• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • خواجہ سراء کمیونٹی کا زیر تعمیر پہلا ہسپتال/ثاقب لقمان قریشی

خواجہ سراء کمیونٹی کا زیر تعمیر پہلا ہسپتال/ثاقب لقمان قریشی

اگر ہم ترقی یافتہ اقوام   پر نظر ڈالیں تو ہمیں یہ ممالک اپنے وسائل کا بہترین استعمال کرتے نظر آئیں گے۔ سائنس، ٹیکنالوجی، قدرتی وسائل، مینوفیکچرنگ، ایوی ایشن، سیاحت، جنگی سامان، سروسز وغیرہ ایسی صنعتیں ہیں جن پر ایمانداری سے کام کرتے ہوئے انھوں نے اپنی معیشت کو ناقابل تسخیر بنایا ہے۔
تمام ترقی یافتہ اقوام مختلف شعبوں میں محنت کرتے ہوئے آگے بڑھ رہی ہیں۔ لیکن کچھ چیزیں ایسی ہیں جو ان سب ممالک میں مشترک ہیں۔ وہ انسانی حقوق، انصاف اور آزادی رائے ہیں۔ انسان کی ہزاروں سالہ پرانی تاریخ پر نظر دوڑائی جائے تو اس میں بھی ہمیں وہی قومیں دنیا کے بڑے حصّے پر حکومتیں کرتی نظر آئیں گی ، جہاں یہ تینوں چیزیں پائی جاتی تھیں۔ تینوں اجزاء کی کمی کی وجہ سے طاقت ور ترین سلطنتیں زوال کا شکار ہوئیں۔

وطن عزیز کے موجودہ حالات کی سب سے بڑی وجہ بھی معاشرے میں ان تینوں اجزاء کی کمی ہے۔ انسان کا احترام اور انسانی حقوق کے فروغ کیلئے ہم نے قلم اٹھایا ہے۔ ہم ایسے معاشرے کا قیام چاہتے ہیں۔ جس میں رہنے والے ہر فرد کے ساتھ برابری کا سلوک کیا جائے۔ ایسا معاشرہ جو جنس، رنگ، نسل، مذہب، قومیت اور فرقہ واریت سے آزاد ہو۔

مجھے خواجہ سراء کمیونٹی کے حقوق پر  لکھتے تین سال  ہوچکے۔ اس دوران میرے سب سے قریبی دوست انمول رضا بخاری اور نادرہ خان غربت اور علاج کی بہتر سہولیات نہ ملنے کی وجہ سے دنیا سے رخصت ہوگئیں۔

جب ایک خواجہ سراء بیمار ہو جاتا ہے تو وہ کیا کرتا ہے؟
ہمارے ملک کی خواجہ سراء کمیونٹی غربت کی لکیر سے نیچے کی زندگی گزار رہی ہے۔ بیماری کی صورت میں اس کے پاس اتنے پیسے نہیں ہوتے کہ یہ کسی اچھے ڈاکٹر سے علاج کروا سکے۔ اس لیے یہ کسی میڈیکل سٹور یا فری ڈسپینری سے رجوع کرتے ہیں۔ خواجہ سراء اپنی بیماری کسی دوسرے خواجہ سراء سے شیئر کرتے ہیں تو وہ کہتا ہے کہ میرے جاننے والے کو بھی ایسا ہی مسئلہ تھا اس نے فلاں گولی کھائی  تو ٹھیک ہوگئی تھی تو بھی وہی گولی کھا لے۔ گولی یا کسی کے بتائے ٹوٹکے سے بھی آرام نہیں آیا تو قرآن پاک کی کسی آیت یا زیارت پر جانا شروع کر دیا۔ سارے حربے ناکام ہوگئے تو اپنی جمع پونجی یا کسی سے ادھار لے کر کلینک کا رُخ کیا۔ اب کیونکہ خواجہ سراء کمیونٹی کو سنجیدہ نہیں لیا جاتا اس لیے ڈاکٹر جان چھڑانے کیلئے گہرائی میں جانا پسند نہیں کرتے ہلکی پھلکی دوا دے کر رخصت کر دیتے ہیں۔ بات بڑھ کر داخلے تک چلی جائے تو اب اسے کہاں رکھا جائے۔ خواتین انھیں عورت نہیں سمجھتیں اور مرد، مرد نہیں سمجھتے۔ پورے ملک کے چند سرکاری ہسپتالوں میں خواجہ سراؤں کیلئے ایک آدھ بیڈ مختص ہے۔

سیکس ورک، غربت اور نامناسب حالات کی وجہ سے خواجہ سراء کمیونٹی میں ایڈز، کینسر، ہپاٹائٹس، نفسیاتی امراض کی شرح عام لوگوں سے کہیں  زیادہ ہے۔ خواجہ سراؤں میں خصوصاً  ایڈز کی شرح کسی بھی دوسری کمیونٹی سے کہیں  زیادہ ہے۔ ایڈز کا شکار خواجہ سراء سے معاشرہ تو کیا اپنی کمیونٹی بھی دوری اختیار کر لیتی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ایک طرف معاشرے میں ایڈز کے حوالے سے آگہی کی کمی ہے اور دوسری طرف ایڈز کے مریض کو گناہوں کا منبع تصور کیا جاتا ہے اس لیے لوگ اسکے پاس بیٹھنا بھی پسند نہیں کرتے۔

چنیوٹ سے تعلق رکھنے والی ہماری بہت اچھی دوست رانی خان نے دو سال قبل اسلام آباد میں خواجہ سراء کمیونٹی کیلئے دنیا کا پہلا مدرسہ قائم کیا۔ اس مدرسے کی خاصیت یہ ہے کہ یہ جنس اور فرقے کی قید سے آزاد ہے۔ یہاں صرف قرآن پاک کی تعلیم دی جاتی ہے۔ کوئی بھی انسان یہاں آکر قرآن پاک کی تعلیم حاصل کرسکتا ہے۔ مدرسے کے اوپر شیلٹر ہوم ہے جہاں کوئی بھی خواجہ سراء مفت رہائش حاصل کر سکتا ہے۔ رانی خان نے خواجہ سراء کمیونٹی کو بھیک، سیکس ورک اور فنکشنز سے بچانے کیلئے ہنر سکھانے کا کام بھی شروع کیا ہوا ہے۔ اسکے علاوہ رانی خان نے اسلام آباد کے مختلف سکیٹرز میں خواجہ سراؤں کو اسٹال لگا کر دیئے ہیں۔ خواجہ سراء ریڑھیوں پر بچوں کے کھلونے اور خواتین کے استعمال کی اشیاء لے کر مختلف مارکیٹوں کے باہر کھڑے ہو جاتے ہیں۔ حق حلال کی مزدوری کرکے شام کو گھر آ جاتے ہیں۔

مدرسے اور شیلٹر ہوم کی تعمیر کے بعد رانی خان کے حوصلے بلند ہوگئے اور اس سے بڑے خواب دیکھنے لگیں۔ رانی خان کے ہاتھوں میں انکی قریب ترین خواجہ سراؤں نے دم توڑا ہے۔ اس لیے رانی خان ہسپتالوں میں خواجہ سراؤں کے ساتھ ہونے والے ناروا سلوک سے اچھی طرح واقف ہیں۔ مدرسے کی تعمیر کے بعد رانی خان نے اس سے جڑے چار مرلے کے پلاٹ پر نظر جمالی اور پیسے جوڑنا شروع کر دیئے اور چند ماہ بعد کچھ ڈونرز کی مدد سے پلاٹ خرید لیا۔

ہسپتال کا کام تیزی سے جاری ہے۔ پہلا لینٹر پڑ چکا ہے۔ رانی خان ہسپتال کی تعمیر اور امداد کیلئے بنائی گئی اپنی ہر ویڈیو مجھ سے شیئر کرتی رہتی ہیں۔ جنھیں میں اپنی وال پر شیئر کرتا رہتا ہوں۔

رانی خان کہتی ہیں کہ لوگوں کی خیرات اور عطیات کا سلسلہ جاری رہا تو ماہ رمضان میں فرش اور پلستر کا کام مکمل ہو جائے گا۔ اسکے بعد میڈیکل ایکوپمنٹ اور ایک ایمبولینس خریدنا باقی رہ جائے گا ۔ رانی خان نے ہمیں بتایا کہ یہ ہسپتال اپنی طرز کا دنیا میں پہلا خواجہ سراؤں کا ہسپتال ہوگا۔ اسکا سب سے بڑا فائدہ یہ ہوگا کہ یہاں خواجہ سراء مریض اپنے مسائل کو کھل کر بیان کر سکیں گے۔ یہاں انھیں امتیازی سلوک سے پاک مفت علاج میسر ہوگا۔

میں نے رانی خان سے کہا کہ اسکے بعد کیا کرنا چاہتی ہیں تو انھوں کہا کہ ہسپتال کی دوسری منزل پر خواجہ سراء کمیونٹی کیلئے باقاعدہ سکول انکا اگلا مشن ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors

ہماری دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ  رانی خان کو نیک مقاصد میں کامیابی عطا فرمائے اور وہ اسی طرح ملک کا نام روشن کرتی رہیں ۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply