تیری محفل میں لیکن ہم نہ ہوں گے/فرزانہ افضل

یہ سال کیسا گزرا کیا ، کتنی کامیابیاں حاصل ہوئیں ، کتنی ترقی ہوئی، زندگی میں اس برس خدا نے کون کون سی خوشیوں سے ہمکنار کیا، یہ تجزیہ بیشتر لوگ کرتے ہیں۔ مگر “کیا پایا” کے ساتھ ساتھ “کیا کھویا” کا ذکر کرنا بھی بہت ضروری ہے، کہ جیون میں کامیابی اور ناکامی، خوشی اور غمی کا چولی دامن کا ساتھ ہے۔ مجھے اللہ پاک نے کام کے حوالے سے بہت کامیابی عطا فرمائی، اپنی تنظیم کرییٹو مائنڈز میڈیا( سی ایم ایم )کی بنیاد رکھی، جس کی نمایاں کارکردگی سے آپ سب لوگ بخوبی واقف ہیں۔

اور جب کچھ کھونے یا نقصان کی بات کرتے ہیں تو ضروری نہیں کہ نقصان مالی ہی ہو ، نقصان جذباتی بھی ہوتا ہے۔ کئی تجربات ہوئے ہیں کچھ لوگ جو بظاہر دوستی کا دعویٰ  کرتے تھے ان کے اصلی چہرے کھل کر سامنے آئے، کامیابی، شہرت اور عزت جہاں انسان کو خوشی دیتی ہیں وہیں حاسدوں کی بے پناہ چال بازیوں اور بے جا مقابلہ بازی کی تکلیف بھی سہنی پڑتی ہے۔ کچھ لوگ اپنے مفاد کی خاطر یا محض حسد کی بِنا پر دوستوں کے درمیان تعلقات خراب کرتے ہیں ۔ خیر یہ سب تو زندگی کے ساتھ چلتا ہے۔ ” اب تو عادت سی ہے مجھ کو ایسے جینے میں”۔

جب آپ کسی شخص یا دوست کی حقیقت سے آشنا ہوتے ہیں یا تلخی اس قدر بڑھ جاتی ہے تو اکثر لوگ سوشل میڈیا اور واٹس ایپ پر بلاک کر کے غصے کا اظہار اور اپنے دل کو تسکین پہنچانے کی کوشش کرتے ہیں۔ میں نے بھی چند ایک کو بلاک کیا حالانکہ میری بلاک لسٹ میں انتہائی کم لوگ ہیں، زیادہ تر وہ  لوگ جو اِن باکس میں  آ کر پریشان کرتے ہیں مگر کسی جاننے والے کو میں نے شاذ و نادر ہی بلاک کیا ہو۔ اس کے علاوہ میڈیا سے تعلق رکھنے والے افراد نے عموماً ایک براڈ کاسٹ لسٹ بنائی ہوتی ہے یا سو ، دو سو لوگوں کا واٹس ایپ گروپ بھی ہوتا ہے ۔ جس میں سے لوگوں کو ان کے غیر مناسب رویے کی بنا پر کبھی کبھار نکال دیا جاتا ہے یا لوگ خود چھوڑ کر چلے جاتے ہیں ۔

میں نے بھی اپنے براڈ کاسٹ لسٹ میں سے اس سال چند افراد کو ریموو کیا، کہ اب ان سے کوئی لینا دینا نہیں، مگر جب چند روز قبل اپنی اس لسٹ سے ایک نمبر ریموو کیا تو دل کو شدید تکلیف ہوئی۔ زندہ لوگوں کو تو ناراضگی یا ناپسندیدگی کی بنا پر نکالا جاتا ہے مگر جب کوئی زندہ ہی نہ رہے تو اس کا نمبر ڈیلیٹ کرنے کا کیا کرب ہوتا ہے یہ پہلی بار محسوس ہوا۔

ظفر علی بلوچ (مرحوم) سات دسمبر 2023 کو ہم سب کو اچانک حیران پریشان اور غمگین چھوڑ کر اس جہان فانی سے رخصت ہو گئے۔ ان کی عمر قریباً 48 برس تھی۔ وہ میرے حلقہ احباب سے ایسے دوست تھے جن کا میں نے دل سے احترام کیا،کہ دور دور تک نظر کی پہنچ میں ظفر صاحب جیسا شریف النفس اور سلجھی ہوئی شخصیت کا مالک اور کوئی نہ تھا۔ وہ ایک کتاب دوست ، ادب شناس اور شاعری کا اعلیٰ مزاج رکھنے والے شخص تھے۔ میری ان سے جان پہچان کوئی پرانی نہ تھی۔ اسی برس 2023 کے اوائل میں حلقہ ارباب ذوق کے ایک مشاعرہ میں ان سے تعارف ہوا ۔ انہوں نے میری نظم کو بہت سراہا، ان کے ہمراہ محترم بزرگ شاعر مروت احمد بھی تھے ، دونوں حضرات سے قلیل عرصے میں ہی اچھی دوستی ہو گئی۔ میری تنظیم سی ایم ایم کی افتتاحی تقریب اور شام غزل دونوں پروگراموں میں انہوں نے تشریف لا کر میری عزت افزائی کی۔ انہیں براڈ کاسٹ لسٹ میں بھی شامل کر لیا تھا۔ جب بھی میں اپنا کالم اور یوٹیوب ویڈیوز شیئر کرتی وہ ہمیشہ حوصلہ افزائی کرتے ۔ سوشل ایشوز پر لکھے گئے آرٹیکلز کی تعریف کرتے اور ہنستے، ” آپ دبنگ ہیں ، بہت دلیر ہیں بھئی” ۔ وہ گریٹر مانچسٹر اور یورکشائر کے ادبی حلقوں کی مقبول شخصیت تھے ۔ وہ ان چند لوگوں میں سے تھے جو عورت کی عزت کرنا جانتے ہیں ۔ وہ عورت کو مرد کی نظر سے نہیں ،ایک برابر کے انسان کی حیثیت سے دیکھتے تھے ۔ ان کی یہ خوبی اور اس کے ساتھ ساتھ ان کے مزاج کا دھیما پن ، نرم لہجے اور دھیمی آواز میں گفتگو ، نظر میں احترام اور شرافت ایسی خوبیاں تھیں کہ ان سے بات کرتے ہوئے کبھی جھجک محسوس نہ ہوئی ۔ ان سے جب بھی کبھی بات ہوئی ادبی موضوعات پر گفتگو ہوئی ۔ ان کی بہت خواہش تھی کہ چند ہم ذہن لوگ مل کر ادبی محفلیں سجائیں جس میں ہم صرف ادبی گفتگو کریں۔ میں نے فوراً اپنے گھر میں ادبی بیٹھک لگانے کی پیشکش کی ۔کہ ماہانہ بنیاد پر ہم سب مل کر کسی کتاب کا مطالعہ کریں اور اس پر خیالات کا تبادلہ اور تبصرہ ہو۔ مگر افسوس کہ انکی اس خواہش کو ہم انکی زندگی میں عملی جامہ نہ پہنا سکے۔ کیونکہ ہماری تنگ نظر سوسائٹی میں ایک عورت کے لیے پروگریسو اور پوزیٹو کام کرنا بہت مشکل ہوتا ہے۔ حال ہی میں مجھے دیوان غالب کی تلاش ہوئی جو لائبریریوں میں نہیں ملی تو میں نے ظفر صاحب سے ذکر کیا، جھٹ سے بولے “میرے پاس ہے، میں آپ کو دے دوں گا” ۔ انہوں نے دیوان غالب کے ساتھ ساتھ کئی  اور کتابیں بھی دیں کہ “یہ بھی رکھ لیں”۔ سکون اور آگہی کی متلاشی کے لیے کتاب سے بڑھ کر کوئی بہتر تحفہ نہیں ہوتا ۔

دسمبر کے پہلے ہفتے میں ایک دل دہلا دینے والی فیس بک پوسٹ دیکھی جو ظفر صاحب کے دوست نے ان کے ہاسپٹل میں داخل ہونے کی تصویریں انکے ہارٹ اٹیک کی اطلاع کے ساتھ لگائی تھیں۔ ساتھ میں دعا کی درخواست کہ وہ انتہائی نازک حالت میں ہیں ۔ میں نے ادھر ادھر جاننے والوں سے رابطہ کیا۔ خیریت دریافت کرنے کو ان کے فون پر وائس میسج بھیجا، جس کا انہوں نے انتہائی  تکلیف میں نہ جانے کس طرح کوشش کر کے ایک کمزور نحیف آواز میں میسج بھیجا، ” مجھے ڈبل ہارٹ اٹیک ہوا ہے ، پھر نمونیا ہو گیا، بچے ہاسپٹل لے آئے ہیں، مگر اب چیزیں امپروو ہو رہی ہیں، آپ دعا کیجیے” ۔ امید بھی کیا چیز ہے کہ آخری دم تک قائم رہتی ہے۔ یہ میسج فوت ہونے سے ایک روز قبل کا ہے ، اگلے روز کوما میں چلے گئے ، اور اپنی نوجوان بچیوں اور شریک حیات کو تنہا چھوڑ کر سفر آخرت پر روانہ ہو گئے۔ ہم نے ان کے جنازے میں شرکت کی، خدا نے ہمیں ان کا آخری دیدار بھی نصیب کر دیا جس سے یہ یقین ہو گیا کہ وہ اب ہم میں نہیں رہے۔ چند روز قبل مجھے احساس ہوا کہ میں ابھی بھی اپنی ویڈیوز اور کالمز ان کے نمبر پر بھیج رہی تھی انکا فون جو اب ان کے بچوں کے پاس ہے، سوچا ان کو خوامخواہ پریشانی ہو رہی ہوگی، بھلا بچوں کو ہمارے کام میں کیا دلچسپی ۔ تو میں نے میسج کر کے ان کی بیٹی سے ان کی والدہ اور فیملی کی خیریت دریافت کی ، اور اس کے بعد بڑی ہمت جمع کر کے ظفر علی بلوچ کا نمبر اپنی براڈ کاسٹ لسٹ سے ڈیلیٹ کر دیا۔

نہیں معلوم تھا کہ زندگی سے جانے والوں کو تو ڈیلیٹ کرتے ہیں ، مگر دنیا سے جانے والوں کو ڈیلیٹ کرنے کا دکھ کیسا ہوتا ہے ، یہ اب محسوس ہوا ۔ دل میں ان کا جو احترام ہے وہ زندگی بھر ڈیلیٹ نہ ہوگا ۔ دعا ہے کہ اللہ پاک ظفر علی بلوچ کی مغفرت فرماۓ اور انہیں جنت الفردوس کی فضاؤں میں اعلیٰ  مقام عطا فرمائے۔ آمین

Advertisements
julia rana solicitors

دنیا کا کاروبار رواں دواں رہے گا، مشاعر ے بھی سجتے رہیں گے، ادبی تنظیموں کے پروگرام بھی ہوتے رہیں گے ، شاید میں ادبی بیٹھک  لگانے کا انتظام کر لوں، مگر ظفر علی بلوچ ہم میں نہ ہوں گے۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply