• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • غزہ کی پھیلتی جنگ اور امریکی مفادات/ڈاکٹر ندیم عباس

غزہ کی پھیلتی جنگ اور امریکی مفادات/ڈاکٹر ندیم عباس

انڈین سمندری حدود سے محض تین سو کلومیٹر دور ایک تیل لے جانے والے بحری جہاز پر ڈرون حملہ کیا گیا۔ اس کے نتیجے میں جہاز میں آگ لگ گئی اور پانی بھی بھر گیا۔ اس سب کے باوجود جہاز پر موجود افراد میں سے کوئی ہلاک یا زخمی نہیں ہوا۔ انڈیا نے فوری طور پر اپنے فوجی بحری جہاز مدد کے لیے بھجوائے ہیں۔ یہ بحر ہند کے پانیوں میں کسی جہاز پر پہلا ڈرون حملہ تھا۔ اس سے باب المندب کے ساتھ ساتھ بحر ہند میں بھی تجارتی سرگرمیاں متاثر ہونے کا شدید خدشہ پیدا ہوگیا ہے۔یورپ کی جہاز رانی کی پانچ بڑی کمپنیوں نے بھی یہ اعلان کیا ہے کہ وہ تجارت کے لیے بحر احمر کا روٹ استعمال نہیں کریں گی۔ اس سے ان کی پورٹ کی سپلائی لائن بہت متاثر ہوگی۔ سامان پہچنے میں لمبا راستہ طے کرنا پڑے گا، جس سے زیادہ وقت بھی خرچ ہوگا اور تیل بھی زیادہ لگے گا، جس سے یورپ میں ایشیاء سے جانے والی اشیاء مہنگی ہو جائیں گی۔

بین الاقوامی میڈیا کے مطابق بحیرہ احمر میں ہونے والے حملوں سے بچانے کے لیے متبادل راستوں سے گزرنے پر مجبور کیا گیا تو پیٹرولیم مصنوعات سمیت، الیکٹرانک آلات اور ٹرینرز (جوتے) جیسی روزمرہ اشیاء کی قیمتوں میں تیزی سے اضافہ ہوسکتا ہے۔ صرف باب المندب کے بند ہونے سے نہر سویز میں تجارتی سرگرمیاں ماند پڑ رہی ہیں۔ یہ بہت بڑا نقصان ہے، دنیا کی تجارت کا 12 فیصد حصہ بحیرہ احمر کے شمالی سرے پر موجود نہر سویز سے گزرتا ہے۔ اس کے ساتھ وہاں سے گزرنے والے سامان تجارت میں دنیا کے 30 فیصد کنٹینرز بھی شامل ہیں۔ آپ خود سوچیں اگر صرف باب المندب ساری بین الاقوامی تجارت کے لیے خطرناک ہوتا ہے تو اس سے دنیا میں نقل و حمل کا سستا ترین راستہ بند ہو جائے گا۔

اسرائیل کی ایلات کی بندرگاہ پچاسی فیصد بند ہوچکی ہے، آج کل ویرانی کا منظر پیش کر رہی ہے اور لوگ بے روزگار ہو رہے ہیں۔ اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ اسرائیل کس بری طرح سے اس جنگ کے اثرات میں پھنس چکا ہے۔ اب اس نے کئی یورپی ممالک کو ساتھ ملا کر ایک فورس بنائی ہے، جو خطے میں حوثیوں سے نبرد آزما ہونے کا ارادہ رکھتی ہے، مگر حقیقت یہ ہے کہ کوئی بھی اسرائیل کے لیے براہ راست لڑنے کے لیے تیار نہیں ہے۔ یہ جنگ امریکی ورلڈ آرڈر اور پالیسی شفٹ کے بھی خلاف ہے۔ قارئین کو یاد ہوگا کہ ہم نے بھی اس پر بار بار لکھا کہ طالبان سے شکست کے بعد امریکی پالیسی انڈو سپیفک ہو رہی ہے اور اس پر نئے اتحادوں کا بھی اعلان ہوا۔ امریکی فیصلہ سازوں نے روس کو یوکرین میں اپنے حساب سے انگیج کر لیا، اب ان کے لیے پوری توجہ چین پر دینے کا وقت ہے۔

ایسے میں حماس کی کارروائی اور اسرائیل کی انسانیت سوز یلغار نے امریکہ کی توجہ چین سے ہٹا دی ہے۔ اسرائیل سعودی تعلقات کی گرم جوشی کو اسی نظر سے دیکھنا چاہیئے۔ اس وقت غزہ کی جنگ امریکہ کو تکلیف دے رہی ہے، کیونکہ اس کے خیال میں یہ چند دنوں میں ختم ہو جانا چاہیئے تھی، مگر یہ جاری ہے اور اسرائیلی افواج کی نااہلیوں سے پردے اٹھ رہی ہے۔ خطے میں جنگ پھیلنا امریکی مفاد میں نہیں ہے، اسی لیے ہم دیکھتے ہیں خطے میں جنگ بندی کی کوششیں ہو رہی ہیں۔ مصر کی جانب سے تجویز کیے گئے جنگ بندی کے نئے معاہدے کا اطلاق تین حصوں میں ہوگا: جنگ بندی کے پہلے مرحلے میں سات سے 10 روز تک لڑائی میں وقفہ ہوگا، تاکہ انسانی امداد کی کارروائیاں ممکن ہوسکیں۔ اس دوران حماس اسرائیلی جیلوں میں قید کچھ فلسطینیوں کی رہائی کے لیے اپنے پاس موجود تمام قیدیوں کو رہا کرے گا۔

دوسرا مرحلہ ایک ہفتہ طویل ہوگا۔ اس دوران حماس تمام اسرائیلی خواتین فوجیوں کو رہا کرے گا اور اس کا تبادلہ مزید قیدیوں اور سات اکتوبر سے زیرِ تحویل لاشوں سے ہوگا۔ تیسرا مرحلہ ایک ماہ طویل ہوگا، جس میں بقیہ اسرائیلی اور فلسطینی قیدیوں کو رہا کیا جائے گا۔ اسرائیل غزہ کی پٹی سے انخلا کرے گا اور تمام فضائی کارروائیاں روک دے گا۔ اس حوالے سے مصر میں قطری اور امریکی نمائندوں کی موجودگی میں مذاکرات ہوں گے۔ اس کے مقابل دیکھیں تو جنگ پھیل رہی ہے۔ وہ جنگ جو پہلے دن صرف اسرائیل اور حماس کے درمیان تھی، پھر اس میں حزب اللہ بھی شامل ہوگئی۔پھر ہم نے دیکھا کہ شام اور عراق میں بھی یہ جنگ شروع ہوگئی ہے۔ اہل یمن نے تو باقاعدہ باب المندب کو اسرائیل کے لیے بند کر دیا ہے اور اب اہل یمن کے حملے بحر ہند تک پہنچ چکے ہیں۔ یوں لگتا ہے کہ پورا خطہ ہی جل رہا ہے۔ شام میں مزاحمت اس قدر زیادہ ہوئی کہ امریکی افواج کا معمول کا گشت بھی ختم کر دیا گیا۔

Advertisements
julia rana solicitors

اسرائیل نے شام میں موجود اسلامی جمہوریہ ایران کے پاسداران کے ایک اڈے پر حملے کیے ہیں۔ ان حملوں میں پاسداران کے جنرل رضی موسوی کو شہید کر دیا ہے۔ان کے ساتھ ساتھ کئی اور اہم لوگ بھی شہید ہوئے ہیں۔ اس واقعے کے بعد ایران میں شدید غم و غصہ پایا جاتا ہے۔ اس سب کا نتیجہ یہ ہے کہ جنگ مزید پھیلے گی اور اس کا پھیلنا امریکہ اور اسرائیل دونوں کے لیے ٹھیک نہیں۔ چین دور کھڑا بڑی خاموشی سے امریکی بے بسی کو دیکھ رہا ہے۔ چین کو تو وقت ہی چاہیئے، تاکہ وہ جلد از جلد اس گیپ کو ختم کر دے، جو امریکہ اور چینی معیشت میں موجود ہے۔

Facebook Comments

ڈاکٹر ندیم عباس
ریسرچ سکالر,اور اسلام آباد میں مقیم ہیں,بین المذاہب ہم آہنگی کیلئے ان کے کام کو قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply