ذرا اس حلب پر بھی توجہ دیجیے۔

ایڈیشنل سیشن جج راجہ خرم علی خان کی بیگم کا نو سالہ گھریلو ملازمہ طیبہ پر وحشیانہ تشدد، بچی نے بیان دیا کہ جھاڑو نہ ملنے پر بیگم صاحبہ نے چولہا جلا کر میرا ہاتھ اس پر رکھ دیا، اس سے پہلے بھی تشدد کرتے تھے اور مجھے پانی والی ٹنکی کے ساتھ سٹور میں باندھ کر بند کر دیتے تھے۔ (خبر جیو نیوز)
اسی دن لاہور کے علاقے گلدشت ٹاؤن میں 14 سالہ ملازمہ حرا کو جناح اسپتال کی ڈاکٹر تانیہ اور ان کے شوہر نے بہیمانہ تشدد کا نشانہ بنایا۔ حرانے الزام لگایا کہ ڈاکٹر تانیہ نے مبینہ طور پر تیل چھڑک کر اسے آگ لگانے کی کوشش کی اور اسے زہر کے ٹیکے کی دھمکیاں بھی دیں۔چائلڈ پروٹیکشن بیورو نے اے آر وائی نیوز کی خبر کا نوٹس لیتے ہوئے بچی کا علاج سرکاری خرچے پر کروانے کا اعلان کیا ہے۔متاثرہ بچی کی والدہ نے با اثر مالکان کی جانب سے ہراساں کیے جانے کا الزام لگایا اور وزیر اعلیٰ پنجاب سے انصاف کی اپیل کی۔
کراچی کے علاقے محمد علی سوسائٹی میں دو کمسن ملازمائیں گھریلو تشدد سے تنگ آکر فرار ہوگئیں، عظمیٰ اور سونیا نامی کمسن ملازماؤں کی عمریں دس سے تیرہ سال کے درمیان ہیں۔ایک مشکوک شخص نے بچیوں کو گاڑی میں زبردستی بٹھانے کوشش کی تو بچیوں نے شور مچادیا، شہریوں نے کمسن ملازماؤں کو مشکوک شخص سے چھین کر پولیس کے حوالے کردیا۔ پولیس نے جنگ ویب کے نمائندے کو بتایا کہ بچیوں کے والدین اسے مالک مکان کے حوالے کرکے ایڈوانس رقم لے گئے تھے اور گھر میں انھیں کام پر لگادیا گیاجہاں ان پر وقتاً فوقتاً تشدد کا سلسلہ شروع کر دیا گیا ۔ بچیوں کا کہنا ہے کہ وہ واپس اپنے گھر جانا چاہتی ہیں ۔بچیاں پولیس کو دیکھ کر ڈھاریں مار کر روتی رہیں جبکہ اس موقع پر رینجرز کے اہلکار بھی موجود تھے۔
گزشتہ دنوں ”سبزہ زار“ کے علاقہ میں ”رمیزہ“ نامی ایک گھریلو ملازمہ کا کیس سامنے آیا جو مالکان کی جانب سے شدید تشدد کا نشانہ بنی۔پولیس کو اطلاع ملتے ہی انہوں نے مالکان کو گرفتار کرلیا لیکن اگلے ہی روز انھیں رہا کر دیا گیا۔رمیزہ نے کہا کہ مجھے بالکل نہیں معلوم کہ میں کہاں کی رہنے والی ہوں مجھے یہ بھی نہیں پتہ کہ میری خالہ نے علی نامی آدمی کے ہاتھوں مجھے کیوں فروخت کیا۔مجھے اتنا پتہ ہے کہ میں ایک سال سے اس گھر میں رہ رہی ہوں میری مالکن مجھ سے سارے گھر کا کام کرواتی، سونے بھی نہیں دیتی سارا دن کام کرنے کے بعد جب بستر پر جاکر لیٹتی تو مالکن آکر مجھے مارنا شروع کر دیتی۔باہر جا کر بچوں کے ساتھ کھیلنے سے بھی منع کرتی تھی ایک دن میں باہر چلی گئی تو میری مالکن نے مجھے الیکٹرک راڈ لگایا اور پانی کے پائپ کےساتھ مارا۔
مجھے یاد ہے کچھ عرصہ پہلے مبینہ تشدد سے ایک وکیل کی دس یا بارہ سالہ گھریلو ملازمہ جان کی بازی ہار بیٹھی تھی، بچی کے گھر والوں کے ہاتھ میں لاش تھما دی گئی، وہ بہت روئے پیٹے اور الزام لگایا کہ ہماری بچی کو تشدد سے مارا گیا ہے، انکے رونے پیٹنے اور میڈیا کے دباؤ پر وکیل صاحب گرفتاربھی ہوئے تو ساری وکیل برادری وکیل صاحب کی حمایت میں انکی پشت پر کھڑی ہوگئی اور فوراً ہی وکیل صاحب ضمانت پر رہا ہو گئے، بعد میں اس کیس کا کیا بنا کوئی خبر نہیں۔
یہ چند ایک واقعات ہیں ،ماضی میں ایسے بیشمار واقعات میڈیا کے ذریعے منظر عام پر آچکے ہیں۔ کہیں کمسن گھریلو ملازماؤں کوجسمانی اور کہیں جنسی تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔ تشدد بھی ایسا کہ شیطان بھی انگلیاں داب لے، بیلٹوں ،پائپوں اور لوہے کے راڈ سے مارنا، استری سے جلانا، سلگتے سگریٹ سے نازک اعضاء کو داغنا، تھپڑوں اور گھونسوں کا نشانہ بنانا،سیڑھیوں سے دھکہ دینے جیسے واقعات میں نے پڑھ اور سن رکھے ہیں۔یہ سب کچھ ہوتا ہے ہمارے نام نہاد تعلیم یافتہ اور خوشحال گھرانوں میں، یعنی یہ حلب برپا ہے بڑی بڑی کوٹھیوں کے اندر۔
ہمارے معاشرے میں جاری اس درندگی کا سختی سے سدباب ہونا چاہیے، غریبوں کی بچیوں کو انسانوں جتنے نہ سہی ان امیروں کے گھروں میں پلنے والے پالتو جانوروں جتنے تو حقوق ملنے چاہیے۔ تف ہے ایسی نام نہاد اشرافیہ اور “بڑے لوگوں” پر اور تف ہے اس معاشرے پر جہاں مظلوم کو انصاف نہ مل پائے۔ان میں سے بیشتر واقعات پر وزیر اعلیٰ سمیت دیگر حکام نے نوٹسز بھی لئے مگر ہمارے کمزور کریمنل جسٹس سسٹم کے باعث ایک دو روز میں ہی ذمہ دار مالکان کی ضمانتیں ہوگئیں۔ابھی پہلے واقعہ کی بازگشت سنائی دے ہی رہی ہوتی ہے کہ ایسا ہی بچوں و گھریلو ملازمین پر تشدد کا دوسرا واقعہ رونما ہوجاتا ہے۔ہماری پولیس بھی ذمہ داران کے خلاف سخت کاروائی اور کریک ڈاﺅن کی بجائے چپ سادھ لیتی ہے،مگر میڈیا میں جب کوئی ایسا واقعہ سامنے آجائے توپولیس ،اعلیٰ حکام کے نوٹس پر کاروائی ڈالنے کے لئے ملزمان کو گرفتار تو کر لیتی ہے مگر دوسرے ہی دن ملزمان جیل سے باہر، جبکہ بچے چائلڈ پروٹیکشن بیورو میں حسرت کی تصویر بنے نظر آتے ہیں۔
درندگی اور جہالت کی یہ مثالیں ہمارے اندر چھپے جانور کو آشکار کرتی ہے، ہم امتی تو اس نبی کے ہیں جو ایک بار عید کی نماز پڑھانے عید گاہ جارہے تھے اور ساتھ میں انکے کمسن نواسے حسن و حسین بھی تھے کہ کیا دیکھتے ہیں کہ ایک معصوم بچہ میلے کچیلے کپڑوں میں ملبوس رو رہا ہے، استفسار پر بچے نے رسول اللہ کو بتایا کہ وہ یتیم ہے اور اسکے پاس پہننے کو اچھے کپڑے نہیں۔رسول خدا نے اس یتیم کے آنسو پونچھے اور کہا کہ آج کے بعد محمد تمھارے باپ ہیں، اس بچے کو گھر لایا گیا اور اماں عائشہ کے ہاتھوں نئے کپڑے پہن کر وہ بچہ نبی کے نواسوں کے ساتھ ہی عید گاہ پہنچا۔ ان بے آسراؤں اور غریبوں کی مجبوریوں سے چند ٹکوں کے عوض فائدہ اٹھانے والو اگر قانون تمھاری دولت کا غلام ہے اور تم اسکی پہنچ سے دور ہو تو کم ازکم اس خدا کی عدالت کا ہی احساس کر لو جہاں تمھاری دولت تمھارے کام نہیں آئے گی اور تمھارا پور پور ہی تمھارے خلاف گواہ ہوگا، اس خدا کی پکڑ بڑی سخت ہے اور سزا کیلیے اسکی تیار کردہ جہنم وہ جگہ ہے جہاں تمھارے ایک ایک ظلم کا جواب آگ اور سخت گیر فرشتوں کی صورت دیا جائے گا۔ سدھر جاؤ قبل اسکے کہ موت کا فرشتہ تمھاری بد بودار روحوں کو تمھارے جسم سے یوں کھینچ کر نکالے جیسے کانٹے دار جھاڑی پر ململ کا کوئی کپڑا ڈال کر گھسیٹا جائے تو وہ تار تار ہو جاتا ہے۔تمھاری ڈگریاں، تمھاری دولت، تمھارا سوشل سٹیٹس سب قبر کی مٹی میں مل کر فنا ہوجانا ہے اور ساتھ صرف تمھارے اچھے یا برے اعمال ہی جائینگے۔

Facebook Comments

احسن سرفراز
بندگی رب کا عہد نبھانے کیلیے کوشاں ایک گناہگار,اللہ کی رحمت کاامیدوار.

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply