چراغ سب کے بجھیں گے ہوا کسی کی نہیں۔۔سید شاہد عباس

تازہ ہوا کا جھونکا ثابت ہوا لاہور ہائی کورٹ کا فیصلہ کہ جس میں ایک نجی چینل کو بند کرنے کا پیمرا کا حکمنامہ معطل کر دیا گیا ہے۔ اور اس حوالے سے فوری طور پر صحافیوں میں خوشی کی لہر دوڑ گئی ہے۔

مسائل کیسے پیدا ہوئے،اگر وہ اپنے لائسنس کی خلاف ورزی کر رہا تھاتو اتنے عرصے ٹی وی اسکرین پہ جگمگاتا کیوں رہا۔ اگر واقعی خلاف ورزی کر رہا تھا تو اس کو اتنی چھوٹ اب تک کیوں دیے رکھی، اور اگر چینل کی سرزنش بھی کی جاتی رہی ہے اور اس حوالے سے چینل بدستور خلاف ورزی کرتا رہا ہے تو پھر ہاتھ کیوں ہولا رکھا گیا، جب کہ اسی حوالے سے دیگر مقامات میں سختی واضح دیکھی جا سکتی ہے، اتنے عرصے کیوں اس چینل کو پھلنے پھولنے کا موقع دیا گیا، اور اب جب کہ چینل سے مزدور صحافیوں کا روزگار وابستہ ہو چکا ہے (مالکان کا نہیں صحافیوں کا) تو پھر کیا وجہ ہے موجودہ وقت کے انتخاب کی، اس کی نشریات روکنے کی، اس جیسے دیگر کئی سوالات ہیں جنہوں نے اس پورے قضیے میں جنم لیا ہے۔ اور پیمرا جیسے اہم ادارے کی کارکردگی پر سوالیہ نشان لگا دیا ہے۔ اپنی کاکردگی دکھانے کے لیے آزاد ادارے نے اگر زیر بار ہو کے فیصلہ کیا تو، کس نے زیر بار کیا، اس پہ نہ کوئی بحث ہو گی نہ ہو سکتی ہے۔کیوں کہ کچھ معاملات ہمارے ہاں نو گو ایریا جیسے بنا دیے گئے ہیں۔ یا پھر مقدس گائے کہ جن پہ مباحثہ کرنا جرم تصور ہونے لگا ہے۔

چینل پہ پابندی لگتے ہی مختلف اختلافی امور زیر گردش رہے۔ کوئی چینل کو سچائی کا استعارہ بنا بیٹھا تو کسی نے اس پابندی پہ دبی دبی مسکراہٹ کے ساتھ جشن منایا۔ اس بات سے قطع نظر کہ چینل حق کا ساتھ دے رہا ہے یا حق کے لبادے میں باطل کا آلہء کار بنا ہوا ہے۔ ہم اسے بطور مجموعی اگر میڈیا کی تنزلی کے حوالے سے دیکھیں تو نقصان صرف صحافی اور صحافت کا ہو رہا ہے۔ عدالتی فیصلہ یقینی طور پر حقائق کی بنیاد پہ آیا ہو گا اس پہ بحث نہیں، لیکن چینل کے کرتا دھرتا افراد کے زیر گردش واٹس ایپ پیغامات، نیوز اینکر کا آخری بلیٹن پڑھتے ہوئے آنسوؤں کا اختتامیہ دینا، اور پھر اس چینل سے وابستہ افراد کا پیمرا آفس بلڈنگ کے باہر احتجاج اور گارڈز کا اسے غلط طریقے سے ہینڈل کرنا اس معاملے کو پس منظر سے سب کے سامنے لے آیا۔ یاد رہے، ڈنڈے، آنسو گیس، گولی کا سامنا ہمیشہ مزدور صحافی ہی کرتا ہے، مالکان کے اے سی روم کی ٹھنڈک ختم نہیں ہوتی۔ مزدور صحافی ہم اسے کہہ سکتے ہیں جس کا صحافت اوڑھنا بچھونا ہے اور وہ اور کچھ نہیں جانتا۔ یوں کہیے کہ ان نو سو پینسٹھ افراد کا تعلق ہو سکتا ہے چینل کے ساتھ کسی قدر اچھا ہو، اسی لیے انہوں نے نا صرف احتجاج ریکارڈ کروایا بلکہ عدالت سے فیصلہ بھی ان کے حق میں آ گیا جس پہ وہ خوش بھی ہیں۔ میڈیاکی تنزلی جس طرح الیکٹرانک میڈیامیں دیکھی گئی ہے ویسی ہی کچھ عرصہ قبل اخبارات کے حوالے سے بھی دیکھنے میں آئی۔ پرنٹ و الیکٹرانک میڈیا میں جب سے صحافیوں کا عمل دخل کم ہوا ہے اور سیٹھ ازم حاوی ہوا ہے وہیں سے اس کی تنزلی کا دور بھی شروع ہوا ہے۔

میڈیا کی اپنی صفوں میں ایسے افراد کی بہتات ہے جو چھاتہ بردار صحافی ہیں۔ پہلے ہم رپورٹنگ کی حد تک کہتے تھے کہ پیسے دے کر کارڈ بنوا لیتے ہیں۔ لیکن اب آپ اعلیٰ عہدوں تک دیکھیے تو ایسے افراد کی بہتات ہے جو مشہور صحافی بن چکے ہیں لیکن وہ اس سے پہلے یا تو اداکار تھے یا پھر پراپرٹی ڈیلر، یاوہ کئی سے ریٹائر ہوئے ہیں، یا پھر ان کا ماما چاچا کسی چینل میں اچھی کرسی پہ براجمان تھا۔ اور وہ اس کو موقع غنیمت جانتے ہوئے چینل یا اخبار میں آ دھمکے۔ سونے پہ سہاگہ یہ ہوا کہ اخبارات و ٹی وی چینلز سیاسی جماعتوں کے نعرہ باز بننے لگے۔ ایک ایک پارٹی سب نے پکڑی اور چل سو چل۔ یہ بھیڑ چال میڈیا کو چاروں شانے چت کر چکی ہے۔ غیر جانبداری کو صحافت سے جیسے دیس نکالا دے دیا گیا ہو، چاہے وہ پرنٹ میڈیا ہو یا الیکٹرانک میڈیا۔ اور اب تو ڈیجیٹل میڈیا کے گھوڑے بھی اپنا اپنا کھونٹا سنبھال چکے ہیں۔ اور کھونٹے سے وفا کر رہے ہیں۔ لیکن کراس میڈیا اونر شپ(Cross Media Ownership) کے تحت وجود میں آنے والے ٹی وی چینلزکی اکثریت اس حقیقت سے انکار کر رہے ہیں کہ اگر حالات یہی رہے تو باری سب کی آئے گی۔ایکپریس، دنیا، یا ان جیسے اِکا دُکا چند میڈیا گروپس کی شہرت ادائیگیوں کے حوالے سے بہتر ہے تو زیادہ تر اخبارات و چینل کا پیٹ بھرنے والے صحافی چھ چھ ماہ تنخواہوں سے محروم رہتے ہیں اس کے ساتھ چینل یا اخبار توقع کرتا ہے کہ وہ ان کے لیے سڑکوں پہ احتجاج بھی کریں۔ میڈیا کی تنزلی کا خالصتاً نقصان اس صحافی کو ہے جو سوائے صحافت کے کچھ نہیں جانتا، اس کی انگلیاں یا تو لکھنا جانتی ہیں یا پھر کیمرے کا کلک دبانا۔ چھاتہ بردار تو آج یہاں کل وہاں۔اُن کا یہ کاروبار نا چلا تو کوئی اور کاروبار سہی۔ اور کچھ نا بچا تو گھروں میں پورے کے پورے سٹوڈیو بنا لیے اور یوٹیوب زندہ باد۔ لیکن ایک صحافی پوری زندگی صحافت کرتا ہے نتیجتاً گزر بسر ہی مشکل سے ہوتی ہے۔ منافع خود تو کوئی اور ہیں جو منافع لیتے ہیں اور یہ جا وہ جا۔ ایک چینل پہ قدغن لگتی ہے تو دوسرے چینل کی سکرین پہ ڈھول پتاشے خوشی میں نظر آنا شروع ہو جاتے ہیں۔ ڈھول پتاشوں والا زیر عتاب آیا تو پہلے والے کی باچھیں خوشی سے کھل جاتی ہیں۔ یہاں تو چینلز ایک دوسرے کے خلاف پوری کمپین تک چلا دیتے ہیں۔ میر شکیل الرحمٰن کی گرفتاری کی خبر ان کا مخالف چینل فشوں فشوں کے پھٹے لگا کے چلاتا ہے تو میر صاحب کا چینل، مخالف چینل کی ہزیمت کو لہک لہک کے بریکنگ نیوز بناتا ہے۔ یہ تمام لوگ اتنا ادراک نہیں رکھتے کہ آج اگر ایک کے گرد شکنجہ کسا جا رہا ہے تو کل کو باری دوسرے کی بھی آئے گی۔ مفاد پرست تو ان کو لڑانے کے لیے کچھ سال آتے اور پھر نظر نہیں آتے۔ لیکن اس میں میڈیا اپنا اتنا نقصان کر لیتا ہے کہ ناقابل بیاں۔

معزز عدالت سے چینل کی بحالی صرف چینل کی بحالی نہیں ہے۔ بلکہ 965خاندانوں کی امیدوں کے دیے کی پھڑپھڑاتی لو کی بحالی ہے۔ جو دیا بجھنے کو تھا وہ پھر سے تیز روشنی سے جلنے لگا ہے۔ لیکن اس میں غیرت کا کچھ پیغام چینل، اخبار، میڈیا گروپس مالکان کے لیے بھی ہے کہ جن ملازمین کو آپ چھ چھ ما ہ تنخواہ نہیں دیتے وہی آپ کے لیے آواز اٹھاتے ہیں۔ وہی آپ کے لیے سڑکوں پہ لاٹھی چارج  سہتے ہیں۔وہی گولیوں کا سامنا کرتے ہیں۔  ان صحافیوں کو، جن کی پیشہ وارانہ صلاحتیں صرف صحافت میں ہیں، انہیں گدھوں کی طرح ہانکنے کے بجائے انسان سمجھیں۔ان کی ضروریات بھی آپ کی طرح ہیں۔ ان کے بھی خاندان ہیں جو ان پہ انحصار کرتے ہیں۔ بچوں کی چمکتی آنکھیں ہیں جو صحافی والدین سے چھوٹی چھوٹی خوشیوں کے پورے ہونے کی توقع کرتے ہیں۔ چینل مالکان کے نزدیک تو شائد صحافی لوہے کا مجسمہ ہے جو جذبات سے عاری ہو یا جس کا خاندان نا ہو۔ آپ کا فرض ہے کہ سوچیے حقیقی صحافی کیوں ڈپریشن کا شکار ہو کے زندگیوں سے جا رہے ہیں۔ اگر آپ انہیں انسان سمجھنے کو تیار نہیں تو اٹھائیں اپنا “بھنگ پوسڑا” اور جائیے یوٹیوب چینل کھول لیجیے۔ یا کوئی اور منافع بخش کاروبار کر لیجیے۔ کیوں چینل یا اخبار کھول کر ناحق امیدوں کا خون کر رہے ہیں۔ بقول فراز۔۔۔

سب اپنے اپنے فسانے سناتے جاتے ہیں

نگاہِ یار مگر ہم نوا کسی کی نہیں

میں آج زد پہ اگر ہوں تو خوش گماں نہ ہو

Advertisements
julia rana solicitors

چراغ سب کے بجھیں گے ہوا کسی کی نہیں

Facebook Comments

سید شاہد عباس
مکتب صحافت کی پہلی سیڑھی پہ قدم رکھنے کی کوشش ہے۔ "الف" کو پڑھ پایا نہیں" ی" پہ نظر ہے۔ www.facebook.com/100lafz www.twitter.com/ssakmashadi

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply