مولانا علی میاں ( مولانا ابو الحسن علی ندوی) بطور اقبال شناس

مولانا علی میاں ( مولانا ابو الحسن علی ندوی) بطور اقبال شناس
ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی

Advertisements
julia rana solicitors

مولانا علی کی قلمی کاوشوں پر نظر ڈالیں تو ایک حیرت انگیز تنوع کا احساس ہوتا ہے۔ انہوں نے قرآن، حدیث، سیرت، فقہ، تاریخ، سوانح، تعلیم، تہذیب اور عمرانیات کے متعدد موضوعات پرمضامین نو کے انبار لگا دیے۔لیکن اس کثرت و وسعت کے باوجود ان کی تصانیف اپنے مفاہم و معیار کے اعتبار سے علمی و فکری او ر معنوی اعتبار سے نہایت گراں ادر اور بلند پایہ ہیں۔ مولانا کی قلمی تگ و تاز کا ایک شعبہ علامہ اقبال کے فکر و فن کا مطالعہ بھی ہے۔ فکر اقبال کے بعض پہلوؤں سے متعلق بعض مختصر تاثرات، شذارت کے علاوہ انہوں نے عربی زبان میں روانع اقبال شائع کی، جس کا اردو ترجمہ (از مولوی شمس تبریز خان) ”نقوش اقبال“ کے نام سے شائع ہو کر قبول عام کر چکا ہے۔
”نقوش اقبال“ اقبالیات کی منتخب اور معیاری کتابوں میں سے ہے اور اردو زبان و ادب اور اقبالیات کے طلبہ کے بعض نصابات میں بھی شامل ہے۔ مولانا علی میاں نے فکر اقبال کی روح کو جس خوبی و خوبصورتی سے اس کتاب میں پیش کیا ہے اس کی داد اردو کے چوٹی کے ادیبوں اور نقادوں نے دی ہے۔ جناب رشید احمد صدیقی کے خیال میں مولانا ابو الحسن علی ندوی پہلے عالم دین ہیں جس نے موجودہ صدی کی اردو شاعری کے سب سے بڑے نمائندہ اور عظیم شاعر اقبال کی شاعری اور شخصیت کا مطالعہ غیر معمولی شوق اوربصیرت سے کیا ہے۔۔۔ سید صاحب کا ذہن، جدید ذہن کے تقاضوں سے آشنا ہے۔۔(اور وہ ان کے کلام میں۔۔۔۔ورک و بصیرت (رکھتے ہیں)۔ معروف شاعر اور ادیب طاہر القادری ادبی نقدو انقاد میں کسی سے رو رعایت نہیں برتتے تھے۔ تبصرہ کتب کے ضمن میں ان کی شہرت ایک اکھل کھرے مبصر کی تھی۔ انہوں نے ”نقوش اقبال“ پر تبصرہ کرتے ہوئے دیکھا ”فاضل مصنف نے جس نزاکت اور دیدہ وری کے ساتھ اقبال کے اشعار کی تشریح وترجمانی کی ہے، اس کی جتنی بھی تعریف کی جائے کم ہے۔ کتاب پڑھتے ہوئے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ جیسیت شبلی کا قلم، غزالی کی فکر اور ابن تیمیہ کا جوش و اخلاص اس تصنیف میں کار فرما ہے۔۔ اقبال پر بڑی اچھی کتابیں آئی ہیں مگر یہ کتاب اس مجاہد عالم کی لکھی ہوئی ہے جو اقبال کے مرد مومن کا مصداق ہے۔“
ماہر القادری نے آخری جملے میں جو بات کہی ہے وہ بڑی اہم اور معنی خیز ہے ذخیرہ اقبالیات میں کچھ رطب و یا بس ملتا ہے کام کی چیزیں کم اور معیاری کتابیں تو بہت ہی کم ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ بیشتر اہل قلم نے جو کچھ لکھا وہ محض ایک رسم و روایت نباہنے کے لئے لکھا۔ اس کے برعکس مولانا علی میاں نے جو کچھ لکھا وہ ایک خاص عقیدے کے ساتھ ایمانی وابستگی اور اقبال کے ساتھ ایک فکری و معنوی اور قلبی وذہنی ہم آہنگی کی بنیاد پر لکھا چنانچہ ”نقوش اقبال“ کا مطالعہ کرتے ہوئے محسوس ہوتا ہے کہ، اقبال کی فکر اور روح اس طرح گھل مل گئی ہیں جیسے پھول میں خوشبو اور ستاروں میں روشنی“ (ماہر القادری)
حقیقت تو یہ ہے کہ اقبال کے متن پر نقد و انتقاد کے گل بوٹے سجانا اور تجزیہ و تحلیل کے نام پر طول طویل مضمون باندھنا اور کتابوں کے انبار لگانا بلاشبہ ایک طرح کا کمال فن اور ہنر مندی کی بات ہے۔۔۔۔۔۔ مگر فکر اقبال کی روح کو اپنے اندر جذب کر کے اور ان کی شاعری کا صیح فہم و تفقہ حاصل کر کے اقبال کی ترجمانی اور ان کے پیغام ”حیات ابدی“ کا ابلاغ بالکل ایک مختلف چیز ہے۔۔۔اقبالیات کے ادنیٰ طالب علم کی حیثیت سے راقم السطور کا احساس ہے کہ مولانا علی میاں امت مسلمہ کے بارے میں علامہ اقبال کی تمناؤں اور آدرشوں کے نقیب تھے۔ ”بال جبریل“ کی نظم ”ساقی نامہ“ میں علامہ کہتے ہیں
مرے دیدہ تر کی بے خوابیاں
مرے د ل کی پوشیدہ بے تابیاں
مرے نالہ نیم شب کا نیاز
مری خلوت و انجمن کا گداز
امنگیں مری،آرزوئیں مری
امید یں، جستجوئیں مری
مری فطرت آئینہ روزگار
غزالان افکار کا مرغزار
مرادل، مری رزگ گاہ حیات
گمانوں کے لشکر، یقیں کا ثبات
یہی کچھ ہے ساقی متاع فقیر
اسی فقیری میں ہوں میں امیر
مرے قافلے میں لٹا دے اسے
لٹا دے، ٹھکانے لگا دے اسے
مولانا علی میاں اسی ”متاع فقیر“ کے امین تھے۔ راقم السطور کی طرح جن اصحاب نے بھی مولانا کی تحریروں کا کچھ نہ کچھ مطالعہ کیا ہے انہیں اندازہ ہو گا کہ مولانا کے لفظوں، جملوں اور انداز و اسلوب میں علامہ ہی قلب مضطر اور انہی کی امنگوں آرزؤوں، امیدوں اور انہی کے سوز جگر کا عکس ِ جمیل نظر آتا ہے۔ مولانا کی درجنوں تصانیف، تقاریر، خطابات،اور ان کی خود نوشت ”کاروان ِزندگی“ اقبال کے معنوی فیض سے معمور ہے۔
علامہ اقبال سے علی میاں کی ذہنی ربط دس برس کی عمر میں قائم ہوا، کلام اقبال کے مسلسل مطالعے سے یہ ربط نشو ونما پاتا رہا۔ ان کے عزیز دوست مسعود عالم مولانا علی میاں کے بقول علامہ اقبال کے ”بڑے پر جوش مبلغ تھے۔“ اور ااقبال کے بارے میں ان کی حمایت، حمیت تک پہنچی ہوئی تھی۔ اسی زمانے سے دونوں دوستوں نے اقبال کو عرب دنیا میں متعارف کرانے کا عزم کر لیا۔ علامہ کی وفات پر یہ عزم اور پختہ ہو گیا۔ علی میاں نے مسعود عالم صاحب کو پٹنہ خط لکھا کہ آپ ان کی حیات و پیغام پر لکھیں اور میں ان کے کلام کو عملی جامعہ پہناؤں گا۔علی میاں کہتے ہیں کہ ہم نے اس مہم میں باہمی تعاون کا وعدہ کیا۔ مسعود عالم نے بعض عربی جرائد پر متعدد مضامین لکھے، مگر ان کی زندگی نے وفا نہ کی چنانچہ عربوں کو اقبال سے روشناس کرانے کر فرض علی میاں نے ادا کیا اور خوب کیا۔ علام عرب میں اقبال شناسی کے فروغ میں عبدالوہاب عزام کے بعد غالباً علی میاں کا حصہ سب سے اہم ہے۔ بقول رشید احمد صدیقی۔
”کیا مبارک یہ اتفاق ہے کہ عربی زبان میں عرب قوم کو اقبال کے پیغام سے آشنا کرنے کا امتیاز سید صاحب کے حصے میں آیا۔“
اقبال کی شاعری اور فکر سے اسی وابستگی کا نتیجہ ہے کہ موضوع کچھ بھی ہو اقبال کے اشعار ان کے محسوسات و جذبات کا روب دھار کر علی میاں کی دلی ترجمانی کا ذریعہ بنتے ہیں۔ جب وہ ہسپانیہ جاتے ہیں اور اپنے بقول وہاں سے دل پر چوٹ لے کر آتے ہیں تو بے اختیار ان کا ذہن علامہ کے اس مصرعے کی طرف منتقل ہو تاہے۔
آہ صدیوں سے ہے تیری فضا بے اذاں
آکسفورڈ یونیورسٹی میں پیش کردہ مقالے کو وہ ”پس چہ باید کرد۔۔۔۔“ کی نظم ”حرفے چند با امت عربیہ“ پر ختم کرتے ہیں کہ اس سے ان کے خیال میں ”نہ صرف کانوں بلکہ دلوں اور روحوں کا ذائقہ بھی تبدیل ہوگا۔“ مسلمانوں کے عروج پر زوال پر بحث کے ضمن میں وہ امت مسلمہ کو امید کی شعاع قرار دیتے ہیں تو اقبال کی نظم ”ابلیس کی مجلس شوریٰ“ کے بعض اشعار ان کے احساسات کے ترجمان بنتے ہیں۔ کبھی وہ عالم اسلام کے حالات پر اقبال کے الفاظ میں اس طرح شکوہ سنج ہوتے ہیں۔
نہ اٹھا پھر کوئی رومی عجم کے لالہ زاروں سے
وہی آب و گل ایراں، وہی تبریز ہے ساقی
اقبال کے بعض مصرعے اور ٹکڑے علی میاں کی تقاریر و مضامین کے عنوان یا ضمنی عنوان بنتے ہیں، جیسے پاجا سراغ زندگی۔۔ کسی جمشید کا ساغر نہیں میں۔۔۔ محبت مجھے ان جوانوں سے ہے۔۔۔ خاص ہے ترکیب میں قوم رسول ہاشمی۔۔۔حکمراں ہے اک وہی باقی بتانِ آذری۔۔۔۔مقصود ہنر سوز حیات ابدی ہے۔۔۔ خدا کی بستی دکاں نہیں ہے۔۔۔۔۔وغیرہ در اصل ان کی جملہ تصانیف میں علامہ اقبال فکر اور پیغام اقبا ل ہی کی روح کار فرما ہے۔ ہمارے جید علمائے کرام میں غالباً کسی نے بھی علامہ اقبال سے اس قدر اعتنا نہیں کیا او نہ ان کی شاعری سے اس قدر استشہاد کیا ہے، جتنا علی میاں نے۔۔۔۔
علامہ اقبال سے مولانا علی میاں کے تعلق خاطر کا ایک زاویہ یہ بھی ہے کہ اقبال کے خطبہ الہٰ آباد کی بنیاد پر وجود میں آنے والا ملک پاکستان، علی میاں کی نظر میں ”کاروانِ ملت کا جلیل القدر مسافر“ اور ملت اسلامیہ کی ترقی و عروج اور سر بلندی کے باب میں ان کی امیدوں اور تمناؤں کا مرکز ہے کیو ں کہ ”یہ ملک بلند مقام اور بلند نسبت پر قائم ہوا تھا“
مولانا پاکستان کی سر زمین اور اس کی مٹی کی زرخیزی کے قائل تھے اور اہل پاکستان کے دل و دماغ کی زرخیزی کے مداح بھی مگر انہیں افسوس تھا کہ یہاں ”مردم خیزی کاکام ابھی شروع نہیں ہوا۔ مولانا علی میاں کی دلی تمنا تھی کہ پاکستان میں اسلام کو حقیقی اقتدار نصیب ہو، اور ان کے خیال میں یہ اسلامی معاشرے کے قیام اور اسلامی شریعت کے نفاذ کے زریعے ہی ممکن ہے۔ 1978میں کراچی یونیورسٹی میں ایک تقریر کا حسب ذیل حصہ پاکستان کی موجودہ صورتِ حال میں بہت معنی خیز ہے۔ مولانا کہتے ہیں۔
”آج ملت اسلامیہ پاکستان کو ایک ضرب کی ضرورت ہے اس لئے کہ قوموں کی کشتی اس کے بغیر ساحل تک نہیں پہنچ سکتی، جن حالات سے ہم گزر رہے ہیں۔ وہ ایک معجزے کے طالب ہے۔ یہ معجزہ اسلام کے ابدی پیغام میں مضمر ہے۔
بے معجزہ دنیا میں ابھرتی نہیں قومیں
جو ضرب کلیمی نہیں رکھتا، وہ ہنر کیا

Facebook Comments

مہمان تحریر
وہ تحاریر جو ہمیں نا بھیجی جائیں مگر اچھی ہوں، مہمان تحریر کے طور پہ لگائی جاتی ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

براہ راست ایک تبصرہ برائے تحریر ”مولانا علی میاں ( مولانا ابو الحسن علی ندوی) بطور اقبال شناس

Leave a Reply