موسم سرما کا فلو۔۔۔۔ابرار حیدر چٹھہ/ہیلتھ بلاگ

فلو یا انفلوینزا ایک وائرس کی وجہ سے ہونے والی بیماری ہے یہ وائرس ہر سال اپنی ہیئت تبدیل کر لیتا ہے اور زیادہ تر موسم سرما میں بڑی تعداد میں بچوں، بڑوں اور بوڑھوں کو متاثر کرتا ہے۔ کان، گلا اور پھیپھڑے اس کی زد میں آتے ہیں، بخار کے ساتھ جسم اور سر میں درد، کھانسی، سانس لینے میں دشواری، گلا خراب، متلی یا قے اور دست لگنا اس کی علامات ہو سکتی ہیں۔
فلو کی ایک سے زیادہ اقسام ہیں، انفلوئنزا کے علاوہ دیگر وائرسز کے انفیکشن بھی انہیں علامات کے ساتھ آ سکتے ہیں۔اس سے ملتی جلتی بیماری سوائن فلو اور برڈ فلو ہیں جو ۲۰۰۹ اور ۲۰۱۰ میں بڑے پیمانے پر تباہی کا سبب بنیں۔
پھیلاؤ سے بچنے کی تدبیر!
یہ انسانی جسم کی رطوبت سے پھیلتا ہے، کھانسی یا چھینک سے ہوا میں جانےوالےرطوبت کے ذرات سے پھیلاؤ ممکن ہے، یا وہ اشیاء جو ایک فلو کے مریض کے استعمال میں رہی ہوں اور ان میں اس کا تھوک یا رطوبت ہو۔ صفائی کے بہتر اعمال سے اس کے پھیلاؤ کو کسی حد تک روکا جا سکتا ہے، جیسے
۱۔ باقائدگی سے اچھی طرح ہاتھ دھونا،
۲۔ کھانے پینے کے برتن علیحدہ رکھنا
۳۔ کھانسی یا چھینک کی صورت میں اپنا بازہ یا ٹشو منہ کے سامنے ڈھال بنانا
۴۔ رومال کے بجائے ٹشو کا استعمال اور استعمال کے فوری بعد پھینک کر ہاتھ دھونا
۵۔ جتنا ممکن ہو سکے سکول،کالج، دفتر وغیرہ سے چھٹی کر لی جائے تا کہ دوسروں تک پھیلاؤ روکا جائے۔
فلو وائرس علامات سے ایک دن پہلے سے لے کر علامات ٹھیک ہونے کے تقریباً چار دن بعد تک ایک انسان سے دوسرے تک پھیلتا ہے، بچوں، بوڑھوں اور دائمی مریضوں میں یہ دورانیہ اور بھی لمبا ہوتا ہے۔یہ بیماری عمر رسیدہ لوگوں، حاملہ خواتین، بچوں اور کسی دائمی مرض والے مریض جیسے کہ ذیابیطس، دمہ یا قوت مدافعت کی کمی والے مریضوں میں جان لیوا حد تک خطرناک ہو سکتی ہے۔
جب فلو ہو تو کیا کرنا چاہیے؟
صحت مند افراد میں زیادہ تر فلو ا بعد بغیر کسی علاج کے ایک ہفتے میں ٹھیک ہو جاتا ہے، اس ایک ہفتے میں جتنا ممکن ہو آرام کرنا چاہیے، پینے کی چیزیں پئیں، اور درد کے لیے پیراسیٹامول یا بروفن کھا سکتے ہیں۔اسپرین یا ڈسپرین کا استعمال بالکل نہ کریں، اس کے سائیڈ ایفیکٹ کافی ہیں خاص کر بچوں کو بالکل نہیں دینی چاہیے۔کھانسی کی دوا کا کوئی کردار نہیں بیماری کے جاتے ہی کھانسی بھی ٹھیک ہو جاتی ہے۔
ڈاکٹر کے پاس کب جانا چاہیے؟
درج ذیل علامات میں سے کوئی بھی ہو تو فوری ڈاکٹر کو دکھانا چاہیے
۱۔ سانس لینے میں دشواری
۲۔ چھاتی یا معدے میں دباؤ یا درد
۳۔ جسم میں پانی کی کمی محسوس ہونا جیسے چکر آنا یا پیشاب کی مقدار میں کمی
۴۔ ذہنی الجھن
۵۔ مسلسل قے آنا یا اپنی ضرورت کے مطابق پانی نہ پی سکنا
۶۔ جسم کا نیلا ہونا
۷۔ اوپر بیان کیے گئے افراد جن میں یہ بیماری زیادہ خطرناک ہو سکتی وہ ان علامات کا انتظار کیے بغیر ڈاکٹر کے پاس جائیں۔
ویکسین!
ابھی تک بچاؤ کا سب سے مؤثر طریقہ ویکسین ہے، یہ ویکسین چھ ماہ کی عمر کے بعد سب کو دی جا سکتی ہے،جن لوگوں کو کوئی پرانا مرض ہے ان کو اہل خانہ سمیت یہ ویکسین ضرور دی جانی چاہیے تا کہ ان سے بھی اس کا پھیلاؤ روکا جا سکے۔چونکہ وائرس ہر سال اپنی ہیئت تبدیل کرتا ہے اس لیے ہر سال فلو کے موسم سے پہلے ویکسین لگوانی چاہیے۔ویکسین کے سائیڈ ایفیکٹ میں انجکشن والی جگہ پہ درد، سوزش کے علاوہ کسی کسی کو ہلکا بخار ہو سکتا ہے، ویکسین سے فلو نہیں ہوتا کیونکہ اس میں وائرس مردہ حالت میں ہوتا ہے، جو بیماری پھیلانے کی سکت نہیں رکھتا۔
اینٹی وائرل کا کردار
اینٹی وائیرل دوائی کا کردار محدود ہے، یہ بیماری کے دورانیے کو کم نہیں کرتی، صرف بیماری کی شدت کو ہلکا کرتی ہے۔ صحت مند افراد جنہیں کوئی پرانا یا دائمی طبی مسئلہ نہ ہو تو یہ انہیں نہیں دی جاتی۔ صرف ان مریضوں کو دی جاتی ہے جن کی بیماری شدید ہو یا کوئی پرانا دائمی مرض ہو۔اینٹی باؤٹک کا بھی کوئی کردار نہیں ہے، کیونکہ وہ وائرس پہ کوئی اثر نہیں رکھتی، صرف تب دی جاتی ہے جب معالج یہ سمجھے کہ فلو کے ساتھ کوئی دوسرا ایسا مرض بھی ہے جس میں وہ دی جانی ضروری ہے۔
ہاتھ باقائدگی سے دھونے، فلو کے مریض سے دور رہنے اور ہر سال ویکسین لگوانے سے اس بیماری سے کافی حد تک بچا جا سکتاہے۔

Facebook Comments

ابرار حیدر
ابرار حیدر طب کے شعبہ سے منسلک برطانیہ میں مقیم ہیں۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply