل ہوا۔ ہم اپنے اردگرد یہ باتیں عموماََ سنتے اور مشاہدہ کرتے ہیں کہ زیادہ تر والدین اساتذہ کو اپنے ہی بچوں کے بارے میں بتاتے (شکایت لگاتے) ہیں کہ یہ ہماری بات نہیں سنتا او ر بدتمیزی وغیرہ کرتا ہے۔ اور بچے بھی ہمیشہ والدین کی نسبت استاد (ٹیچر) سے زیادہ ڈرتے ہیں ۔ کیونکہ بچے استاد کو صرف سکول میں مختصر وقت کے لیے دیکھتے ہیں اس لیے ان کا تاثر بچوں کے ذہن میں پڑھانے والا، غلطی کرنے والوں کی اصلاح کرنے والا، سزا و جزا ء دینے والے کے  روپ میں بیٹھتا ہے۔ جبکہ گھر میں تو وہ اپنے والدین کو ہر وقت دیکھتے رہتے ہیں۔ جس میں ابا کی امی سے لڑائی اور اماں کی ابا سے معاشی مسائل پہ تلخ کلامی، اماں کا اچھے موڈ میں رہ کر دن بھر میں جمع کی ہوئی غیبتوں  کی  تفصیلات وغیرہ دیتے ہوئے دیکھتا اور سننا ہے۔ اسی لیے گر والدین جھگڑالو ہو ئے تو بچہ بھی اسی روپ کو دھار لیتا ہے  اور اگر والدین نماز میں ڈنڈ ی مارنے والے ہوں توبچے بھی لازماََ ڈنڈی مارتے ہیں۔ اگر والدین گھر میں گالم گلوچ کرتے ہیں تو بچے بھی لازم اسی عادت کو اپناتے ہیں۔ لیکن یہاں اک او ر بات قابل غور او ر مشاہد ہ ہے کہ بچے کی رغبت ہمیشہ اپنے والد کی طرف جاتی  ہے او ر بچی کی رغبت والدہ کی طرف۔ دوسر ے لفظوں میں والدین بچوں کے لیے سانچے کی حیثیت رکھتے ہیں و ہ خود جیسے رہیں گے یا بچوں کو جس روپ میں ڈھالنا چاہتے ہیں تو انہیں خود کو اولاً  اس روپ میں ڈھالنا پڑے گا بچے خود بخود ان کی نقل میں ڈ ھل جائیں گے۔ ورنہ دوسری صورت میں نہ تو کوئی دم دارو اور نہ کوئی جھاڑ جھنکار کسی کام آئے گی۔ یقین مانیں ہم نے امیین (اہل) عرب کی  سنتو ں کو پھر سے زند ہ کرنا شروع کردیا ہے۔ بس فرق یہ ہے کہ وہ کورے ان پڑھ جاہل تھے اور ہم پڑھے لکھے جاہل۔

عہد ِ حاضر کا المیہ بھی ذرا ملاحظ فرمائیں کہ ابن آدم نے سکو ن و اطمینان کی خا طر شروع کیے ہوئے مادہ پرستی کے اس اندھے سفر میں اپنی ذریت کو بھی نہیں چھوڑا ان کی تربیت بھی مادہ پرستی کے سوچ سے کر تے آئے اور یہ سلسلہ بدستور جاری ہے۔
اور اس ضمن میں و الدین نے پہلی بڑی کوتاہی و غلطی یہ کی کہ تربیت کی آڑ میں اپنی ہی اولاد میں  تفریق کر ڈالی یعنی لڑکوں کی تربیت پہ خاصی توجہ دی او ر لڑکیوں کو اس لیے نظر انداز کیا کہ وہ تو ہے ہی پرایا دھن تو چل سو چل کا رویہ رکھا۔ اور ہم قطعاَ َ یہ بات بھول گئے اور یا پھر اس کو بھی ا رادتاََ نظر انداز کیا کہ خاندان، معاشرہ، قوم تو عورت کے ہی وجود سے تشکیل پا تے ہیں۔ علامہ صاحب نے کیا خوب کہا تھا
”وجود زن سے تصویر کائنات۔“
اب ذرا اک لمحے کے لیے سوچیں کہ جس بیج سے پودے نے جنم لینا تھا، پروان چڑھنا تھا جب ا سکی نشو و نما (تربیت) ہی ٹھیک طرح سے نہیں کی ہو تو اس وجود سے جنم لینے والے پودے (نئی نسل) کیسے توانا ، صحت مند اور پھلدار (پڑھی لکھی اور سلجھی) ہو سکتے ہیں۔
اسکے بعد بھی ہم نے عقل کے ناخن نہیں لیے، اور اک اور غلطی کی بنیا د رکھ دی۔ کہ اپنے بچوں کی جنسی مسائل کی تربیت شریعت کی روشنی میں کرنے سے کترانا شروع کردیا۔ یاد رکھیں وہ کسی عقل مند نے کیا خوب کہا تھا کہ اگر آپ اپنے بچوں کے ساتھ نہیں کھیلیں گے تو کوئی اور آپکے بچوں کے ساتھ کھیلنا شروع کر دے گا۔ یعنی اگر والدین ہی بچوں کی تربیت و رہنمائی ہر مرحلے پہ نہیں کرینگے تو گلی کے نکڑ پہ بیٹھے او ر لوگ اس کام کا بھیڑا اٹھا لیں گے۔ جو آپکے بچے کے اخلا ق اور کردا ر کا بھرکس نکال دینگے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

” سن رکھو! تم میں سے ہر شخص حاکم ہے اور ہر شخص سے اس کی رعایا کے متعلق سوال کیا جائے گا، سو جو امیر (حاکم) لوگوں پر مقرر ہے وہ راعی (لوگوں کے بہبو د کا ذمہ دار) ہے اس سے ا س کی رعایہ کے متعلق پوچھا جائے گا اور مرد اپنے اہل خانہ پر راعی (رعایت پر مامور) ہے،اس سے اسکی رعایا کے متعلق سوال ہوگا۔ (مسلم شریف: 1829)
لہٰذا بچیوں کو دینی تعلیم اولین ترجیح میں دیں۔ نماز، روزہ، قر آن کی تعلیم بمع ترجمہ لازماََ سکھائیں کیونکہ اسی کی کوکھ سے تو اک او ر نئی نسل نے جنم لینا ہے۔ وہ کسی نے خوب کیا کہا تھا کہ جب ماں نیک ہوگی ، ماوں کی تمنائیں نیک ہونگی تو انہی کی کوکھ سے بایزید بسطامی جیسے ولی اللہ جنم لیں گے ۔
ماں کو خصوصا چاہیے کہ بچی کو تعلیم د ے کہ شرعیت میں شوہر کا درجہ کیا رکھا کیا گیا ہے او ر اسکی تابعداری و فر مانبرداری کی کیا حیثیت ر کھی گئی ہے ؟ شوہر کا گھر ہی وہ گھر ہے جس کے لیے رب تعالیٰ جل شانہ نے اسکو پیدا فرمایا ہے۔ کیونکہ جس طرح ماں باپ کی خدمت عبادت ہے اس طرح شوہر کی تابعداری بھی عبادت ہے۔ آج کل کی بچیوں کو اس بات کا قطعی کوئی علم نہیں ہوتا کہ شو ہر کی حیثیت کیا ہے؟ کیونکہ اس نے کبھی اپنی ماں کو یہ سب کرتے ہوئے نہیں دیکھا ہوتا ۔ ڈیل کارنیگی کی بات کو دیکھیں تو یہ سمجھنے میں کوئی دقت نہیں رہتی کہ بچے سننے سے نہیں دیکھنے سے سیکھتے ہیں ۔ ہمارے ہاں بس شادی سے دو اک دن پہلے بچی نصیحت بھری لیکچر دے کر والدین سمجھتے ہیں کہ انہوں نے اپنا حق ادا کر دیا مگر وہ یہ بھول جاتے ہیں کہ 18 سال کی دیکھا دیکھی دو دن کی نصیحتوں سے کبھی بھی ختم نہیں ہو سکتی ۔
یاد رکھیں شیطان ا نسان کا کھلا اور بڑا خبیث دشمن ہے۔ تو بچوں اور بالخصوص بچیوں کی تر بیت میں اس عنصر کو خا لی نہ چھوڑیں، اسکو سسرال کی روپ میں ملنے والے والدین کی اسی طرح خدمت و اخترام کرنے والی سوچ سے اسکے ذہن کی آبیاری کریں جیسے اپنی بہو سے اپنی عزت و احترام کی توقع رکھتے ہیں۔ تا کہ آگے چل کر اسکے اپنی کیار ی سے اللہ جل شانہ بطور انعام بہترین اور تابع و فرمانبردار پھول اگائے۔ ورنہ ہر انسا ن کو اپنے ہی کرنی کی اک دن لازمی بھرنی ہوتی ہے۔ جو بویا ہوگا وہی کاٹنا بھی پڑ ے گا اور آج ہمارے معاشروں میں پائی جانے والی نسل در نسل اضطرابی اور بے سکونی کی بہت سار ی وجوہات میں اک بہت بڑی و جہ یہی ہے۔ بچیوں کی بہترین تربیت ہی نئے معاشروں او ر گھرانوں کی سا لمیت کا ضامن ہوتی ہے۔ اور اسکے برعکس تربیت کے نہ ہونے سے معاشرے کی تباہی بھی یقنی ہے جس کا ہم روز اور ہر دوسرا گھر تجربہ گاہ بنا ہوا ہے ۔
اللہ کرے کہ یہ ساری باتیں ہماری سمجھ و عمل میں آ جائے۔ آمین ثم آمین

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply