اتنا توتسلیم کیا جاتا ہے کہ یہ ملک مسلمانوں کے لیے بناتھا، مسلمان کسی اچار کے مرتبان کا نام ہوتا تو کسی بھی خانے میں خاموشی سے رکھ دیا جاتا- مسلمان بذاتِ خود ایک عقیدے ، نظریے ، فلسفے اور سوچ و فکر کا نام ہے- جو ملک مسلمان کے لیے بنایا جائے گا وہاں قوانین و آئین اس مسلمان کی سوچ،عقیدے، نظریے اورفلسفے کے آئینہ دار ہوں گے- کہا جاتا ہے عقیدے کی بنیاد پہ تفریق نہیں ہونی چاہیے، کیوں نہیں ہونی چاہیے، اسی تفریق کی بنیاد پہ ملک تقسیم ہوسکتا ہے تو ملک کے اندر تفریق کیوں نہیں ہوسکتی-
میرا سوال انتہائی سادہ ہے، اس ملک کو بننا مسلمان کے لیے تھا مگر بننا سیکولر ہی ہےتھا تو میرے اجداد کو کیا ضرورت پڑ گئی تھی ہندوستان کے ہریانہ کی مٹی ، کھیت کھلیان ، فصلیں، مال مویشی ، پڑوسی بھائی ہندو جاٹوں اور ہیروں کو چھوڑ کر میانوالی کے کھیت بسانے کی-
پچھلے مہینے دبئی ہوٹل میں ہریانہ کے دوہندو جاٹوں سے ناشتے کے بعد ملاقات ہوگئی- میں نے کہا آپ کا بول چال، میرے ساتھ پیار سے پیش آنا، آپ کے چہرے مہرے ایک ایک چیز سے ایسے لگ رہا ہے جیسے میں کہیں اپنے سگے بھائیوں یا گاؤں میں محبت بھرے برادری کے بھائیوں میں بیٹھا ہوں- ہمیں یہ بتایا گیا ہے کہ جب اجداد نے وہاں ہندوستان کے ہریانہ سے رختِ سفر باندھا تو گاؤں میں موجود ہندو جاٹ اور ہیر روتے ہوئے گاؤں سے باہر تک چھوڑنے آئے تھے، اور کہتے تھے کیوں جاتے ہو- گھروں کو تالا لگادیا گیا تھا اور مال مویشی پڑوسی ہندو جاٹوں یا ہیروں کے حوالے کئے گئے تھے کہ کچھ روز میں واپسی ہوگی تو واپس لے لیں گے-
گاؤں کے دو بڑے حصے تھے؛ مڑھودی رانگڑاں اور مڑھودی جاٹاں- رانگڑ مسلمان راجپوت تھے اور جاٹ ہندو- بتایا یہ جاتاہے کہ ایک دوسرے کو مذہبی بنیادوں پہ کوئی تکلیف نہیں دی جاتی تھی، مندر میں گھنٹیاں بھی بجا کرتیں اور اذانوں سے مساجد بھی آباد ہوا کرتیں- کوئی ایسی معاشی قندغن بھی نہیں تھی- وہ بھی اپنے کھیتوں میں ہل چلاتے یا فوج میں بندوق، ان رانگڑ مسلمز کو بھی مکمل آزادی تھی کہ ہل جوتیں یا فوجی بن کر بندوق چلائیں- ایک تایا انگریز کی فوج میں رسالے میں گھڑ سوار اور بہترین نشانہ باز بندوقچی تھا، دوسرے تایاجان فوج میں ڈاکٹر تھے، انسانوں کے نہیں گھووڑوں کے- میری اماں کا خاندان روہتک شہر میں رہتا اور ٹرانسپورٹ چلانے کا کاروبار بڑے سکون سے کرتا تھا- ہمارا پورا مڑھود گڑھ اٹھا اور بڑے سکون سے مہاجرین کمپس سےہوتا میانوالی پہنچ گیا جہاں انہیں رہنے کو گھر اور کاشت کاری کے لیے زمین میسر آگئی- نانا کا خاندان روہتک سے اٹھا ، پیر محل اور مظفر گڑھ آباد ہوگیا، کاروبار پاکستان آنے کے بہت بعد نااہلیوں کے ہاتھوں برباد ہوا-
میں یہ سمجھتا ہوں سب مہاجرین کی کہانی اسی کہانی سے ملتی جلتی ہے-
یقینا ًبلوائیوں کا نشانہ بھی لاکھوں لوگ بنے – لیکن بلوے تقسیم کے بعد ہوئے، تقسیم سے پہلے ہندو مسلم فسادات ضرور ہوتے ہونگے، مسلمان مارے جاتے ہونگے، مسلمانوں کی منصوبہ بند معاشی ناکہ بندی بھی ہوتی ہوگی- مارے تو آج کے پاکستان میں بھی جارہے ہیں، اجارہ داریوں اور ملاوٹ کا نشانہ تو ہر کمزور طبقہ اس آزاد جناح کے پاکستان میں بھی ہے- فٹ پاتھوں، جھگیوں کچی بستیوں میں سونے والے، دہشت گردوں کی دہشت کا نشانہ بن کر لقمہِ اجل ہوجانے والے، ریاستی اداروں کی ماورائے عدالت و قانون کارروائیوں کا شکار ہوجانے والوں کی کمی ہے تو مجھے بتائیے- رشوت اور سفارش کی چکی میں کیا باصلاحیت غریب کو کچل نہیں دیاجاتا، مذہب تک نہیں پوچھا جاتا-
وہاں ہندوستان کے ہریانہ میں دستیاب ان ساری آزادیوں کے باوجود وہ ملک چھوڑ کر اس ملک میں آنے کی وجہ صرف معاشی امکان اور امن کی تلاش نہیں ہوسکتی- یہ مذہب کے مکمل اور ہر ذاتی اور ریاستی معاملات میں اطلاق کا ہی معاملہ تھا- ریاستی مشینری ہوتی ہے اور مشینری کا کوئی مذہب نہیں ہوتا، اس جواز کا ایک ایسے لوگوں کی ریاست پہ اطلاق نہیں کیا جاسکتا جو ایسے مذہب کو مانتے ہوں جو انفرادی زندگیوں کے ساتھ ساتھ فرد کی اجتماعی زندگیوں میں بھی دخیل ہونے کا نظریہ رکھتا ہو- مذہب فرد کا ذاتی معاملہ ہے، یہ بڑی خوبصور ت بات ہے، لیکن مسلمان جس مذہب کو مانتے ہیں وہ اس خوبصورت بات کو من و عن نہیں مانتا، کچھ چیزوں کے انفرادی معاملہ ہونے کا حامی ہے لیکن کچھ چیزوں کو اجتماعی بتاتا ہے- اور کچھ ذاتی سمجھے جانے والے معاملات میں دخیل بھی ہوجاتا ہے- مرد و زن کا باہم تعلق استوار کرنا جدید معاشروں میں انتہائی ذاتی معاملہ ہے لیکن مذہب ِ اسلام اس کی حدود قیود بیان کردیتا ہے-
اس سارے تناظر میں قادیانی مسلمان ہیں یا نہیں ایک مکمل مذہبی بحث ہے- ریاست کسی کے مذہب کا تعین کرسکتی ہے یا نہیں- پاکستان میں ایک ریاست کو ایسا کرنا پڑے گا ،کیونکہ تسلیم شدہ ہے کہ یہ ریاست مسلمانوں کے لیے بنی ہے- اب مسلمان کون ہے اور کون نہیں اس کا تعین کرنا اس ریاست کا فرض قرار دیا جائے گا-
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں