میرے پیارے پاپا/روشین عاقب

آج قلم اٹھایا ہے کچھ لکھنے بیٹھی ہوں تو کچھ سمجھ نہیں آ رہا کہ کہاں سے شروع کروں۔ جب سے آپ ہمیں چھوڑ کر  گئے ہیں، ذہن ماؤف ہے، ہر چیز اپنی جگہ سے ہل گئی ہے ،نہ زمین وہاں پر رہی ہے نہ ہی آسمان اپنی جگہ پر ہے ۔ سخت بے زمینی ہے سخت لامکانی ہے۔ یہ دنیا وہ دنیا نہیں رہی جو آپ کے ہوتے ہوئے تھی۔ ہم سانس لے رہے ہیں چل پھر رہے ہیں لیکن یوں لگتا ہے ایک خلا ہے جہاں کوئی چیز معنی نہیں رکھتی۔

آپ چلے گئے میں سمجھ نہیں پا رہی کہاں کیسے چلے گئے۔ آپ نے تو کبھی ہمیں تنہا نہیں چھوڑا۔ آج بھی مجھے کہیں اکیلے جانا پڑتا تھا تو آپ پریشان ہو جاتے تھے ۔ آپ نے کبھی میرا ہاتھ نہیں چھوڑا ۔ آپ ایک سائبان تھے ۔ایک پھل دار درخت تھے ۔ ہم آپ سے طاقت لیتے تھے ۔ زندگی کے ہر مشکل مقام پر ۔میں نے سب سے پہلے آپ سے بات کی اور آپ نے ہمیشہ دو جملوں میں میری پریشانی دور کر دی ۔ میں ایک زاویے سے چیزوں کو دیکھ رہی ہوتی تھی اور آپ میرا ہاتھ پکڑ کر دوسری طرف لے جاتے تھے۔ اچانک ہر چیز تبدیل ہو جاتی تھی۔سارا منظر نامہ بدل جاتا تھا۔ وہی مسئلہ جو بہت بڑا لگ رہا ہوتا تھا ایک بے معنی سی بات میں تبدیل ہو جاتا تھا۔ ہم تو آپ کی اولاد ہیں لیکن جب سے آپ گئے ہیں مجھے سینکڑوں لوگ ملے جو یہی دعویٰ  کرتے ہیں کہ آپ نے ایک باپ کی طرح ان پر سایہ کیے رکھا تھا۔

اللہ نے آپ کو بے انتہا شہرت، عزت اور محبوبیت سے نوازا۔ لوگ آپ کے گرد پروانوں کی طرح طواف کرتے تھے ۔ آپ سے پیار کرتے تھے۔ عشق کرتے تھے ۔ سربراہان ممالک، بڑے بڑے آرٹسٹ، آپ کے پرستار، میں نے ہر کسی کو آپ کی محبت کا دم بھرتے دیکھا اور یہ بھی دیکھا کہ آپ جتنا عروج پاتے رہے اتنا ہی جھکتے رہے۔اور عاجز اور منکسر ہوتے گئے۔ آپ نے ہمیشہ اللہ کی رحمتوں ، نعمتوں کا بے انتہا شکر کیا ۔ آپ کے قدم ہمیشہ زمین پر جمے رہے۔

آپ نے کہا ” جو بھی کچھ ہے محبت کا پھیلاؤ ہے” میں نے خود دیکھا آپ نے کیسے محبتیں بانٹیں۔ دوسرے کے مسئلوں کو اپنا مسئلہ سمجھا ۔ ہر ایک کی تکلیف کو محسوس کیا ۔ ان کے چھوٹے چھوٹے کاموں کے لیے بھی اپنا وقت دیا ،کوشش کی ، تسلی دی، ہمت دی۔

پاپا۔۔۔ نہ جانے آپ یہ سب کچھ کیسے کر لیتے تھے ۔ آپ کا دل اتنا بڑا کیسے تھا ۔ آپ نے کبھی اپنی کسی نیکی کا بدلہ انسانوں سے نہیں  چاہا۔ کبھی اس اُمید پہ بھلائی نہیں کی کہ جواب میں سامنے والا آپ کا شکریہ ادا کرے گا۔ آپ نے ہمیشہ لوگوں کو معاف کیا ۔ ان کی غلطیوں کو جسٹیفائی کیا۔ آپ نے ایک بار جسے اپنا لیا اسے اس کی خامیوں، کمزوریوں، کوتاہیوں کے ساتھ اپنایا۔ پھر کبھی اس کا ساتھ نہیں چھوڑا۔

آپ ہمارے لیے ہمارے پاپا تھے لیکن جب ہم بڑے ہوئے تو معلوم ہوا کہ آپ کتنے بڑے تخلیق کار تھے ۔ آپ کی شاعری پڑھی اور آپ سے دوبارہ محبت ہو گئی ۔ آپ کی نظمیں جن میں کھل کر آپ واضح ہوتے ہیں ۔ کیسی کیسی خوبصورت نظم آپ نے لکھ دی۔ آپ کی نظموں میں جو بہاؤ ہے، روانی ہے ، تسلسل ہے، منظر نامہ ہے، ردھم ہے ، خیال ہے، تصور ہے ۔ ایک ایک نظم پڑھتی ہوں اور حیرت کے ایک جہاں میں کھو جاتی ہوں۔ جب بھی آپ کچھ نیا لکھتے فوراً  مجھے فون کرتے ، کہتے کہ میں نے نئی کچھ چیزیں لکھی ہیں پڑھ کے بتاؤ کیسی ہیں ، ابھی تمہیں بھیجتا ہوں ۔ ساتھ ہی آپ کا میسج آتا اور تھوڑی دیر بعد پھر کال۔۔۔
پڑھ لیں ؟
کیسی لگیں ؟
جب میں تعریف کرتی تو آپ ایسے خوش ہوتے جیسے کوئی بچہ خوش ہوتا ہے۔

آپ نے ڈرامہ لکھا اور ڈرامے کی تاریخ بدل دی ۔ ڈرامے کو اس معیار پہ لے گئے جہاں بہت کم دوسرے لوگ پہنچ پائے۔ کیسے کیسے کردار بنائے آپ نے  ۔۔۔ انسانی نفسیات، جذبات، احساسات کو کتنی گہرائی سے جانتے تھے آپ  ۔۔آپ کے کرداروں میں کتنے رنگ تھے ۔ کتنے شیڈز تھے، کتنی پرتیں تھیں، جب وارث کا چوہدری حشمت لوگوں کی زندگیاں اجیرن کرتا تھا وہیں اس کے اندر ایک وقار تھا شائستگی تھی ۔ اس کے اپنے اصول تھے وہ ان پر کبھی سمجھوتہ نہیں کرتا تھا ۔

مجھے آپ کے ڈرامے سمندر سے عشق تھا ۔ کتنے کردار بنائے آپ نے اور ہر کردار کے ہر پہلو کو دکھایا۔ آپ جب مکالمے لکھتے تھے تو آپ پہلے اسے خود بولتے تھے ۔ چار چار صفحے کے مکالمے میں بھی کہیں رکاوٹ نہیں ہوتی تھی ۔ اٹکاؤ  نہیں ہوتا تھا۔ آپ زبان کتنی خوبصورت استعمال کرتے تھے آپ کا کردار جس پس منظر سے متعلق ہوتا تھا ویسی ہی زبان بولتا تھا ۔ ویسی ہی اپروچ رکھتا تھا ۔ آپ کے سب کردار زمینی تھے۔ یہیں ہمارے آس پاس کے۔

اللہ نے آپ کو کتنا تخلیقی ذہن دیا ۔ میں نے ہمیشہ آپ  کو کچھ نہ کچھ لکھتے دیکھا ہے۔ لکھنے کے لیے آپ کو کبھی خاموشی اور تنہائی کی ضرورت نہیں پڑی۔ آپ گھر کے لاؤنج میں بیٹھ کر بھی لکھ لیتے تھے ۔ آپ نے بچپن میں بھی کبھی ہمیں نہیں ڈانٹا۔ ہم چاہے جو بھی اودھم مچاتے رہتے آپ وہیں خاموشی سے اپنا کام کرتے رہتے ۔ میں نے کبھی آپ کا موڈ آف نہیں دیکھا ۔ آپ ہمیشہ مسکراتے رہتے ۔ آپ بے انتہا پوزیٹو انسان تھے ۔ کبھی کسی مادی نقصان پر غمزدہ نہیں ہوئے۔ آپ نے ہمیشہ کہا جو چلا گیا اس کا غم نہ کرو ،یہ دیکھو ابھی بھی تمہارے پاس کتنا کچھ ہے ۔۔۔

میری تمام عمر یہ ہی حسرت رہی کاش میں آپ کی positivity کا دس فیصد بھی اپنے آپ میں پیدا کر سکتی۔

آپ نے ماما سے کتنا پیار کیا ۔ ان کا کتنا احترام کیا ۔ ان کی خوشی پوری کرنے کے لیے آپ نے اَن تھک محنت کی ۔ ان کے چہرے پر آنے والی ایک مسکراہٹ کے صدقے ہوتے رہے ۔ ان کے قدموں کے نیچے اپنی ہتھیلیاں رکھیں۔ ان کو ایک ملکہ کی طرح رکھا ۔ اب نہ جانے وہ کیا کریں گی۔۔
اب نہ جانے ہم کیا کریں گے !
پاپا آپ خاموشی سے چلے گئے ۔ نیند میں چپکے سے ۔۔۔

Advertisements
julia rana solicitors london

آپ نے سوچا ہو گا کہ اگر میں بیمار پڑ گیا تو میرے بچے پریشان ہو جائیں گے ۔ میری بیوی پریشان ہو جائے گی ۔ آپ نے کبھی ہمیں پریشان نہیں ہونے دیا تھا ۔ ہمارے سارے بوجھ اپنے کندھوں پر لیے رکھے ۔ آپ کا دل نہیں چاہا ہو گا کہ بچوں پر کوئی ذمہ داری ڈالوں۔ ۔
لیکن پاپا ایسے کیسے۔۔۔۔ ہم آپ کے بغیر کیسے جئیں گے ۔ ہمیں تو آپ کے بغیر جینا آتا ہی نہیں۔
ایسے کیسے پاپا۔۔۔۔ایسے کیسے؟

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply