پاکستانی ڈرامہ انڈسٹری کا زوال۔۔ضیغم قدیر

پاکستان کی ڈرامہ اندسٹری پہ بار ہا تنقید سننے کو ملتی ہے۔ اکثر یہی گِلہ سننے کو ملتا ہے کہ یہ ڈرامے معاشرے میں نفرت پھیلانے کا سبب بن رہے ہیں اور انکے پاس تخلیقی موضوعات نہ  ہونے کے برابر ہیں۔

اگر ہم ڈرامہ انڈسٹری کو بخوبی دیکھیں تو پچھلے زیادہ تر عرصے میں بنے ڈرامے بجائے قلم کار کی ذہنی تخلیقیت کا اظہار کرنے کے زیادہ تر قلم کار اپنی ذہنی الجھنوں اور مسائل کو ڈسکس کرتے نظر آتے ہیں۔

میں نے خلیل الرحمان قمر کے تین ڈرامے دیکھے ہیں، پہلا ڈرامہ “میرے پاس تم ہو” تھا۔ ڈرامہ ایک دوست نے ریکمنڈ کیا ،سو دیکھنا پڑا، پہلی قسط دیکھ کر ہی کہہ دیا کہ رائٹر نے اپنی ذہنی فرسٹریشن کرداروں پہ اتاری ہے۔

اس پر وہ گویا ہوئیں ” ضیغم ہاں، انکی پرسنل لائف ایسی ہی تھی”

پتا تو چل چکا تھا مگر پھر مزید خلیل صاحب کے ڈرامے دیکھے اور میرا یہ پوائنٹ مزید ویلڈ بنتا گیا کہ خلیل صاحب نے ان ڈراموں میں نا صرف اپنی ذہنی فرسٹریشن نکالی ہے بلکہ کرداروں کو استعمال کرتے ہوئے اپنی حسرتوں کو بھی پورا کرنے کی کوشش کی ہے۔

یہ کہنا انتہائی غلط ہوگا۔ مگر مجھے انکے ڈرامے کسی طور سے بھی ایک “نارمل انسان” کے ذہن کی تخلیقی پیداوار نہیں لگے۔

اور یہ ایک المیہ ہے۔ اس وقت ہمارے زیادہ تر قلم کار اپنی ذہنی الجھنوں کو اپنے سامعین کے ذہنوں میں اُتار رہے ہیں۔

حالیہ دنوں میں ایک اور ڈرامے کی مصنفہ کا انٹرویو پڑھا۔ ڈرامے کا نام جلن اور مصنفہ کا نام سدرہ سحر تھا۔ پہلے ڈرامے کا بنیادی تصور دیکھا تو پسند آیا کہ سالی اور بہنوئی کے ریلیشن پہ قلم اٹھایا گیا ہے ۔ لیکن جب سدرہ صاحبہ پہ تنقید ہوئی اور تنقید کے جواب میں مؤقر برقی جریدے نے انکا انٹرویو لیا تو اس انٹرویو کے پہلے دو جوابات سن کر ہی پڑھنے والے کو اندازہ ہو جاتا ہے کہ مصنفہ نے ڈرامہ اپنی فنی صلاحیتوں کے اظہار کے لئے نہیں بلکہ اپنا ذہنی غبار نکالنے کے لئے لکھا ہے۔

محترمہ کے جوابات اتنے بچگانہ اور عامیانہ سے تھے اور دلائل اتنے بودے سے تھے کہ لگتا ہی نہیں کہ انہوں نے یہ ڈرامہ کوئی اچھائی پھیلانے واسطے لکھا تھا بلکہ صاف صاف عیاں تھا کہ انہوں نے بس غبار نکالا ہے۔ کیونکہ اگر وہ ایک بنیادی تصور کو مدنظر رکھتے ہوئے یہ ڈرامہ لکھتی تو اتنے عامیانہ انداز میں اپنے آپ کو کیوں ڈیفنڈ کر رہی ہوتی؟

Advertisements
julia rana solicitors

آج کا المیہ یہ ہے کہ ہمارے قلم کار اپنی تحاریر میں اپنی تخلیقی صلاحیتوں کا اظہار کرنے کی بجائے اپنی تحاریر میں اپنی ذاتی پسند نا پسند کو کھل کر بیان کر رہے ہیں۔ معاشرے کا زوال یہی ہے کہ یہاں ذہنی تناؤ کے شکار لوگ استاد اور راہنما بن چکے ہیں۔ جو اصل استاد اور لکھاری ہیں وہ روٹھ چکے ہیں۔ اور یہی معاشرتی زوال کی وجہ ہے۔ زیادہ تر لوگ ذہنی تناؤ کا شکار ہیں اور المیہ تب وجود پاتا ہے جب یہ تناؤ کا شکار لوگ قلم اٹھاتے ہیں اور ان کو عوام میں پذیرائی ملتی ہے۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

براہ راست ایک تبصرہ برائے تحریر ”پاکستانی ڈرامہ انڈسٹری کا زوال۔۔ضیغم قدیر

Leave a Reply