چوتھا صنعتی انقلاب۔۔طلحہ سہیل فاروقی

یہ دنیا اپنے آغاز سے ہی انقلابی ادوار سے گزرتی رہی ہے۔ انقلابات زمانہ کی نوعیت ہر دور میں مختلف رہی ہےاور یہ تمام انقلابات محدود علاقائی سطح سے لے کر عالمگیر سطح  تک محیط رہے ہیں ۔ انسانی زندگی پر ان کے اثرات بھی یکساں نوعیت کے نہیں رہے۔آج جس چوتھے صنعتی انقلاب کی بازگشت سنائی دے رہی ہے، یہ اپنی نوعیت کے ان انقلابات کا تسلسل ہے جس کا آغاز اٹھارویں صدی کےدوسرے نصف میں ہوا ،عمومی طور پہ جسے مکینیکل پیداوار کے دور کے نام سے جانا جاتا ہے ۔ یہی اس سلسلے کا پہلا صنعتی انقلاب تھا۔ جس میں بھاپ کے انجن جیسی ایجاد سے انسانی سفر وحضر کا ایک نیا باب کھلا۔ اس نے زراعت اور ٹیکسٹائل انڈسٹری کو تبدیل کر کے رکھ دیا جس سے انسانی زندگی میں آسائشات اور اس کی تفہیم کا نیا در کھلا۔ انسانی ذہن تیزی سے سائنسی طرز فکر کو اپنانے لگا ۔کام کرنے کے میکانکی طرز نے پیداوار کے نئے مفہوم متعین کیے اور مہارتوں کے ایسے میدان سامنے آئے جو اس سے پہلے نہیں تھے۔ صحیح معنوں میں اس انقلاب کے آنے سے انسانی زندگی یکسر بدل گئی ۔

اس انقلاب کو نئے پر تب لگے جب انیسویں صدی کے دوسرے نصف حصے میں الیکٹریسٹی کی ایجاد ہوئی۔ اس ایجاد سے کچھ ایسی مزید ایجادات کو مہمیز ملی جو آج بھی اپنی ارتقائی صورت میں ہماری زندگیوں کا حصہ ہیں ۔ ریڈیو سگنلز، روشنی کے غیر قدرتی ذرائع، صوتی ترسیل کے آلات ، سٹیل مل اور ٹائپ رائیٹر وغیرہ ۔ یہ دوسرا صنعتی انقلاب ہی تھا جس نے سفری سہولتوں کی فہرست میں ہوائی جہاز کو شامل کیا۔ریڈیو اور ٹیلی فون کی ابتدائی صورتیں سامنے آئیں ۔تھیٹر کے ساتھ ساتھ سینما نے اپنے قدم جمائے ۔اس دور تک آتے آتے انسان نے محض دو صدیوں میں وہ سفر کیاجو کبھی محض ایک خواب تھا۔میکانیکی و برقی ترقی اور پھر اس کے الحاق نے انسانی ذہن کو اس ایجاد کی راہ دکھائی جو آج اس دور کی بنیاد ہے جس میں، ہم سب جی رہے ہیں۔یہ ٹرانزسٹر اورانٹیگریٹڈ سرکٹIntegrated Circuitsکی ایجاد تھی جس کے ساتھ ہی تیسرے صنعتی انقلاب کے دور کا آغاز ہوا۔ ان برقی میدانوں میں ہونے والی ایجادات کی بدولت کئی ایک ایسی ایجادات ممکن ہو سکیں جن کا ذکر اس سے قبل کاغذوں پہ لکھی گئی ریاضیاتی مساواتوں یا طبیعاتی تھیوریز تک محدود تھا۔ انسان نے خلاؤں کو تسخیر کرنے کا آغاز کر دیا۔اس دور کی سب سے اہم ایجاد کمپیوٹر تھی جسے انسانی تاریخ کی اہم ترین ایجاد بھی قرار دیا جا سکتا ہے کہ انسانی ترقی کے نت نئے زاویوں کے چشمے اسی سے پھوٹے۔ جس نے دنیا کو دیکھنے اور اس کے ساتھ تعامل کرنےکے طور طریقوں کو یکسر بدل ڈالا۔ اس دور کی اہم ترین خاصیت یہ بھی رہی کہ گزشتہ ادوار میں ہونے والی ایجادات کے ثمرات بھی عام فرد کی پہنچ میں آنا شروع ہو گئے۔ انجن اور گاڑی کی ایجاد گذشتہ ادوار میں ہوئی لیکن عام فرد تک اس کی سہل اور عمومی رسائی اسی دور میں ہی ممکن ہو سکی۔ انیس سو ستر کے بعدآئی بی ایم، ایپل اور مائیکروسافٹ جیسی کمپنیوں نے ذاتی کمپیوٹر کے خیال کو حقیقت میں تبدیل کر دیا ۔ کے انٹرنیٹ کے ایجاد ہوتے ہی فاصلے سمٹ گئے اور دنیا کو گلوبل ولیج کی ایک نئی اصطلاح سے شناسائی ہوئی ۔اب انٹرنیٹ اور کمپیوٹر کےباہمی الحاق نے آنے والے زمانوں کے نئے خدوخال مرتب کرنا شروع کیے ۔ ای کامرس کا بیج بھی بیسویں صدی کی آخری دہائی میں ہی بویا گیا۔آن لائن دنیا نے ایک متوازی دنیا بننے کو اڑان بھری۔معلومات کا ایک نیا جہان آباد ہوا۔کمپیوٹر ہر اس میدان اور صنعت کا اہم جزو بنتا چلا گیا جو کسی نہ کسی طرح سے انسانی زندگی اور اس کائنات سے متعلق ہیں۔

اکیسویں صدی کے آغاز کے ساتھ ہی ڈیجیٹل دنیا اس قدر وسیع ہو چکی تھی کہ تمام شعبہ ہائے زندگی میں اس کی اہمیت مسلم حقیقت کی صورت میں نظر آنے لگی ۔اب ذاتی موبائل فونز اور جی ایس ایم نیٹ ورک نے اسی دور میں باہمی رابطوں کی تعریف بدل دی۔ آن لائن ادائیگیوں کی سہولت عام ہونا شروع ہوگئی۔ فاصلاتی نوکریوں اور جزوقتی معاہدوں کے باعث آن لائن کام کے لئے فری لانسنگ کو مقبولیت ملنا شروع ہو گئی۔ کمپیوٹر سافٹ وئیرزاور ویب سائٹس جدید صورتوں میں منظرعام پہ آنے لگیں ۔سوشل میڈیا کے ذریعے انسان نے سماجی تعلق کے نئے پہلو دریافت کیے ۔پہلی دہائی کے ختم ہونے تک مزید سب سے اہم پیش رفت یہ ہوئی کہ سمارٹ فونز کے متعارف ہونے کی وجہ سے کمپیوٹر ،ڈیسک سے ہاتھوں میں آگیا ۔دنیا سے ہر وقت جڑے رہنے کی خاطر جس تیز رفتار انٹرنیت کنیکشن کی ضرورت تھی وہ پہلے پہل ڈی ایس ایل اور بعد ازاں تھری جی 3G اور فائیبرکی صورت میں دستیاب ہوا۔ اسی پہلی دہائی میں ہی “بلاک چین ” جیسی انقلابی ٹیکنالوجی نے جنم لیا جس نے معاصر “فن ٹیک FinTech” انڈسٹری از سر نو مرتب کرنے کی بحث کو جنم دیا۔اسی کی بدولت پہلی کرپٹو کرنسی “بٹ کوائن “کی صورت میں سامنے آئی جس نے مالیاتی اداروں اور اتھارٹیزکی مرکزی حیثیت اور دو اشخاص کے مابین ترسیل زر کے نظام میں حائل رکاوٹوں (بینک اور ترسیلات زر کی سہولیات فراہم کرنے والی کمپنیاں)کو دور کرتے ہوئے براہ راست اور غیرمرکزی Decentralized سسٹم پہ مشتمل ٹرانزیکشنز کا محفوظ حل پیش کیا۔

یہیں سے چوتھے صنعتی انقلاب کی بنیادیں ہموار ہونا شروع ہو گئیں ۔ دوسری دہائی میں مواصلاتی ٹیکنالوجی میں فور جی (4G) کی صورت میں تیز رفتار انٹرنیٹ کی سہولت ملی۔ “کلاؤڈ کمپیوٹنگ” نے کسی بھی کونے میں بیٹھ کر کام کرنے اور معلومات تک رسائی کو آسان بنا دیا۔آن لائن کاروبار کا حجم تسلسل کے ساتھ بڑھتا چلا گیا۔ ایمازون اور ebay جیسی کمپنیوں نے دنیا کی مارکیٹ کو اپنے دام میں لے لیا ۔لوگوں کی زندگی کا بہت بڑا حصہ قطع نظر وہ تعمیری اور بامقصد ہے یا نہیں، اب آن لائن رہتے ہوئے گزرناشروع ہوا۔ اب سڑک پہ سائن بورڈز پہ لگے ہوئے اشتہارات سے آن لائن اشتہارات زیادہ موثر ثابت ہونے لگے ۔اسی وجہ سے ڈیجیٹل مارکیٹنگ کی ایک پوری انڈسٹری ہے، جو دن بدن پھلتی پھولتی جا رہی ہے۔افراد کی آن لائن موجودگی سےان کی ہر ایکٹیویٹی کا لمحہ بہ لمحہ ریکارڈ بھی ترتیب پاتا گیا یوں ڈیجیٹل دنیا میں “ڈیٹا اینالٹکس” کی افادیت بڑھتی چلی گئی تاکہ صارفین کو ان کی ترجیحات کی بنیاد پہ مال بیچنے کا ہدف بنایا جا سکے۔آج ہم چوتھے صنعتی انقلا ب کے دھانے پر نہ صرف پہنچ چکے ہیں بلکہ کچھ ثمرات بھی سمیٹنا شروع کر چکے ہیں۔

چوتھے صنعتی انقلاب میں آئل کی حیثیت اب ڈیٹا لے چکا ہے۔ اسی ڈیٹا کی بنیاد پہ مصنوعی ذہانت کو بروئے کار لاتے ہوئے کمپیوٹرز اپنے کام سرانجام دیں گے۔مصنوعی ذہانت کو پروان چڑھانے کے لئے کمپیوٹرز میں سیکھنے کی صلاحیت کو جنم دیا گیا ،جسے” مشین لرننگ” کہتے ہیں ۔ آج انٹرنیٹ پہ آپ جوکچھ لکھتے ہیں، جن ویب سائٹس کو وزٹ کرتے ہیں اور جس طرح کی ویڈیوز یوٹیوب وغیرہ پہ دیکھتے ہیں، آپ کو اسی نوعیت کے اشتہارات دیکھنے کو ملتے ہیں یہ اسی مشین لرننگ کی ہی بدولت ہے۔ انسانی دماغ کی ساخت کے مطابق ” نیورل نیٹ ورکس “بنائے جا رہے ہیں اورانہیں انسانی دماغ کی طرز پہ سوچنے کے قابل بنایا جا رہا ہے۔کمپیوٹر کی بنیادی زبان آج بھی بائنری ہی ہے ۔ اس کی اور انسانی زبان میں ہم آہنگی بنانے کے لئے “این ایل پی NLP “کی اپروچ کو استعمال کیا جارہا ہے۔ انسانی زبان اور گفتگو کے تناظر کو محدود پیمانے پہ سمجھنے کے باعث ہی “گوگل ٹرانسلیٹ” ایک لفظ کا ترجمہ تو درست کر دیتا ہے لیکن کسی جملے اور پیراگراف کے درست تناظر کو سمجھنے کی اہلیت نہ ہونے کے باعث آج بھی بعض اوقات مضحکہ خیز تراجم کرتا ہے لیکن وقت کے ساتھ ساتھ ایسے الگورتھم آتے جا رہے ہیں جو ان مسائل کو حل کرتے جائیں گے۔ ان طریقوں میں انتہائی سرعت سے جدت آتی جارہی ہے ۔انسانی زبان کو اس کے تناظر سمیت سمجھنے کی اہلیت کو پیدا کرنے پہ انتہائی تیزی سے کام ہو رہا ہے ۔جتنا ڈیٹا ایسے سسٹمز کو سدھانے کے لئے درکار ہے وہ بڑی تیزی سے تخلیق ہوتا چلا جارہا ہے۔یہ ڈیٹا کوئی اور نہیں، ہم سب مل کے پیدا کر رہے ہیں۔ موبائل فونز تک میں کیا گیا ہر ایک ٹچ یا کلک کسی نہ کسی لحاظ سے ڈیٹا کی تخلیق کا باعث ہی بن رہا ہے۔فائیو جی 5G یہاں اسی بڑی مقدار میں تخلیق ہونے والے ڈیٹا کی ترسیل کو ممکن بنائے گا۔ مزید اب نیٹ ورک صرف انسانوں کے باہمی تعلق کو برقرار رکھنے کے لئے نہیں بلکہ اشیاء کے مابین خود کار تعلق کو برقرار رکھنے کے لئے بھی ضروری ہو گا۔اسی کو” انٹر نیٹ آف تھنگز- IoT”کہتے ہیں۔ یہ فائیو جی ٹیکنالوجی کی سب سے اہم پارٹنر ٹیکنالوجی ہے۔ IoT کا دائرہ کار عام گھریلو اشیاء سے لے خود کار طریقے سے چلنے والی گاڑیوں غرضیکہ ہر چیز تک پھیلا ہو گا۔ یہ مختلف طرح کی ڈیوائسز کے مابین خود کار اور منظم طریقے سے چلتا ہونیٹ ورک ہے جس کا حصہ بننے والے آلات کی تعداد آئندہ چند سالوں میں اربوں تک پہنچ چکی ہو گی ۔یہ تمام ڈیوائسز اتنی سمارٹ ہوں گی کہ خود کی حالت کو سمجھتے ہوئے بروقت قدم اٹھانے تک کی اہلیت کی حامل ہوں گی ۔ آپ کی گاڑی گیس سٹیشن میں داخل ہوتے ہی درکار ایندھن کا اندازہ ، ڈیٹا اور مصنوعی ذہانت کے باہمی استعمال کو عمل میں لاتے ہوئے کرے گی ۔ گیس مشین سے اپنی درخواست کو پورا کرنے کا کہنے کے لئے “انٹرنیٹ آف تھنگز” کا سہارا لے گی اور رقم کی ادائیگی بلاک چین سسٹم کے ذریعے ڈیجیٹل کرنسی کی صورت میں کرنے کے قابل ہو گی۔ہیلتھ سیکٹر میں مصنوعی ذہانت اور اس کی ذیلی شاخوں کے استعمال سے ڈیٹا پراسیسنگ کے ذریعے کسی بھی بیماری کی نوعیت کو سمجھنا نہ صرف آسان ہو گا بلکہ اس میں غلطی کا امکان بھی نہ ہونے کے برابر ہو جائے گا۔

ہم چوتھے صنعتی انقلاب کے دور میں کسی نہ کسی طور داخل ہو چکے ہیں ۔ تمام ٹیکنالوجیز کسی نہ کسی درجے اور صورت میں کئی سالوں سے زیر استعمال ہیں۔ روبوٹس دہائیوں سے موجود ہیں لیکن مصنوعی ذہانت کے استعمال سے اسے کس قدر جدید بنایا جا رہاہے ، “صوفیا” کی صورت میں آپ خود اندازہ لگا لیجیے جسے سعودی عرب نے شہریت دی اور یوں پہلی مرتبہ کسی روبوٹ کو کسی ملک کا باقاعدہ شہری ہونے کا اعزاز حاصل ہوا۔کمپیوٹرزاپنے “نیورل نیٹ ورکس “اور” ڈیپ لرننگ” کی بدولت خود سمجھنے اور جواب دینے کے قابل ہوتے چلے جا رہے ہیں۔ بلاک چین اور ڈیجیٹل کرنسی مستقبل کی تجارت اور لین دین کے خدوخال مرتب کر رہی ہے۔ ملکوں کا اہم ترین اثاثہ وہاں کا ڈیٹا ہو گا جس کی حفاظت کے لئے سائبر سکیورٹی فورسز کی ضرورت ہو گی۔ابھی یہ سب کچھ محض اپنی ابتدائی صورت میں سامنے آرہا ہے لیکن وہ وقت ذیادہ دور نہیں جب مصنوعی ذہانت اور انٹرنیٹ آف تھنگز ہی مل کر بیشتر کام خود ہی سرانجام دے لیا کریں گے اور جنہیں سرانجام دینے کے لئے کسی انسان کی ضرورت باقی نہیں رہے گی ۔

یہ نیا دور یقینا افادیت کے ساتھ ساتھ بہت سے مسائل بھی لائےگا۔ انسان کو اپنی پرائیویسی پہ پہلے سے کئی گنا زیادہ سمجھوتہ کرنے کی ضرورت ہو گی۔ کئی معاملات میں آپ خود پہ کنٹرول کھو چکے ہوں گے۔بے تحاشا پرانی صلاحیتوں کے حامل افراد روزگار کھو بیٹھیں گے۔ نئی صف بندیاں منظر عام پہ آئیں گی۔ کئی اور دوسرے پہلو ہیں جن پہ اس کے منفی اثرات مرتب ہوسکتے ہیں۔
اس سارے آگے کے سفر میں ہمارے لئے کرنے اور سوچنے کو بہت کچھ ہے۔ اول تو یہ کہ ہمارا اس سارے قضیے میں کیا کردار ہے؟ آ ج اس صورت میں جب انسان رفتہ رفتہ بہت سے معاملات سے غیر متعلق ہو چکا ہے تو ایسی کون سی صورتیں ہوں گی جس میں انسان کا بطور انسان کردار اہم ہوگا؟ ہمیں مشینی ذہانت کے ساتھ ساتھ مشینی اخلاقیات پہ کیا اور کیسے کام کرنا ہوگا؟ وہ کون کون سے تکنیکی پہلو ہیں جن پہ کام کرنا کسی نہ کسی حد تک بقا کی ضمانت ہے؟موجودہ انسانی مسائل کا تدراک کیسے ممکن ہو سکے گا ؟ یونیورسل بیسک انکم (UBI)کا فریم ورک کیا ہو سکتا ہے ؟

Advertisements
julia rana solicitors

یہ ایک تفصیلی تعارف تھا کہ ہم کہاں سے شروع ہو کر کس دور میں داخل ہو رہے ہیں ۔خود کو آنے والے اس نئے دور میں داخل ہونے اور ان تمام ممکنہ حالات کا سامنا کرنے کو تیار رکھیے ۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply