• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • امریکی پاپولسٹ لہروں کا جوار بھاٹا۔۔سیف اللہ خالد

امریکی پاپولسٹ لہروں کا جوار بھاٹا۔۔سیف اللہ خالد

عالمی سرمایہ دار سامراج کا تیارکردہ سرمایہ دارانہ جمہوریت کا سیاسی نظام اگرچہ سامراجی ڈاکٹرائن پہ پیدا ہونے والی ریاستوں کیلئے ایک خاص بندوبست ہوتا ہے۔ مگر کثیر جہتی حیثیت کی حامل عوام،ریاستوں اور خطوں میں اس انتظام کو کبھی کبھی دیگر طاقتوں کی مداخلت و اثر کے باعث کامیابی میں دشواری یا ناکامی کا سامنا بھی کرنا پڑتا ہے۔ ایسے احوال میں عالمی سامراج اپنے کئی خاص سیاسی ہتھیار استعمال کرتا ہے تا کہ اسکا غلبہ قائم و دائم رہے۔

ان انتظامات میں سے ایک انتظام پاپولرازم بھی ہے۔ یعنی اپنے خاص سیاسی منصوبوں کو پُرکشش ظاہری نعروں و دعوؤں کے غلاف میں لپیٹ کہ اور اس پہ تیارکردہ مہروں کو بلند و بالا شہرت کے ساتھ معاشرے کی نفسیات پہ غالب کیا جائے اور پھر معاشرتی نفسیات سے مشہور کردہ شخصیت و پلان پہ سیاسی حمایت حاصل کرلی جائے۔ شخصیت پرستی کے اثرات کا شکار ایک مجہول یا سادہ طبیعت معاشرہ اس شاطر مکر کو جان نہیں پاتا اور خود کو اپنے ہی خلاف بنُے جال میں گرفتار کروا لیتا ہے۔

پاپولرازم کو بطور سیاسی ہتھیار استعمال کرنے کی ایک طویل تاریخ ہے مگر حالِ قریب میں منظم عالمی و علاقائی  عملی لہر چلائی گئی۔ اس حربے میں اپنے معتمدِ خاص مہروں کو مغربی سامراجی اداروں، میڈیائی  سپورٹ، جھوٹی پروپیگنڈائی  طاقت، مقامی ریاستی اداروں اور ان میں موجود اپنے سربسجود غلاموں کو دیے گئے ایجنڈے کے مطابق کام میں لایا گیا۔ چونکہ اقوام کے سیاسی مقدمے مغربی سامراجی رویوں اور پالیسیوں کیخلاف مضبوط تھے کہ ان کو سیاسی دلائل، مکالمہ و شعوری معقولیت کے  ساتھ شکست نہیں دی جاسکتی تھی تو پاپولرازم ہی مناسب ترین ہتھیار تھا۔ چونکہ پاپولرازم میں شہرت کے حامل افراد کارآمد ترین مہرہ ہوتے ہیں لہذا اسکے قبل از وقت انتظام کے لیے ماضی میں بہت سے افراد کو چن چن کر کامیابیاں دلا کر، شہرت کے انتظامات سے کرشماتی شخصیت بنا کر  قوموں کے اذہان پہ چپکانے کا کام بخوبی ہوتا رہا۔ پاپولرازم کے ان سامراجی انتظامات کے تحت اپنے پاپولر مہروں کو میڈیائی  لہروں پہ اُڑایا گیا۔ نتیجتاً امریکہ میں ٹرمپ، بھارت میں مودی، سعودیہ میں ولی عہد محمد بن سلمان اور پاکستان میں عمران خان اپنے اپنے عوام کی اکثریتی سیاسی رائے عامہ میں مردود ہونے کے باوجود پاپولرازم کے پردے میں ہر جائز و ناجائز حربہ اور ریاستی طاقت استعمال کروا کر  حکمرانی میں لائے گئے۔

اب احوال یوں ہیں کہ پاپولرازم کی  لہر چلا کر  منتخب مہرے تو بٹھادیے گئے ہیں مگر آقائے امریکہ کی اپنی معاشی و عالمی سیاسی چولیں ڈھیلی ہونے سے اسکے لائے گئے علاقائی  حکمران مہرے اپنے علاقائی  ریاستی میدان میں وہ سیاسی و معاشی کمک حاصل کرنے میں ناکام رہے جو محاذ جیتنے کیلئے پیہم درکار ہوتی ہے لہذا پاپولسٹ مہرے بتدریج مردود، کمزور و غیرمقبول ہوتے جارہے ہیں۔ اس پہ مستزاد یہ کہ پاپولرازم کی اس لہر میں پاپولسٹ سواروں و پیادوں کا کنگ ڈونلڈ ٹرمپ بھی امریکی معاشی توازن کے بگڑنے پہ کمزور ہوتی سیاسی ساکھ کے بحران کا شکار ہے اور الیکشن کمپین میں لگائے گئے سفید فاموں کی برتری کے پالولر نعروں کے فطری سیاہ فامی ردعمل کو سنگین معاشی بحران کے وقت طاقتور عوامی احتجاجی لہروں کیساتھ بھگت رہا ہے۔

ہندوستان قومی سیاست اپنی کثیر القومی و کثیرالمذہبی حقیقتوں کے باعث سیکولرازم کے کامیاب ڈرافٹ پہ چل رہی تھی۔ سامراجی منصوبے کی مذکورہ پاپولرازم کے پلان نے آئینی سیکولرازم کے قومی تقاضوں کو پاش پاش کر کے  پاپولسٹ نریندر مودی کے ہاتھوں ہندوستانی قومی و سیاسی بُنَت کو کمزور کیا۔ اور فقط اقتداری خواہش کی تکمیل کے بدلے مودی اپنی ہی ملکی سلامتی کیخلاف ہندوتوا کے پلان پہ مشتمل ٹرمپی پالیسیوں پہ جا کھڑا ہوا۔ اس سبب ملنے والی عالمی اداروں کی ناجائز پشت پناہی سے بھارتی معیشت کا جو تاثر مضبوط تر تھا اب وہ تاثر بھی کافی کمزور ہو رہا ہے اور آنے والا وقت مودی کو اسکی اپنی الیکشن کمپین میں روارکھی گئی  مسلم دشمن مہم جوئی  کا اسی طرح ردعمل دیتا دکھائی  دے رہا ہے جس طرح سفید فاموں کی برتری کے نعروں کا ردعمل آج امریکہ میں سیاہ فاموں کی مزاحمت کی صورت نظر آ رہا ہے۔

سعودی عرب میں ٹرمپ کی منشا پہ سجدہ ریز محمد بن سلمان کے اقدامات کیخلاف عوام میں موجود ردعمل کو اگر اگلے بادشاہ کے انتخاب کے موقع پہ بےلگامی مل گئی  تو سعودیہ اپنی سیاسی تاریخ کا انتہائی  اہم منظر دیکھنے والا ہے۔ یاد رہے کہ شاہی روایات و اصول کے مطابق سبعون السدیریون (شاہ عبدالعزیز بن السعود کے سات بیٹے) بادشاہت کے سب سے پہلے حقدار ہیں جن میں سے شاہ خالد بن عبدالعزیز مرحوم، شاہ عبداللہ بن عبدالعزیز مرحوم کے بعد صرف دو بیٹے باقی ہیں ۔ ایک موجودہ بادشاہ سلمان بن عبدالعزیز اور دوسرا حال ہی میں لندن پلٹ شہزادہ احمد بن عبدالعزیز۔ شاہ سلامن بن عبدالعزیز کی وفات کے بعد شاہ عبدالعزیز بن السعود کا آخری بیٹا اور بادشاہت کا یکتا حقدار احمد بن عبدالعزیز ہوگا جسکا راستہ روکنے کیلئے اور بادشاہت کی خواہش میں ہر جائز و ناجائز امر کرنے والا موجودہ ولی عہد محمد بن سلمان بہرصورت ٹرمپ مافیا کی پشت پناہی پہ کمربستہ ہے۔ لہذا موجودہ شاہ سلمان کے بعد اگلے بادشاہ کی تخت نشیی کا مرحلہ انتہائی  سنگین و حساس ہوگا جبکہ اس وقت محمد بن سلمان کے پشت پناہ ڈونلڈ ٹرمپ کا بطور حکمران موجود ہونا نظر نہیں آتا۔

پاکستان میں بطورِ پاپولسٹ ہوا کے گھوڑے پہ سوار عمران خان نے اپنی الیکش کمپین میں بلند و بانگ دعوے و نعرے دیے مگر اپنی ناکام ترین حکمرانی سے ملکی سلامتی، معیشت، یکجہتی و استحکام کو سنگینی میں ڈالنے والا پاپولسٹ مہرہ اور اسکے ہرکارے پاکستانی عوام میں بہت تیزی سے غیرمقبول ہوتے جارہے ہیں۔

پاپولرازم کے تحت اپنے مہروں کو حکمران بنانے والوں نے مصری معیشت برباد کرنے والے باقر رضا کو پاکستان تو بھیج دیا اور وہ دستیاب حالات میں پاکستانی معیشت کی تباہی کیلئے ہرممکن قدم اٹھا بھی رہا ہے مگر مصری جنرل سیسی کی طرح ہمارے والے ہمت نہیں کر پا رہے۔ حالانکہ وہ مصری جنرل سیسی سے بھی دو ہاتھ آگے زیادہ چاہتے ہیں مگر علاقائی عوامل کا فرق ہے یا ڈھلتی عمر کا تقاضا ، عمران خان کی غیرمقبولیت کے ساتھ جرنیلی سیاست کو ملنے والی غیرمقبولیت ہے یا  آئینی و انتظامی طور پہ بیجا آرمی چیف کا عہدہ رکھنے کا ادراک و احساسِ جرم ہے کہ قدم کمزور ہوئے جاتے ہیں اور فوجی اقتدار کا معاملہ لٹکا ہوا سا ہے۔

اس سے پہلے نوازشریف تھا جو جرنیلی سیاست سے بغاوت کر کے  طیب اردگان بننا چاہتا تھا مگر مالکانِ ریاست نے شاید اسے مرسی بنانے کی ٹھان لی مگر نہ وہ طیب اردگان کی طرح غالب آ سکا اور نہ ہی مرسی کی طرح مغلوب ہو سکا۔ اسکا معاملہ بھی لٹکا ہوا ہے۔

مغربی سامراج کی آنکھ کا تارہ اور صوفیائی  ناٹک والا پاپولسٹ عمران خان یورپ کی مثالیں دیتا ہوا آیا۔ چناؤ کے قریب مجہول سادہ عوام کے لیے  مدینہ جیسی ریاست کے جذباتی مذہبی سیاسی نعرے کا بطورِ ہتھیار استعال کیا مگر دو سال گزرنے کو آئے ہیں تو مدینہ جیسی ریاست کے پروجیکٹ کی ناکامی پہ اب خلافت عثمانیہ کی جانب للچا رہا ہے۔ پاپولرازم کے پلان پہ کام کرنیوالے اسے لانے والے مخصوص طاقتور طبقے میں اب اسکی حمایت بہت زیادہ ختم ہوچکی بلکہ اب اس بھاری پتھر کو ایوان اقتدار سے نکال پھینکنے اور کسی کارآمد فرد کو لا کہ اپنے وقار کی ڈوبتی ناؤ کو نیا چپو لگا کہ بچانے کی بات زیادہ تر سنی جا رہی ہے۔ اسکا معاملہ بھی لٹکا ہوا ہے۔

ملکی سلامتی و معیشت کے امور میں پیراڈائمز کی حیثیت والے امور کشمیر و سی پیک بھی متذبذب پالیسیوں کے مابین ہیں۔ کشمیر ٹرمپی سرپرستی میں مودی و عمران کے پاک و ہند کے مابین لٹکا ہوا ہے۔ سی پیک بھی پاکستان کی چینی دوستی اور امریکی یاری کے مابین لٹکا ہوا ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

انہی بین بین لٹکے ہوئے  سٹریٹجک ریاستی امور اور تذبذب میں ڈوبے حالات و احوال کی ترشی میں دیکھتے رہیے کہ پاپولرازم کی لہر سے بچھائی  گئ اس بساط و مہروں کیخلاف کس بہانے سے اور کب عوامی ردعمل امڈ آتا ہے۔ دیکھتے رہیے کہ جو لٹکا ہے وہ نیچے اترتا ہے یا اوپر چڑھتا ہے۔ بہرحال آنکھیں منتظر ہیں اس منظر کو دیکھنے کی جو کہ ذرا دیر سے ہوگا، مگر اتنی دیر سے بھی نہیں ہوگا اور ضرور ہوگا۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply