• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • کیا چین کا اشارہ پاکستان کی طرف تھا؟۔۔آصف محمود

کیا چین کا اشارہ پاکستان کی طرف تھا؟۔۔آصف محمود

چینی وزیر خارجہ نے ایران میں کھڑے ہو کر بھارت پر ایک ذو معنی فقرہ اچھالا،پاکستان میں یاروں نے ضد شروع کر دی کہ یہ اڑتا تیر تو ہم اپنی’’ بغل‘‘ میں لے کر ہی رہیں گے۔یہ کفران نعمت تو ہم سے نہیں ہوتا کہ اڑتا تیر دکھائی دے اور ہم اسے اپنی’’ بغل ‘‘میں نہ لے لیں۔ ذرا دیکھیے انہوں نے کہا کیا؟ان کا کہنا تھا کہ ایران دوسرے ممالک کے ساتھ اپنے تعلقات کا تعین آزادانہ طور پر کرتا ہے اور وہ ان ممالک کی طرح نہیں جو ایک فون کال پر اپنی پوزیشن بدل لیتے ہیں۔ مقرر ، مقام اور سیاق و سباق ، ہر پہلو سے واضح تھا کہ چینی وزیر خارجہ کا اشارہ بھارت کی طرف ہے۔امور خارجہ پر جن کی نظر رہتی ہے وہ خوب جانتے ہیں مخاطب کون تھا۔لیکن دلبران شہر کو ضد سی ہونی لگی کہ اس اڑتے تیر کی منزل مقصود ’’ بغل‘‘ ہی ہونی چاہیے۔ یہ اشارہ بھارت کی طرف کیسے تھا؟آئیے اس معاملے کو سیاق و سباق میں دیکھتے ہیں۔ بھارت اور ایران کے درمیان بہت اچھے تعلقات ہیں۔ایران سے 4 لاکھ 25 ہزار بیرل تیل روزانہ بھارت جاتا رہا ہے۔بھارت کو تیل فراہم کرنے والا دوسرا بڑا ملک ایران ہے اور ایران میں تیل اور گیس کی صنعت میں سرمایہ کاری کرنے والا سب سے بڑا ملک بھارت ہے۔بی بی سی کے ایک سروے کے مطابق ایران وہ ملک ہے جہاں بھارت کے بارے میں دنیا بھر میں سب سے اچھی رائے رکھی جاتی ہے ۔71 فیصد ایرانی بھارت کے بارے میں اچھی رائے رکھتے ہیں۔ امور خارجہ میں بھی دونوں ممالک کے درمیان بڑی قربت ہے۔ افغانستان میں بھارت اور ایران دونوں شمالی اتحاد کی معاونت کرتے رہے۔یہ حقیقت بھی کسی سے ڈھکی نہیں کہ او آئی سی میں بھارت کے خلاف پاکستانی قراردادوں کی ایران نے مخالفت کی۔چاہ بہار کی بندرگاہ میں 20 ارب ڈالر تک سرمایہ کاری کے بھارتی منصوبے بھی تاریخ کا حصہ ہیں۔چاہ بہارکو دیگر علاقوں سے ملانے کے لیے ہائی ویز کے بہت بڑے منصوبوں میں بھی بھارتی معاونت اور سرمایہ کاری شامل ہے۔یاد رہے کہ چاہ بہار گوادر سے صرف 76’’ناٹیکل مائلز‘‘ کے فاصلے پر ہے۔یہاں سے ایک طویل سڑک کو لے جا کر قندھار ہرات ہائی وے سے ملانے کے منصوبے میں بھی بھارت نے سرمایہ کاری کر رکھی ہے۔ بھارت ایران کی چاہ بہار کے راستے سنٹرل ایشیاء اور افغانستان تک ایک ’’ ٹرانسپورٹ کاریڈور‘‘ بنانا چاہتا ہے۔اسی لیے بھارتی بحریہ کے ایڈمرل مدھوندرا سنگھ اور ایرانی وزیر دفاع علی شامخنائی نے دونوں ممالک کے درمیان ایک دفاعی معاہدے پر بھی دستخط کیے۔اس معاہدے کی تفصیلات میں جانے کا یہ وقت نہیں لیکن یہ ایک غیر معمولی معاہدہ تھا۔ اس دفاعی معاہدے کے بعد دونوں ملک بہت قریب آئے اور ایران کو یقین دلایا گیا کہ اب بھارت بین الاقوامی فورمز پر ایران کے موقف کے خلاف نہیں جائے گا۔ دو ہی سال بعد انٹرنیشنل اٹامک انرجی ایجنسی میں ایران کے خلاف معاملہ پیش ہوا۔ایران کو یقین تھا کہ نئی دوستی کے احترام میں بھارت ایران کے خلاف ووٹ نہیں دے گا کیونکہ بھارت ویسے بھی دنیا کے ان پانچ ممالک میں سے ایک ہے جنہوں نے ا بھی این پی ٹی ( نان پرولیفریشن ٹریٹی) پر دستخط نہیں کیے ہوئے۔ لیکن ہوا کیا۔ بھارت کو ایک فون کال آئی اور راتوں رات بھارت کا موقف تبدیل ہو گیا۔آخر وقت تک ایران کو تسلی دی جاتی رہے کہ بھارت آپ کے خلاف ووٹ نہیں دے گا اور پھرایران پر یہ جان کر حیرتوں کا پہاڑ ٹوٹ پڑا کہ بھارت نے اس کے خلاف ووٹ دے دیا ہے۔ سوال یہ ہے کہ جب بھارت ایران کو یقین دہانی کرا چکا تھا کہ وہ ا س کے خلاف نہیں جائے گا تو پھر اس نے یہ ووٹ ایران کے خلاف کیوں دیا ؟ کیا یہ بھارت کا اصولی اور دیرینہ موقف تھا یا کسی ایک فون کال پر دھمکی ملی اور بھارت نے پوزیشن بدل لی؟ بش انتظامیہ کے آفیشل سٹیفن ریڈیمکر نے اس راز سے پردہ اٹھاتے ہوئے کہا کہ ’’ میں وہ پہلا آدمی ہوں جو یہ تسلیم کر رہا ہے کہ بھارت سے یہ ووٹ جبرا اور ڈرا دھمکا کر دلوایا گیا‘‘۔آپ کہہ سکتے ہیں کہ ووٹ تو چین نے بھی دیا تھا لیکن کیا چین نے ایران سے کوئی ایسا معاہدہ کر رکھا تھا جیسا بھارت نے کر رکھا تھا؟ چینی وزیر خارجہ ایران میں کھڑے ہو کر اسی ووٹ کی طرف اشارہ کر رہے تھے کہ ایران ان ممالک کی طرح نہیں جو ایک فون کال پر اپنی پالیسی ہی بدل دیں اور رات تک ووٹ نہ دینے کا یقین دلاتے رہیں اور دھمکی ملے تو ایران کے خلاف ووٹ دے آئیں۔ سفارت کاری کی دنیا میں یہ ایک تیر تھا جو دلی کی طرف جا رہا تھا، بیچ میں کچھ احباب مچل گئے کہ اڑتا تیر ہے ، اب اسے کیسے جانے دیں،بغل میں لے کر ہی چھوڑیں گے۔ کل یہ خبر پڑھی تو TO WHOM IT MAY CONCERN کے عنوان کے ساتھ فیس بک پر لگا دی ۔ ٹریل سے وپس آ کرتبصرے پڑھے، تو حیران رہ گیا۔خود شکستگی اور مایوسی کے دیوان لکھے جا رہے تھے۔یہاں بھی دوستوں میں اس بات پر گویا اتفاق تھا کہ اڑتا تیر دلی نہیں جانے دینا ، اپنی بغل میں لینا ہے۔اب کس کس سے بحث کی جاتی، پوسٹ ہی ’’ اونلی می‘‘ کر دی۔ یہ تو وہی راحت اندوہی والی بات تھی کہ کیا ہمیں نہیں معلوم سرکار کہاں کی چور ہے؟ ہر بات کا ایک سیاق و سباق ہوتا ہے۔ مقرر ، مقام اور سیاق و سباق ہر اعتبار سے اس بات کا مخاطب بھارت ہے۔ مقرر چین ہے۔ چین کو پاکستان سے شکوہ کرنا ہو تو براہ راست کر سکتا ہے یا اور ہزاروں انداز موجود ہیں۔ چین اور پاکستان میں کیا تعلقات اتنے ہی خراب ہو چکے ہیں کہ یوں چین دوسرے ملک میں کھڑا ہو کر اس انداز سے ہماری تضحیک کرے گا؟ اگر ایسا ہے تو اس کے اثرات تو کہیں نظر آنے چاہییں تھے۔سفارتی سطح پر کوئی دوری یا سرد مہری؟ کچھ تو ہونا چاہیے تھا۔ چینی سفارت کاری مولا جٹ کا کھڑاک تو نہیں ہوتی کہ اچانک ہی گنداسہ لے کر چڑھ دوڑے۔اس میں سیاق و سباق اور معنویت کا ایک غیر معمولی اہتمام ہوتا ہے۔چین تو آپ کے خلاف قراردادوں کو آج بھی سیدھاویٹو کر دیتا ہے۔پھر ایسا کیا ہوا کہ وہ یوں پاکستان کو کوسنے دیتا پھرے؟ مقام کے انتخاب کو بھی دیکھیے۔دوسرے ملک میں کھڑے ہو کر پاکستان پر نشتر چلانے کا کام چین کیوں کرے گا؟ اور پھر ایران میں کیوں؟ ایران میں کھڑے ہو کر بھارت پر تو فقرہ اچھالا جائے تو اس کی ایک معنویت ہے کہ جس بھارت سے آپ دفاعی معاہدہ کر کے سمجھ رہے تھے وہ آپ کے خلاف نہیں جائے گا اس بھارت نے تو ایک امریکی کال پر پالیسی بدل لی اور انٹر نیشنل اٹامک انرجی ایجنسی میں آپ کے خلاف ووٹ دے دیا۔لیکن پاکستان پر فقرہ اچھالنے کا یہ کون سا موقع اور مقام تھا؟ یہ اڑتا تیر جدھر جا رہا ہے جانے دیجیے۔آپ کا شوق سلامت لیکن اس تیر کی منزل مقصود آپ کی ’’ بغل‘‘ نہیں، آپ کا پڑوس ہے۔ یاد رہے کہ خطے میں چین کا حریف بھارت ہے پاکستان نہیں۔

Facebook Comments

آصف محمود
حق کی تلاش میں سرگرداں صحافی

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply